جنم لیتے نئے تضادات
گزشتہ دنوں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے پاکستان میں ایک نئے تضاد کو جنم دیا۔جب اس کی موت کے غم سے...
گزشتہ دنوں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے پاکستان میں ایک نئے تضاد کو جنم دیا۔جب اس کی موت کے غم سے نڈھال ایک مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ نے نہ صرف اسے شہید قرار دیا،بلکہ فرطِ جذبات میں سیکڑوں فوجیوں اور ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کی موت کوبھی متنازع بنادیا ۔ایسی صورتحال میں فوج کی جانب سے ردعمل فطری تھا۔اس لیے ISPR نے پریس ریلیز کے ذریعے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان سے اس ہرزہ سرائی پرغیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا۔ لیکن جیساکہ توقع تھی اس جماعت کی شوریٰ نے نہ صرف معافی مانگنے سے انکارکردیا، بلکہ الٹا فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا دیا۔ اس جواب الجواب نے صورتحال کو مزید گمبھیر اور پیچیدہ بنادیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ ISPRکی حالیہ پریس ریلیز کسی بھی طورپر نہ تو سیاسی ہے اور نہ سیاسی عمل میں مداخلت ہے۔بلکہ فوج کے افسران اور جوانوںکے علاوہ عام شہریوں کی قربانیوں کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کرنے اور اس کے مورال کوگرانے کی کوششوں کے خلاف ردعمل ہے۔ دوسرے متوشش شہریوں نے ہمیشہ چند جرنیلوںکی جانب سے اقتدار پر قبضہ کے ایڈونچر کی مخالفت کی ہے اور آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔لیکن فوج کے قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے کردار پر اس کی عزت وتوقیرقومی فریضہ ہے، جس سے کوئی محب وطن پاکستانی صرف نظر نہیں کرسکتا۔اس لیے اس مذہبی و سیاسی جماعت کا موقف منطقی استدلال سے عاری اور ایک ایسے دہشت گرد کی حمایت و سرپرستی کااظہار ہے، جس کے ہاتھ ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے آلودہ ہیں۔
پاکستان میں ریاست کے منطقی جواز سے نظم حکمرانی تک اورمختلف قومی امور پر فیصلہ سازی سے عملدرآمد تک مختلف نوعیت کے تضادات پائے جاتے ہیں۔ ان تضادات کے جنم لینے کا بنیادی سبب حکمران اشرافیہ اور سیاسی قیادتوں کی کوتاہ بینی اور سیاسی عزم میں کمی ہے،جو اہم قومی امورپر غیر سنجیدہ اورسطحی موقف اختیار کرنے کے ساتھ سیاسی اصطلاحات اور الفاظ کے چنائو میں بھی غیر محتاط رہتے ہیں۔اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کے بارے میں پاکستانی عوام میں فکری تقسیم تین دہائیوں سے جاری ہے۔لیکن حالیہ برسوں میں یہ تقسیم مزید گہری ہوئی ہے، کیونکہ تحریک انصاف سمیت بعض مذہبی جماعتیں شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کرتے ہوئے انھیں Stakeholderقرار دے رہی ہیں۔ اس کے برعکس عوام کا ایک بڑا حصہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ مذاکرات کن بنیادوں پر ہوں گے اور ان کا واضح ایجنڈا کیوں سامنے نہیں لایا جارہا۔ چونکہ پاکستان میںسیاست اور سماجی ڈھانچے سے جڑے بعض حساس امور ومعاملات کی غلط تفہیم وتشریح کے سبب عوام کے ذہنوں میں مختلف نوعیت کے ابہام پیداہوچکے ہیں،اس لیے ان معاملات ومسائل پر گفتگو کی ضرورت دو چند ہوگئی ہے۔
اول، کوئی بھی ذی شعور شہری پاکستان کے مذہبی تشخص یا عوام کے مذہب سے والہانہ لگائو کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہات کا شکارنہیں ہے۔ لیکن مذہب سے وابستگی کا مطلب کسی ایک مسلک ،فرقہ یا مکتبہ فکر کی بالادستی ہرگز نہیں ہوتی۔یہ بات سیاسی رہنمائوں سے منصوبہ سازوں تک اوراہل دانش سے عام شہریوں تک ہر ایک کے ذہن میں واضح ہونا چاہیے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے تمام فرقوں، مسالک اور مکتبہ فکر نے یکساں طور پر حصہ لیا تھا، اس لیے پاکستان میںکسی ایک مسلک یا فرقہ کی بالادستی اور اس کے مخصوص فقہی قوانین کانفاذ سماجی ڈھانچہ کو متاثر کرنے کا سبب بنے گا۔ اس کے بجائے ایسے قوانین کا نفاذ ضروری ہے، جو مسلمانوں کے تمام فرقوں، فقہوںاور مسالک کے علاوہ غیر مسلموں کے بنیادی شہری حقوق کو یقینی بنانے کا سبب بنیں۔ یہی بانیِ پاکستان کا ویژن تھا اور یہی ریاست کے قیام کابنیادی تصورتھا۔مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ان اہداف کو نظر انداز کردیا گیا،جس کا نتیجہ آج پورا ملک بھگت رہاہے۔
دوئم، سقوط ڈھاکا کے بعد جو متفقہ آئین تشکیل دیا گیا، اس کے مسودے کی مولانا مفتی محمودمرحوم اور علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم سمیت اسمبلی کے اندر اور باہر تمام جید علماء نے توثیق کی تھی۔اسوقت اور نہ اس کے بعد معاشرے کے کسی بھی طبقے یا حلقے کی جانب سے آئین کے اسلامی ہونے کے بارے میں کوئی اعتراض سامنے آیا۔ اس لیے جوعناصرآج پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی قرار دے رہے ہیں،وہ دراصل مفتی محمود مرحوم اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم جیسے جید علما کی علمی و دینی حیثیت پرشکوک کا اظہار کررہے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ 1973ء کے آئین نے سقوط ڈھاکا کے بعدپاکستان کی بکھرتی ہوئی جغرافیائی تشکیلات کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ آئین کوئی حتمی دستاویز نہیں ہوتا۔اس میں وقت اور حالات کے تحت ترامیم واضافے کی ضرورت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ عمل ماورائے پارلیمان نہیں، بلکہ پارلیمان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس لیے اگر کوئی جماعت یا شہریوں کا کوئی گروہ اس میں ترامیم واضافہ یا اسے مکمل تبدیل کرنے کا خواہشمند ہے، تو اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عوام کوموبلائز کرے اور اس قدرمینڈیٹ حاصل کرے جو حسب منشا تبدیلیوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ماورائے پارلیمان آئین کی تنسیخ یا اس میں کسی قسم کی تبدیلی کسی بھی طورپر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
سوئم،دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک انتہائی حساس اورپیچیدہ ایشوہے،جس نے پاکستانی عوام کوسیاسی اور فکری طورپر بری طرح تقسیم کردیاہے۔ اس مسئلے کے الجھنے کا ایک سبب منصوبہ سازوں کی 66برس کی غلط پالیسیاںہیں،جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ مذہبی جماعتوں کی عوامی قبولیت محض5فیصد کے قریب ہے، انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس قدر طاقتور اور توانا کردیا کہ وہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آگئیں۔اس کے علاوہ بیشتر سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ نگاروں کا دہشت گری کے خلاف جنگ کے بارے میں دہرا معیار بھی ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔جس کے باعث نہ صرف عوامی سطح پر ابہام پیدا ہورہاہے، بلکہ اس حوالے سے پالیسی سازی کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔ دراصل یہ حلقے جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہونے والی افغان جنگ سے دانستہ صرف نظر کرتے ہوئے اپنی تنقید کامحور 9/11کی بعد کی صورتحال کو بناتے ہیں۔جس کی وجہ سے پوری صورتحال پیچیدگیوں کا شکار ہورہی ہے۔
چہارم، امریکا کاعالمی استعماری کردار اور پاکستان کے قومی امور میںاس کی مداخلت پر بھی پاکستان میں متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ ملک کے لبرل اور ترقی پسند حلقے اس خطے میں مذہبی شدت پسندی کے رجحانات میں اضافہ کاذمے دارامریکا کو سمجھتے ہیں ، جس نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر مذہب کو بطور آلہ کار استعمال کیا ۔ لیکن یہ سلسلہ صرف9/11سے مشروط نہیں ہے، بلکہ اس کی کڑیاں 1980ء کے عشرے میں پیوست ہیں، جب امریکا نے سوویت یونین کے خلاف گوریلاجنگ کے لیے پوری دنیا سے جنگجو جتھے اس خطے میں بھجوائے اور ان کی ہر طرح سے امدادکی۔اس لیے ان حلقوں کے مطابق اس وقت ہمارا فوری مسئلہ امریکی استعمار کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنے کے بجائے مذہبی شدت پسندی کا راستہ روکنا ہے۔جب کہ وہ عناصرجوآج حکومت پاکستان اور فوجی اسٹبلشمنٹ پر امریکا نوازی کا الزام لگارہے ہیں، کل تک خود بھی اس تعلق سے مستفیض ہوتے رہے ہیں۔اس لیے وہ صرف9/11کے بعدپیداہونے والی صورتحال کو نشانہ بنارہے ہیں۔انداز نظر perceptionکا یہ فرق عوامی سطح پر تقسیم کا سب سے بڑا سبب بناہواہے۔جس کی وجہ سے پاکستان قومی، علاقائی اور عالمی معاملات میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرپارہا۔
بہر حال دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے منطقی انجام نے کئی نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں موجود شدت پسند امریکا دشمنی کا نام لے کر پاکستان کے معصوم اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔وہ بھرے بازاروں میں بم دھماکے اور خود کش حملے اورفوجیوں کوسفاکی کے ساتھ قتل اور فوجی تنصیبات پر حملے کرکے دراصل پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔حالانکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی ڈروں حملوں میں قبائلی علاقوں میں عام شہریوں کے جانی اور مالی نقصان کا تخمینہ 5فیصد سے بھی کم ہے۔لہٰذا ڈرون حملوں کودہشت گردی کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔اس لیے اب وقت آگیاہے کہ پاکستان کے منصوبہ ساز اور خاص طورپرسیاسی جماعتیں نت نئے تضادات میں الجھنے کے بجائے خودساختہ تصورات(Myths)سے باہر نکل کر تبدیل ہوتے ہوئے عالمی اور علاقائی منظر نامہ کا ادراک کریں۔تاکہ ماضی کی غیر منطقی پالیسیوں سے کناراکشی کرتے ہوئے فعال اور متحرک حکمت عملیاں تیار کی جاسکیں ۔