چین میں پھیلتا پراسرار کرونا وائرس اور حکومتی اقدامات

چینی سماج اور بین الاقوامی برادری اس نئی قسم کے کرونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں


شاہد افراز January 24, 2020
چین میں ایک نئی قسم کے کرونا وائرس کے باعث نمونیا کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حالیہ دنوں چین کے جنوبی شہر ووہان میں ایک نئی قسم کے کرونا وائرس کے باعث نمونیا کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ چینی حکام نے اب تک پانچ سو اکہتر افراد کے وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پچانوے شہری شدید انفیکشن میں مبتلا ہیں، جبکہ سترہ شہری وائرس کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہ وائرس نہ صرف چین کے شہر ووہان بلکہ دارالحکومت بیجنگ، شنگھائی، صوبہ حہ بے سمیت پچیس شہروں اور صوبوں، تائیوان، ہانگ کانگ تک پہنچ چکا ہے۔ وائرس کے باعث چین سمیت دیگر ممالک جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور امریکا میں بھی انفیکشن کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

اس نئی قسم کے کرونا وائرس سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اکتیس دسمبر کو ووہان شہر کے مختلف طبی اداروں میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر نمونیا سے متاثرہ مریض نظر آنے لگے۔ دس روز بعد چین کے طبی ماہرین نے کرونا وائرس کی اس نئی قسم کی تصدیق کردی۔ چین نے بروقت دیگر دنیا کے ساتھ اس وائرس کے حوالے سے معلومات کا شفاف انداز میں تبادلہ کیا۔ چین بھر میں شہریوں کو کرونا وائرس سے متعلق آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔

موجودہ صورتحال میں چینی سماج اور بین الاقوامی برادری اس نئی قسم کے کرونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ چین کی مرکزی حکومت، مختلف صوبوں اور شہروں کی حکومتوں نے وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کےلیے بروقت اقدامات کیے ہیں۔ چین کے صدر مملکت شی جن پنگ نے اس وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے اہم ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

ووہان شہر کی مقامی حکومت نے 23 جنوری سے، مقامی ہوائی اڈے اور ٹرین اسٹیشن سے فضائی و ریلوے سروس عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔ شہر میں ہر قسم کی عوامی آمدورفت معطل کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شہر سے باہر نہ جائیں۔ ووہان شہر میں شہریوں کے روزمرہ امور کےلیے پینے کے صاف پانی، خوراک، طبی آلات بڑے پیمانے پر محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ووہان شہر اور چین کے دوسرے علاقوں میں طبی ماہرین اور طبی عملہ بھی وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کےلیے مصروف ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے یہ ایک انتہائی قدم اٹھایا گیا ہے جسے چین نے وبائی صورتحال کے جامع تجزیے کی بنیاد پر اپنایا ہے۔ اس اقدام کا مقصد وائرس کی منتقلی کی موثر طور پر بندش، مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام اور ملکی سطح کے ساتھ عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ چین کے تحقیقی اداروں نے فوری طور پر ایک ایسی میڈیکل کٹ بھی تیار کی ہے جس سے کرونا وائرس کی بروقت تشخیص ممکن ہے۔ چین کے قومی ہیلتھ کمیشن نے وبا کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے، جسے بدلتی صورتحال کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جبکہ وزارت خزانہ نے بھی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال اور بہتر علاج معالجے کے لیے مالیاتی اعانت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ طبی عملے میں وائرس کی منتقلی کی روک تھام کےلیے قومی ہیلتھ کمیشن نے تکنیکی رہنما اصول جاری کیے ہیں تاکہ وائرس پر بروقت قابو پایا جاسکے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی ہنگامی طور پر مذاکرات کا انعقاد کیا گیا، جس میں وبا کے پھیلاؤ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور بات چیت میں شامل اراکین نے چین کے اقدامات پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے چینی حکومت کی کاوشوں کو کشادہ، شفاف اور فیصلہ کن قرار دیا۔ جرمنی اور فرانس کے رہنماؤں نے حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ٹیلی فونک بات چیت کے دوران اس وبا سے متعلق چین کے بروقت ردعمل، کشادگی اور شفافیت کی تعریف اور حمایت کا اظہار کیا ہے۔

چین میں پچیس جنوری سے نئے قمری سال اور جشن بہار کی سرگرمیوں کا آغاز بھی ہورہا ہے اور ایسے میں دنیا کی سب سے بڑی عارضی نقل مکانی چین میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹرانسپورٹ حکام کے مطابق رواں برس تقریباً تین ارب سفر متوقع ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز، ہوائی اڈوں سمیت دیگر پبلک مقامات پر بھی صحت عامہ کے تحفظ کےلیے اضافی اقدامات کیے گئے ہیں۔ چین میں 2003 میں سارس وائرس کے پھیلاؤ کے مقابلے میں اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ چینی حکومت بہتر طبی تحقیق اور وسائل کی بدولت جلد نئے کرونا وائرس پر قابو پالے گی اور نہ صرف چینی عوام بلکہ دیگر دنیا میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں کا بھی تحفظ کیا جاسکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔