عجب تماشہ
عجب تماشا ہے اس وقت پاکستان میں ہر آنے والی گھڑی پاکستانیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کی خبر دے...
عجب تماشا ہے اس وقت پاکستان میں ہر آنے والی گھڑی پاکستانیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کی خبر دے رہی ہے۔ ہر پاکستانی حیران اور پریشان ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے صدر اوباما سے درخواست کی تھی کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کیے جائیں مگر افسوس امریکا جی نے تو ایک نہ سنی اور پھر پاکستان میں ڈرون حملہ ہوا۔ ڈرون حملوں کے افسوسناک اور قابل مذمت سلسلے کے جاری رہنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پائیدار قیام امن اور دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے پاکستان کے نقطہ نظر کو نہیں سمجھا گیا۔ پھر سے پاکستان میں ڈرون حملہ ہوا ، پھر سے پاکستان کی سلامتی کی بے حرمتی ہوئی اور پاکستانی حکمران بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔
سب سے حیران کن بات یہ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈرون حملوں پر تحفظاتی رپورٹ جو تفصیل کے ساتھ منظر عام پر آ چکی ہے اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکا ایسے حملے کر کے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اس کے باوجود تمام عالمی اداروں میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ دنیا میں دہشت گردی ختم کرنے والا ملک پاکستان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کر رہا ہے مگر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ڈرون حملوں کا آغاز 2004ء میں نیک محمد پہلا نشانہ تھے۔ امریکا نے ڈرون حملے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو مارکر ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے مفاد میں اپنی سوچ کے مطابق بالکل ٹھیک اور بروقت فیصلے کرتا ہے، کیا حکیم اللہ محسود اس سے قبل ڈرون طیارے کی رینج سے باہر تھا؟ امریکا اتنی بڑی کامیابی پہلے بھی حاصل کر سکتا تھا لیکن اس سے قبل یہ اس کے مفاد میں نہیں تھا وزیر اعظم نواز شریف امریکا سے واپس آئے تو ان کا اطمینان دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا لیکن خدشات یہی تھے کہ ڈرون حملے اتنے آسانی سے نہیں رک سکتے جب بھی کوئی طالبان رہنما حکومت پاکستان کے قریب آیا معاہدے پر آمادہ نظر آیا ڈرون مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا، کمانڈر نیک محمد محسود نے پاک فوج کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں تاریخی معاہدہ کیا تو ڈرون حملہ کر کے نیک محمد کو پاک فوج پر حملہ نہ کرنے کا مزہ چکھایا گیا۔ باجوڑ میں طالبان کے ساتھ معاہدے تیار تھے اس معاہدے پر فریقین کے دستخط ہونا باقی تھے کہ ان پر بھی ڈرون حملہ کر کے ان کے پرخچے اڑا دیے گئے پھر بیت اللہ محسود جیسے کمانڈر کے ذریعے شوریٰ اتحاد المجاہدین کے نام سے طالبان گروہوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا۔ اس اتحاد میں بیت اللہ محسود کی کامیابی کا اہم پہلو یہ تھا کہ اس سے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں نسبتاً سکون آ گیا پاک فوج پر حملے رک گئے تھے۔ امریکا کو یہ نئی پیش رفت پسند نہ آئی اور بیت اللہ محسود کو جنوبی وزیرستان میں اپنے سسرالی گھر میں ڈرون حملے میں موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا۔
ملا نذیر پاکستان میں بے گناہ عوام کو خودکش دھماکوں میں مارنے کے خلاف تھے ان کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس وقت پاکستان میں ڈرون حملے بہت غلط اور نازک حالات میں ہوئے جب حکومت پاکستان طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کر رہی تھی اور امید تھی کہ اب پاکستان میں بہت جلد امن قائم ہو جائے گا مگر پاکستانی حکمراں ماضی میں ہونے والے واقعات شاید بھول گئے تھے۔
یکم نومبر جمعے کی شب امریکی جاسوسی طیارے نے میرانشاہ سے 4 کلو میٹر دور گاؤں ڈانڈے دریہ خیل کے علاقے میں ایک مکان پر 4 میزائل داغے گئے غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈرون حملے میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے زائد ہے۔ ذرایع کے مطابق ڈرون حملہ حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں جاری طالبان کے اجلاس پر کیا گیا جس میں دیگر اہم کمانڈر بھی شریک تھے اجلاس میں حکومت پاکستان سے مذاکرات پر مشاورت جاری تھی۔ یقیناً حکومت پاکستان اور طالبان میں مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو پاکستان میں سکون آ جاتا مگر بعض طاقتیں پاکستان میں امن و امان اپنے مفاد کی خاطر نہیں ہونے دیں گی۔
حکیم اللہ محسود کے بعد اب طالبان کے امیر فضل اللہ ہیں۔ فضل اللہ نے 2002ء میں سوات میں متوازی حکومت قائم کی۔ 2009ء میں فوجی آپریشن کے بعد سوات چھوڑ کر افغان علاقے نورستان میں ٹھکانہ بنا لیا۔ ملالہ پر حملے اور میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو نشانہ بنانے کی ذمے داری قبول کر چکے ہیں۔ طالبان کے امیر فضل اللہ نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور حکیم اللہ محسود کا بدلہ پاکستان سے لینے کا اعلان کر دیا ہے کتنی عجب بات ہے کہ امریکا نے ڈرون میں حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا اور بدلہ پاکستان سے لیا جائے گا، یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے۔
اب پاکستان کے لیے آنے والا وقت بڑا ہی پریشان کن ہے ہر پاکستانی عوام خوفزدہ ہے کہ کب کہاں خودکش حملہ ہو جائے پاکستانی عوام کی مشکلات میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے ابھی پاکستانی عوام اسی چیز سے خوفزدہ ہیں کہ ایک نئی بحث آج کل الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر چھائی ہوئی ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے کہ ہلاک؟
اے مسلمانو! کس طرف جا رہے ہو اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور تم لوگ اس بحث میں پڑے ہو جس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں بحث تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ امریکا نے ایسا کیوں کیا؟ کیا امریکا پاکستان میں امن نہیں چاہتا؟ بحث تو یہ ہونی چاہیے تھی نا کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے کہ ہلاک ہے؟
اس وقت یہ بحث کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ پاکستان جن مشکلات کا شکار ہو چکا ہے حکیم اللہ محسود کے بعد اب پاکستان ان مشکلات سے کیسے نکلے گا یہ سوچنے کا وقت ہے کیونکہ طالبان شوریٰ مولوی فضل اللہ ایسے پاکستان مخالف شخص کو منتخب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو حکومت پاکستان کو مشکلات میں مبتلا کر سکتا ہے طالبان شوریٰ کے اجلاس میں مولوی فضل اللہ نے دل کھول کر پاکستان کی مخالفت کی ہے اور طالبان کمانڈروں پر بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان سے کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا اور اگر کسی کمانڈر کے رابطوں کے بارے میں علم ہوا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ سخت سزا دی جائے گی اس وارننگ کا اتنا اثر ہوا کہ کسی بھی کمانڈر نے پاکستان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کی یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں میں شمار کیے جانے والے افراد نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔
یہ بات حکومت پاکستان اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے؟ کیا اور کیسے اور پاکستان کے کس حصے کو یہ اپنی مخالفت کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ فضل اللہ نے واضح طور پر بیان دیا ہے کہ وہ حکیم اللہ محسود کا بدلہ ضرور لے گا۔ تو کیا حکومت پاکستان کسی بھی قسم کی مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟
حکومت اس وقت یقینا مشکل حالات کا شکار ہے ملک میں جاری دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے جو لائحہ عمل طے کیا ہے اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی میں اندرونی طاقتوں کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں۔