لمحوں کی غفلت
ہم آج کل ایک ایسی بحث میں پڑ گئے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔ بات چلی تھی پاکستانی طالبان سے مذاکرات سے ...
ہم آج کل ایک ایسی بحث میں پڑ گئے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔ بات چلی تھی پاکستانی طالبان سے مذاکرات سے جو امریکی ڈرون حملے جس میں مبینہ اطلاعات کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مسلسل تعطل کا شکار ہیں اور جن کے انعقاد کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ہم سب مختلف سیاستدانوں کے بیانوں کو لے کر ایک غیر ضروری اور بے نیتجہ مہم جوئی پر نکل پڑے ہیں۔ سماجی ویب سائٹ کی مانند بے ہنگم اور بے مقصد بحث جس کا انجام وقت اور توانائی کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہم سب لوگ پھر بھی کیے جا رہے ہیں۔ پہلے مولانا فضل الرحمان کے اُس بیان کے بعد بہت شور مچایا گیا جس میں اُنہوں نے اُس کتّے کی موت کو شہادت کا درجہ دینے سے متعلق اپنے سنہری اور قیمتی خیالات کا اظہار کیا اور تاحال اُنہوں نے اپنا یہ بیان واپس نہیں لیا مگر ساری قوم اب یکجا اور کمر بستہ ہو کر جماعتِ اسلامی کے امیر منور حسن کے اُس اخباری بیان پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے جیسے نعوذ باللہ اُنہوں نے کوئی انتہائی غیر مناسب غیر اخلاقی اور شرعی غلطی کر دی ہو۔
حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ شہادت کا معاملہ انسانوں کی عقل سے بالا تر ہے۔ کون اللہ کی راہ میں مارا گیا اِس کا فیصلہ گناہوں کا مرتکب ایک عام انسان قطعی طور پر نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کِس نے صحیح معنوں میں اپنی جان صرف اُسکی محبت میں نثار کر دی ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اِس غیر اہم بات کو لے کر مسلسل کئی روز سے اپنی انرجی اور توانائی ضایع کیے جا ر ہے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امریکی حملے میں مارا جانے والا شہید نہیں ہو سکتا اور امریکیوں کو ایک اسٹرٹیجک معاہدے کے تحت لاجسٹک سپورٹ اور انفارمیشن فراہم کرنے والا معصوم اور بے گناہ ہے تو اِس سے مرنے والے کی صحت اور حالت پر کیا فرق پڑے گا۔ اُس کا انجام تو اُسے ہی معلوم ہے۔ وہ اِس وقت عالمِ برزخ میں عیش و آرام سے زندگی گذار رہا ہے یا قبر کے عذاب کے مزے چکھ رہا ہے۔ ہم کم عقل اور کم علم والے بھلا اُسکی قبر کا حال کیسے جان سکتے ہیں۔
شہادت سے متعلق ہمارے بھولے اور ناسمجھ لوگ ایسی ایسی توجیہہ اور دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ عقل دنگ و حیران رہ جائے۔ اُن کی نظر میں رمضان شریف میں مرنے والا فرد انتہائی افضل اور مقدم ہے۔ خاص کر 27 رمضان کو دارِ فانی سے کوچ کرنے والا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ چند سال پہلے رمضان کے مقدس مہینے میں ہمارے شہر حیدرآباد میں نقلی اور دیسی شراب پی کر تقریباً پندرہ بیس افراد اِس دنیا سے رخصت ہو گئے تو کہنے والوں نے اُنہیں بھی شہید کا درجہ دیکر جنت کا مستحق قرار دے دیا تھا ۔ اِسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یہ سوچ اپنے اپنے انداز سے خوب پھل پھول رہی ہے۔ ایک فسادی ہنگامہ اور بلوہ کرتے ہوئے سیکیورٹی اہل کاروں کی گولی کا نشانہ بن جائے تو وہ بھی شہید ہے۔ کوئی جمہوریت کی خاطر جان دیکر شہید ہے تو کوئی اُسے قائم و دائم رکھنے کی آرزو میں شہید ہے۔ کوئی اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کی خاطر ہر ستم اور ہر ظلم بر داشت کر کے طالبِ شہادت ہے تو کوئی وطن فروشی جیسے جرم کے ارتکاب کے بعد بھی شہادت کا مستحق اور حقدار۔
اِنہی سیاسی جماعتوں میں جہاں سیاسی شہداء کی تعداد بہت ذیادہ ہے منور حسن کے بیان پر آج کل بہت غصہ اور برہمی دکھائی جا رہی ہے۔ کئی روز کی زبانی و اخباری اشتعال انگیزی دکھانے کے باوجود منور حسن نے ابھی تک اپنا بیان واپس نہیں لیا ہے اور نہ اُس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ البتہ جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ نے اِس سلسلے میں جماعت کا مؤقف کُھل کر بیان کر دیا اور یوں یہ چند دنوں کی گرمی موسم کے ساتھ ساتھ اُسی طرح ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے جس طرح مولانا فضل الرحمن کے اُس بیان کے بعد کہ امریکی اگر کسی کتّے کو بھی ماریں گے تو میں اُس کتے کو شہید کہوں گا، چند دنوں کی فضول اور ضمنی بحث کے بعد چُپ سادھ لی گئی ہے۔
ایسا ہی کچھ زور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اُن دنوں دکھایا تھا جب وفاقی وزیرِ داخلہ نے اپنے ایک خطاب میں دہشت گردی میں مارے جانے والوں کی اصل تعداد کا ذکر چھیڑا تھا ۔ تین دنوں تک سینیٹ کا اجلاس ایوان سے باہر لگانے کے بعد بالاخر نتیجہ وہی ہوا جس کا سو فیصد امکان تھا۔ وزیر داخلہ نے نہ اِس سلسلے میں اپنا بیان واپس لیا اور نہ کوئی معافی مانگی۔ اور اپوزیشن خود کو فعال اور متحرک ثابت کرنے کی تین دنوں کی مشق کے بعد واپس ایوان میں چلی آئی۔
قوم کو کئی دنوں تک غیر ضروری باتوں میں اُلجھائے رکھنے اور شہادت جیسے موضوع کو بلاوجہ موضوعِ گفتگو بنائے رکھنے کے بعد جس کا نتیجہ بالاخر لاحاصل رہا اور یہ طے نہیں ہو پایا کہ اصل شہید کون ہے وہ کتّا جو امریکی حملے میں مارا جائے ، یا وہ سربراہِ طالبان جو امریکی ڈرون حملے میں مارا جائے یا وہ شہید و غازی ہمارے محسن پاکستانی فوجی جوان جنھیں دہشت گردی کی اِس عالمی جنگ میں زبر دستی ملوث کر دیا گیا ہو اور جو اِس جنگ میں دوسرے فریق کے غم و غصے اور عتاب کا شکار ہو گئے ہوں۔ اِس عالمی جنگ سے پہلے ہم نہ بموں کے حملوں کا نشانہ تھے اور نہ خود کش بمبار کے ٹارگٹ۔ یہ سب ہمیں اُس جنگ میں امریکی محبت نبھانے کے جرم میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے جس کا اعاد ہ ہمیں 2001 ء میں سابق امریکی عہدیدار رچرڈ آرمٹیج کے ایک فون کے جواب میں کرنا پڑا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی ختم ہونے کے قریب تھا اور ساری قوم مذاکرات کے ایک متفقہ مؤقف پر متحد اور یک جا ہو چکی تھی کہ اچانک ایک ایسا ڈرون حملہ ہو جاتا ہے اور سارا نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔
اب طالبان امریکیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی اُس کا ذمے دار گردانتے ہوئے مذاکرات سے یکسر انکاری ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں ایک گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے اور ہم ایک انتہائی غیر سنجیدہ اور بے مقصد بحث میں ملوث ہو کر قوم کا قیمتی وقت کا ضایع کیے جا رہے ہیں۔ اِس بحث کو طول دینے والوں میں اُن عناصر کی زیادہ دلچسپی دکھائی دیتی ہے جنھیں طالبان سے مذاکرات کی کامیابی سے زیادہ اُن کی ناکامی عزیز ہے۔ اور وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ اُن کے سیاسی عزائم اور ارادے کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں۔ جب کہ تحریکِ انصاف کے عمران خان اِن مذاکرات کے زبردست حامی اور خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے شہادت اور لفظوں کی اِس فضول اور غیر ضروری بحث میں کوئی بیان بازی نہیں کی گئی۔ قوم کو ایک سنجیدہ اور بالغ نظر قیادت کی فوری ضرورت ہے جو اِس پیچیدہ صورتحال میں قوم کی درست سمت میں رہنمائی کر سکے۔ حالات کی سنگینی ہمیں اِن فضول مشقوں میں پڑنے کی بجائے دور اندیش اور دانشمندانہ فیصلے کرنے کی متقاضی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور لعنت ملامت بہت ہو چکی ۔ لمحوں کی غفلت ہمیں تباہ و برباد کر دے گی۔ قوم اب مزید اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ شہادت کا معاملہ انسانوں کی عقل سے بالا تر ہے۔ کون اللہ کی راہ میں مارا گیا اِس کا فیصلہ گناہوں کا مرتکب ایک عام انسان قطعی طور پر نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کِس نے صحیح معنوں میں اپنی جان صرف اُسکی محبت میں نثار کر دی ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اِس غیر اہم بات کو لے کر مسلسل کئی روز سے اپنی انرجی اور توانائی ضایع کیے جا ر ہے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امریکی حملے میں مارا جانے والا شہید نہیں ہو سکتا اور امریکیوں کو ایک اسٹرٹیجک معاہدے کے تحت لاجسٹک سپورٹ اور انفارمیشن فراہم کرنے والا معصوم اور بے گناہ ہے تو اِس سے مرنے والے کی صحت اور حالت پر کیا فرق پڑے گا۔ اُس کا انجام تو اُسے ہی معلوم ہے۔ وہ اِس وقت عالمِ برزخ میں عیش و آرام سے زندگی گذار رہا ہے یا قبر کے عذاب کے مزے چکھ رہا ہے۔ ہم کم عقل اور کم علم والے بھلا اُسکی قبر کا حال کیسے جان سکتے ہیں۔
شہادت سے متعلق ہمارے بھولے اور ناسمجھ لوگ ایسی ایسی توجیہہ اور دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ عقل دنگ و حیران رہ جائے۔ اُن کی نظر میں رمضان شریف میں مرنے والا فرد انتہائی افضل اور مقدم ہے۔ خاص کر 27 رمضان کو دارِ فانی سے کوچ کرنے والا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ چند سال پہلے رمضان کے مقدس مہینے میں ہمارے شہر حیدرآباد میں نقلی اور دیسی شراب پی کر تقریباً پندرہ بیس افراد اِس دنیا سے رخصت ہو گئے تو کہنے والوں نے اُنہیں بھی شہید کا درجہ دیکر جنت کا مستحق قرار دے دیا تھا ۔ اِسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یہ سوچ اپنے اپنے انداز سے خوب پھل پھول رہی ہے۔ ایک فسادی ہنگامہ اور بلوہ کرتے ہوئے سیکیورٹی اہل کاروں کی گولی کا نشانہ بن جائے تو وہ بھی شہید ہے۔ کوئی جمہوریت کی خاطر جان دیکر شہید ہے تو کوئی اُسے قائم و دائم رکھنے کی آرزو میں شہید ہے۔ کوئی اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کی خاطر ہر ستم اور ہر ظلم بر داشت کر کے طالبِ شہادت ہے تو کوئی وطن فروشی جیسے جرم کے ارتکاب کے بعد بھی شہادت کا مستحق اور حقدار۔
اِنہی سیاسی جماعتوں میں جہاں سیاسی شہداء کی تعداد بہت ذیادہ ہے منور حسن کے بیان پر آج کل بہت غصہ اور برہمی دکھائی جا رہی ہے۔ کئی روز کی زبانی و اخباری اشتعال انگیزی دکھانے کے باوجود منور حسن نے ابھی تک اپنا بیان واپس نہیں لیا ہے اور نہ اُس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ البتہ جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ نے اِس سلسلے میں جماعت کا مؤقف کُھل کر بیان کر دیا اور یوں یہ چند دنوں کی گرمی موسم کے ساتھ ساتھ اُسی طرح ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے جس طرح مولانا فضل الرحمن کے اُس بیان کے بعد کہ امریکی اگر کسی کتّے کو بھی ماریں گے تو میں اُس کتے کو شہید کہوں گا، چند دنوں کی فضول اور ضمنی بحث کے بعد چُپ سادھ لی گئی ہے۔
ایسا ہی کچھ زور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اُن دنوں دکھایا تھا جب وفاقی وزیرِ داخلہ نے اپنے ایک خطاب میں دہشت گردی میں مارے جانے والوں کی اصل تعداد کا ذکر چھیڑا تھا ۔ تین دنوں تک سینیٹ کا اجلاس ایوان سے باہر لگانے کے بعد بالاخر نتیجہ وہی ہوا جس کا سو فیصد امکان تھا۔ وزیر داخلہ نے نہ اِس سلسلے میں اپنا بیان واپس لیا اور نہ کوئی معافی مانگی۔ اور اپوزیشن خود کو فعال اور متحرک ثابت کرنے کی تین دنوں کی مشق کے بعد واپس ایوان میں چلی آئی۔
قوم کو کئی دنوں تک غیر ضروری باتوں میں اُلجھائے رکھنے اور شہادت جیسے موضوع کو بلاوجہ موضوعِ گفتگو بنائے رکھنے کے بعد جس کا نتیجہ بالاخر لاحاصل رہا اور یہ طے نہیں ہو پایا کہ اصل شہید کون ہے وہ کتّا جو امریکی حملے میں مارا جائے ، یا وہ سربراہِ طالبان جو امریکی ڈرون حملے میں مارا جائے یا وہ شہید و غازی ہمارے محسن پاکستانی فوجی جوان جنھیں دہشت گردی کی اِس عالمی جنگ میں زبر دستی ملوث کر دیا گیا ہو اور جو اِس جنگ میں دوسرے فریق کے غم و غصے اور عتاب کا شکار ہو گئے ہوں۔ اِس عالمی جنگ سے پہلے ہم نہ بموں کے حملوں کا نشانہ تھے اور نہ خود کش بمبار کے ٹارگٹ۔ یہ سب ہمیں اُس جنگ میں امریکی محبت نبھانے کے جرم میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے جس کا اعاد ہ ہمیں 2001 ء میں سابق امریکی عہدیدار رچرڈ آرمٹیج کے ایک فون کے جواب میں کرنا پڑا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی ختم ہونے کے قریب تھا اور ساری قوم مذاکرات کے ایک متفقہ مؤقف پر متحد اور یک جا ہو چکی تھی کہ اچانک ایک ایسا ڈرون حملہ ہو جاتا ہے اور سارا نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔
اب طالبان امریکیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی اُس کا ذمے دار گردانتے ہوئے مذاکرات سے یکسر انکاری ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں ایک گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے اور ہم ایک انتہائی غیر سنجیدہ اور بے مقصد بحث میں ملوث ہو کر قوم کا قیمتی وقت کا ضایع کیے جا رہے ہیں۔ اِس بحث کو طول دینے والوں میں اُن عناصر کی زیادہ دلچسپی دکھائی دیتی ہے جنھیں طالبان سے مذاکرات کی کامیابی سے زیادہ اُن کی ناکامی عزیز ہے۔ اور وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ اُن کے سیاسی عزائم اور ارادے کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں۔ جب کہ تحریکِ انصاف کے عمران خان اِن مذاکرات کے زبردست حامی اور خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے شہادت اور لفظوں کی اِس فضول اور غیر ضروری بحث میں کوئی بیان بازی نہیں کی گئی۔ قوم کو ایک سنجیدہ اور بالغ نظر قیادت کی فوری ضرورت ہے جو اِس پیچیدہ صورتحال میں قوم کی درست سمت میں رہنمائی کر سکے۔ حالات کی سنگینی ہمیں اِن فضول مشقوں میں پڑنے کی بجائے دور اندیش اور دانشمندانہ فیصلے کرنے کی متقاضی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور لعنت ملامت بہت ہو چکی ۔ لمحوں کی غفلت ہمیں تباہ و برباد کر دے گی۔ قوم اب مزید اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔