سنگ ریزوں سے پیر چھلنی ہیں
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں فطرت کے گوناگوں پہلو ، انسانی نفسیات کی گہرائی بدرجہ اتم موجود ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں فطرت کے گوناگوں پہلو ، انسانی نفسیات کی گہرائی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ عام لوگوں کی شاعری ہے، جو زمین کے بہت قریب رہتے ہیں۔ ان کے پیشے بھی عام ہیں یہ ماہی گیر، کسان، مزدور، بڑھئی، جولاہے، لوہار، موچی اور پارچہ باف ہیں۔ شاہ لطیف نے استعارے و تمثیلیں بھی ان عام منظروں سے مستعار لی ہیں۔ شاہ لطیف کے رسالے میں مختلف سر شامل ہیں۔
سر کھاہوڑی ان سروں میں ایک منفرد سر ہے۔ کھاہوڑہ وہ لوگ ہیں جو پہاڑوں اور ریگ زاروں میں بھٹکتے ہیں۔ جو جنگلی پھل ''ڈتھ'' چنتے اور سانپ پکڑتے ہیں۔ گنجے ٹکر کے دشوار گزار راستے ہوں یا لاہوت کا سفر یہ کھاہوڑی جہد مسلسل کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔
تشنہ کام سراب عشق ہیں وہ
ان کی راہیں ہیں ریگزاروں میں
سنگ ریزوں سے پیر چھلنی ہیں
جادہ پیما ہیں کوہساروں کے
پہاڑوں کی زندگی خاموش، پرسکون اور خوبصورت مناظر سے بھرپور ہوتی ہے۔ دنیا میں کئی پہاڑ مقدس ہسیتوں اور واقعات سے منسوب ہیں ان پہاڑوں میں غار حرا، ثور، ہمالیہ، کیلاش، اولمپس، آدم چوٹی، طور، جبل زیتون، ابو جبل، کوہ کرمل، عرفات وغیرہ شامل ہیں۔ غار حرا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے پہلے عبادت میں مصروف رہتے۔ اس غار میں ان پر وحی نازل ہوئی۔
سندھ میں بھی کئی پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ جو حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی توجہ کا مرکز تھے۔ ان پہاڑوں میں گنجو ٹکر، ہنگلاج، لکی تیرتھ، ننگر پارکر، میں واقع کارونجھر، کھیرتھر، کوہستان وغیرہ شامل ہیں۔
شاہ صاحب سفر کے رسیا تھے۔ وہ سندھ کے منفرد سیاح تھے۔ سیروسیاحت کے شوق نے ان کی شاعری کو دلکش لب و لہجہ اور نئی جہتیں عطا کیں۔ وہ دریاؤں، پہاڑوں، ریگزاروں اور ریت کے صحراؤں میں ابدی سچ کو تلاش کرتے اور نئی دنیاؤں کو کھوجتے۔ زندگی کی مشکلات ذہن و روح کو خالص بناتی ہیں سالک کو معرفت کی منزلیں آسانی سے نہیں ملتیں۔ عشق کے جذبے کی انتہا منزل تک لے کر جاتی ہے۔ عشق میں گم ہوکر وہ اپنی ذات تک کو بھول جاتے ہیں۔ انہیں فقط مقصد کی سچائی یاد رہتی ہے۔
عشق کھاہوڑیوں کی فطرت ہے
درد میں انہیں راحت ملتی ہے
ان کا سرمایہ حیات کچھ اور نہیں
درد الفت و غم محبت ہے
یہ کھاہوڑی ریگزاروں سے محبت کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی ہیبت اور خاموشی انہیں خدا کی عظمت اور وحدت کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ جس قدر فطرت کو کھوجتے اور پہاڑوں کی اونچائی کو سر کرنے لگتے ہیں، راز ازل کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز تخلیق کار کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ راہ طلب میں یہ کھاہوڑی جتنا آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی غم دل سوا ہوجاتا ہے۔
حاصل مدعا کو ڈھونڈ لیا
بندگی سے خدا کو ڈھونڈ لیا
کرکے کھاہوڑیوں نے ذکر خفی
عشق کی انتہا کو ڈھونڈ لیا
ان پہاڑوں میں بسنے والے لوگ جفاکش اورکٹھن راستوں پر سفر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کے مزاج گہرے اور پرسکون ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ فطرت کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی صبر و حوصلے سے زندگی کی پل صراط پار کرتے ہیں۔ آرام دہ زندگی اور سہولتیں انسان کو کند ذہن اور بزدل بنا دیتی ہیں۔ یہ زندگی صبر و برداشت سے عاری ہوتی ہے۔ کھاہوڑی خاموشی سے مصائب و آزمائشوں کو ذہن و دل میں جذب کرتے رہتے ہیں۔ جتنا زندگی کے کانٹوں سے الجھتے ہیں اتنا ہی ان کا باطن آگہی کی روشنی سے منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاہ صاحب تکلیف و درد کو سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔
دور افتادہ ڈتھ ملے کیسے
دل تن آسانیوں پر مائل ہے
صبح سے رہ نورد ہیں ڈوتھی
اور تو شام کو بھی غافل ہے
یہ حقیقت ہے کہ دور جدید کا انسان وجود، زندگی، فطرت اورکائنات کی سمجھ اور خوبصورتی سے غافل ہے۔ جدید دنیا آسانیوں اور مراعات سے بھری ہوئی ہے۔ بغیر محنت کے پھل پالینا کاغذی پھول جیسا ہے جو فطری خوشبو سے محروم ہوتا ہے۔ یہ کاغذی پیرہن سے ڈھکی تہذیبیں زندگی کے سچ اور خالص پن سے منہ موڑ چکی ہیں۔ مگر کھاہوڑی مختلف ہیں۔ وہ موسموں کی سختیوں سے نہیں گھبراتے۔ زندگی کے تغیر و تضادات کا خوشدلی سے سامنا کرتے ہیں۔ آسانی کو من کا میل سمجھتے ہیں اور آسائشوں کو سراب۔
جانتے ہیں وہ منتہائے طلب
زحمت ِ انتظار سے واقف
ہر سحر ہے انہیں پیام سفر
سختیٔ کوہسار سے واقف
شاہ لطیف کے کردار یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ وجود کی روشنی کو ساتھ لے کر ظلم کے اندھیروں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ تبدیلی کے خواہش مند ہیں مگر اپنے عمل کی روشن مثال سے منظرنامہ بدلنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا کھاہوڑی بھی جہد مسلسل کا استعارہ ہے۔ یہ سیلانی، بن باسی، سادھو اور جوگی سندھ کے پہاڑوں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ ان کے چہرے دھول سے اٹے ہیں مگران کے باطن روز ازل سے روشن ہیں۔
فطرت حسن ، حسن فطرت
نہ کوئی رنگ ہے نہ صورت ہے
ظلمت ِ شب سپیدۂ سحری
اس دوئی میں بھی راز وحدت ہے
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمہ تن خوشی کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ جو حسن کی متلاشی ہے مگر بدصورتی کو دھتکار دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوبصورتی عارضی ہے۔ مگر دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ خالص رویوں کی قدر نہیں کرتی اور منافقوں کے جال میں الجھی رہتی ہے۔
جسم ان کے غبار آلودہ
دشت غم میں رواں دواں ہیں وہ
راز افشا کیا نہیں کرتے
اہل دنیا سے بدگمان ہیں وہ
شاہ صاحب کی شاعری میں موضوعات کی جو وسعت ہے وہ دنیا کے کسی اور شاعر کی تخلیق میں نہیں پائی جاتی۔ ان کے ہم عصر بھی احساس کی نزاکت، خیال کی گہرائی، منفرد اشعار اور تصوف کی باریک بینی کے حوالے سے ان سے بہت پیچھے ہیں۔ شاہ کی شاعری ان کے مشاہدے و تجربے کا ایک گہرا سمندر ہے۔ وجد کی انوکھی کیفیت ہے، ادراک کا پرتو ہے۔ مشاہدے کو جذب کرکے اسے لفظوں کے ہنر میں پرونے کا انوکھا عرفان ہے۔
جن کو دیکھا ہے میں نے محو شہود
ان کی صحبت عجیب صحبت ہے
موج و طوفان سے پار کرتے ہیں
قرب ان کا بہت غنیمت ہے
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے دور میں سندھ پر مغل اور کلہوڑہ دور کی حکمرانی تھی۔ دوسری طرف افغان سندھ پر حملہ ور رہے۔ سیاسی و سماجی انتشار سے سندھ کی خوشحالی تباہ و برباد ہو کے رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے غفلت میں ڈوبے ہوئے حکمرانوں اور عوام کو اپنی صفوں میں متحد ہونے کا پیغام دیا۔ کیونکہ امن، محبت اور یکجہتی کے بغیر قومیں سطحی اور زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔
سر کھاہوڑی ان سروں میں ایک منفرد سر ہے۔ کھاہوڑہ وہ لوگ ہیں جو پہاڑوں اور ریگ زاروں میں بھٹکتے ہیں۔ جو جنگلی پھل ''ڈتھ'' چنتے اور سانپ پکڑتے ہیں۔ گنجے ٹکر کے دشوار گزار راستے ہوں یا لاہوت کا سفر یہ کھاہوڑی جہد مسلسل کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔
تشنہ کام سراب عشق ہیں وہ
ان کی راہیں ہیں ریگزاروں میں
سنگ ریزوں سے پیر چھلنی ہیں
جادہ پیما ہیں کوہساروں کے
پہاڑوں کی زندگی خاموش، پرسکون اور خوبصورت مناظر سے بھرپور ہوتی ہے۔ دنیا میں کئی پہاڑ مقدس ہسیتوں اور واقعات سے منسوب ہیں ان پہاڑوں میں غار حرا، ثور، ہمالیہ، کیلاش، اولمپس، آدم چوٹی، طور، جبل زیتون، ابو جبل، کوہ کرمل، عرفات وغیرہ شامل ہیں۔ غار حرا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے پہلے عبادت میں مصروف رہتے۔ اس غار میں ان پر وحی نازل ہوئی۔
سندھ میں بھی کئی پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ جو حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی توجہ کا مرکز تھے۔ ان پہاڑوں میں گنجو ٹکر، ہنگلاج، لکی تیرتھ، ننگر پارکر، میں واقع کارونجھر، کھیرتھر، کوہستان وغیرہ شامل ہیں۔
شاہ صاحب سفر کے رسیا تھے۔ وہ سندھ کے منفرد سیاح تھے۔ سیروسیاحت کے شوق نے ان کی شاعری کو دلکش لب و لہجہ اور نئی جہتیں عطا کیں۔ وہ دریاؤں، پہاڑوں، ریگزاروں اور ریت کے صحراؤں میں ابدی سچ کو تلاش کرتے اور نئی دنیاؤں کو کھوجتے۔ زندگی کی مشکلات ذہن و روح کو خالص بناتی ہیں سالک کو معرفت کی منزلیں آسانی سے نہیں ملتیں۔ عشق کے جذبے کی انتہا منزل تک لے کر جاتی ہے۔ عشق میں گم ہوکر وہ اپنی ذات تک کو بھول جاتے ہیں۔ انہیں فقط مقصد کی سچائی یاد رہتی ہے۔
عشق کھاہوڑیوں کی فطرت ہے
درد میں انہیں راحت ملتی ہے
ان کا سرمایہ حیات کچھ اور نہیں
درد الفت و غم محبت ہے
یہ کھاہوڑی ریگزاروں سے محبت کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی ہیبت اور خاموشی انہیں خدا کی عظمت اور وحدت کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ جس قدر فطرت کو کھوجتے اور پہاڑوں کی اونچائی کو سر کرنے لگتے ہیں، راز ازل کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز تخلیق کار کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ راہ طلب میں یہ کھاہوڑی جتنا آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی غم دل سوا ہوجاتا ہے۔
حاصل مدعا کو ڈھونڈ لیا
بندگی سے خدا کو ڈھونڈ لیا
کرکے کھاہوڑیوں نے ذکر خفی
عشق کی انتہا کو ڈھونڈ لیا
ان پہاڑوں میں بسنے والے لوگ جفاکش اورکٹھن راستوں پر سفر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کے مزاج گہرے اور پرسکون ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ فطرت کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی صبر و حوصلے سے زندگی کی پل صراط پار کرتے ہیں۔ آرام دہ زندگی اور سہولتیں انسان کو کند ذہن اور بزدل بنا دیتی ہیں۔ یہ زندگی صبر و برداشت سے عاری ہوتی ہے۔ کھاہوڑی خاموشی سے مصائب و آزمائشوں کو ذہن و دل میں جذب کرتے رہتے ہیں۔ جتنا زندگی کے کانٹوں سے الجھتے ہیں اتنا ہی ان کا باطن آگہی کی روشنی سے منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاہ صاحب تکلیف و درد کو سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔
دور افتادہ ڈتھ ملے کیسے
دل تن آسانیوں پر مائل ہے
صبح سے رہ نورد ہیں ڈوتھی
اور تو شام کو بھی غافل ہے
یہ حقیقت ہے کہ دور جدید کا انسان وجود، زندگی، فطرت اورکائنات کی سمجھ اور خوبصورتی سے غافل ہے۔ جدید دنیا آسانیوں اور مراعات سے بھری ہوئی ہے۔ بغیر محنت کے پھل پالینا کاغذی پھول جیسا ہے جو فطری خوشبو سے محروم ہوتا ہے۔ یہ کاغذی پیرہن سے ڈھکی تہذیبیں زندگی کے سچ اور خالص پن سے منہ موڑ چکی ہیں۔ مگر کھاہوڑی مختلف ہیں۔ وہ موسموں کی سختیوں سے نہیں گھبراتے۔ زندگی کے تغیر و تضادات کا خوشدلی سے سامنا کرتے ہیں۔ آسانی کو من کا میل سمجھتے ہیں اور آسائشوں کو سراب۔
جانتے ہیں وہ منتہائے طلب
زحمت ِ انتظار سے واقف
ہر سحر ہے انہیں پیام سفر
سختیٔ کوہسار سے واقف
شاہ لطیف کے کردار یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ وجود کی روشنی کو ساتھ لے کر ظلم کے اندھیروں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ تبدیلی کے خواہش مند ہیں مگر اپنے عمل کی روشن مثال سے منظرنامہ بدلنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا کھاہوڑی بھی جہد مسلسل کا استعارہ ہے۔ یہ سیلانی، بن باسی، سادھو اور جوگی سندھ کے پہاڑوں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ ان کے چہرے دھول سے اٹے ہیں مگران کے باطن روز ازل سے روشن ہیں۔
فطرت حسن ، حسن فطرت
نہ کوئی رنگ ہے نہ صورت ہے
ظلمت ِ شب سپیدۂ سحری
اس دوئی میں بھی راز وحدت ہے
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمہ تن خوشی کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ جو حسن کی متلاشی ہے مگر بدصورتی کو دھتکار دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوبصورتی عارضی ہے۔ مگر دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ خالص رویوں کی قدر نہیں کرتی اور منافقوں کے جال میں الجھی رہتی ہے۔
جسم ان کے غبار آلودہ
دشت غم میں رواں دواں ہیں وہ
راز افشا کیا نہیں کرتے
اہل دنیا سے بدگمان ہیں وہ
شاہ صاحب کی شاعری میں موضوعات کی جو وسعت ہے وہ دنیا کے کسی اور شاعر کی تخلیق میں نہیں پائی جاتی۔ ان کے ہم عصر بھی احساس کی نزاکت، خیال کی گہرائی، منفرد اشعار اور تصوف کی باریک بینی کے حوالے سے ان سے بہت پیچھے ہیں۔ شاہ کی شاعری ان کے مشاہدے و تجربے کا ایک گہرا سمندر ہے۔ وجد کی انوکھی کیفیت ہے، ادراک کا پرتو ہے۔ مشاہدے کو جذب کرکے اسے لفظوں کے ہنر میں پرونے کا انوکھا عرفان ہے۔
جن کو دیکھا ہے میں نے محو شہود
ان کی صحبت عجیب صحبت ہے
موج و طوفان سے پار کرتے ہیں
قرب ان کا بہت غنیمت ہے
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے دور میں سندھ پر مغل اور کلہوڑہ دور کی حکمرانی تھی۔ دوسری طرف افغان سندھ پر حملہ ور رہے۔ سیاسی و سماجی انتشار سے سندھ کی خوشحالی تباہ و برباد ہو کے رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے غفلت میں ڈوبے ہوئے حکمرانوں اور عوام کو اپنی صفوں میں متحد ہونے کا پیغام دیا۔ کیونکہ امن، محبت اور یکجہتی کے بغیر قومیں سطحی اور زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔