موسمیاتی تغیر ماحولیاتی آلودگی اور ہم
ہم نے اپنی نااہلیت، بدانتظامی اور بدنیتی سے تین بڑے قدرتی وسائل ہوا، پانی اور خوراک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے
آج موسمیاتی تغیر و عالمی حدت کے حوالے سے ایک حوصلہ افزا بات عالمی سطح پر بڑھتا ادراک و تشویش ہے۔ سائنسی حلقوں کی بات سنی جارہی ہے، مگر اس ادراک کے نتیجے میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جانے کی منزل ہنوز دور ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں امریکا کا پیرس معاہدے سے نکل جانا، جہاں ایک طرف سنجیدہ کوششوں کےلیے ایک دھچکا ہے، وہیں کوئلہ و دیگر ہائیڈرو کاربن صنعتوں کی لابنگ و مالی مفادات کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
آج سے تقریباً تیرہ برس قبل جب میں نے بیچلرز میں داخلہ لیا تھا اس وقت سائنسی حلقوں میں ماحولیاتی آلودگی، پلاسٹک کے نقصانات اور اس کے حل یا متبادل کے بارے میں بحث کافی زور و شور سے کی جاتی تھی۔ ان دنوں کہیں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کی تخلیق پر کام جاری تھا، تو کہیں پلاسٹک کو تلف کرنے کے نت نئے طریقوں کو آزمایا جارہا تھا۔ ان دنوں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کے حوالے سے ایک خاص سوچ کا مشاہدہ ہوا اور یہ کئی مرتبہ سننے اور پڑھنے کو ملی۔ وہ سوچ یہ تھی کہ اگرچہ بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کا بنانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے مگر اس پر اٹھنے والے اخراجات اسے عام پلاسٹک کے مقابلے میں کافی مہنگا کردیتے ہیں۔ اس وقت یہ امید کی جاتی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے پیداوار بڑھتی جائے گی لاگت میں کمی خودبخود آتی جائے گی۔ اگرچہ آج بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک بنانا ماضی کے مقابلے میں نسبتاً سستا ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ یہ روایتی پلاسٹک کے مقابلے میں سستا متبادل بن سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک دنیا بھر میں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کو ویسا فروغ نہیں مل سکا جیسی امید کی جارہی تھی۔
گزشتہ برس ملک کے کئی حصوں میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اگرچہ اس پابندی کا اطلاق کہیں کُلی ہے تو کہیں جزوی، جبکہ کئی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر، مگر پھر بھی نہ ہونے سے کچھ ہونا بدرجہا بہتر ہے۔ آج آپ کسی عام شہری سے پلاسٹک پر عائد بین کی بابت پوچھیں، تو اکثریت مہنگائی اور بائیو ڈیگریڈایبل تھیلوں کے مہنگے داموں کا گلہ کرے گی۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے، کیونکہ انہیں کسی نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہی نہیں کہ یہ پلاسٹک کیوں استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اس کے کیا مضمرات ہیں۔ بس ایک نادرشاہی حکم آیا اور سرکار نے سمجھ لیا کہ پلاسٹک کا استعمال متروک ہوگیا۔ یاد رکھیے کہ احکامات کے مقابلے میں شعور زیادہ دیرپا اور مؤثر ہوتا ہے۔
پلاسٹک کے استعمال پر یہ بین جزوی ہے، کیونکہ کسی سافٹ ڈرنک کی بوتل اور چاکلیٹ سے لے کر چپس، پاپڑ اور بسکٹ تک تقریباً تمام ہی مصنوعات کی پیکنگ میں پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی بچوں کو خریداری کروائی ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پلاسٹک کا تھیلہ تو ایک ہی ہو تا ہے جبکہ ریپرز اور پیکٹس کی شکل میں پلاسٹک کی مقدار کافی ہوتی ہے۔ ان کا بھی سدباب کرنا ضروری ہے۔
ماحولیاتی آلودگی ایک سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان جیسے ملک کےلیے اس کی سنگینی دو آتشہ ہے۔ موسمیاتی تغیر سے بری طرح متاثر ہونے والے دس ممالک میں پاکستان کے شامل ہونے کا ذکر اتنی بار تحریر و تقریر میں کیا جاچکا ہے کہ یہ بات اب انگریزی محاورے کے حساب سے 'کلیشے' بن چکی ہے۔ ٹھیک ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی، موسمیاتی تغیر کے اثرات، پانی کی کمی، ریاست کو لاحق اندرونی و بیرونی سیکیورٹی کے خدشات اور معاشی بدحالی، سب نے مل کر حکومت کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ کوئی ڈھنگ کا کام کیا جاسکے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے ہم وہ کام بھی نہ کرسکیں جن کی استعداد رکھتے ہیں۔ مثلاً عوام کو ماحولیاتی آلودگی کا شعور دینا، صحت و صفائی جیسے لازم و ملزوم تصورات کو پھیلانا اور سب سے بڑھ کر مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل کی پیش بندی و منصوبہ بندی کرنا۔
ہم نے اپنی نااہلیت، بدانتظامی اور بدنیتی سے تین بڑے قدرتی وسائل ہوا، پانی اور خوراک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوائی آلودگی ہر موسمِ سرما میں اسموگ کی شکل میں جب نمودار ہوتی ہے تو وزیراعظم سے لے کر کسی سڑک پر چلتے راہ گیر تک ہر کوئی شدت کے ساتھ فکرمند ہوجاتا ہے۔ کہیں کارخانوں کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کہیں کسانوں کو قصوروار سمجھ لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے اقدامات کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی یہ اسموگ چھٹتا ہے تو 'آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل' کے مصداق اوپر سے نیچے تک ہر کوئی اپنی روٹین میں مگن ہوجاتا ہے۔ ایک سابقہ چیف جسٹس صاحب کی مہربانی سے ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ پاکستان میں پانی کی کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کےلیے ہمیں ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ہم میں سے کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ جب تک ڈیم نہیں بن جاتا تو کم از کم ہم اپنے گھر میں پانی کا ضیاع روکنے کی کوشش کریں؟ رہی بات خوراک کی، تو ہر گھر میں کسی کو بھنڈی نہیں پسند تو کوئی ٹینڈے نہیں کھانا چاہتا اور کوئی دال سے نالاں ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک بینگن یا کدو کو بیج سے آپ کی پلیٹ تک پہنچانے میں کتنی محنت و مشقت لگتی ہے، کتنے گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ (حالانکہ ہم سب نے یہ بات کئی بار پڑھی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی چالیس فیصد آبادی براہ راست زراعت سے وابستہ ہے)۔
اگر ذمے داری کے تعین کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمے داری حکومت کی بنتی ہے۔ قانون سازی سے عملدرآمد تک ہر لحاظ سے ذمے داری حکومتِ وقت پر آتی ہے۔ کیونکہ جب بھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا تو اس کا سدباب عوام نہیں بلکہ مقتدرہ و انتظامیہ کو کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کا کام صرف یہی نہیں کہ اس وقت اس مسئلے کی شدت کا توڑ کیا جاسکے، بلکہ آئندہ کےلیے بھی اس کی پیش بندی کرنا ضروری ہے۔
ہم گزشتہ ستر برسوں سے اپنے قدرتی وسائل کی ناشکری میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں کا شکر صرف عبادات تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ ہی محض زبانی کلامی 'یا اللہ تیرا شکر ہے' کہہ دینا کافی ہے۔ درحقیقت ان نعمتوں کا اصل شکر ان کی حفاظت ہے۔ ان کو احتیاط سے استعمال میں لانا اور اپنی آنے والی نسلوں کےلیے انہیں بہترین حالت میں رکھنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج سے تقریباً تیرہ برس قبل جب میں نے بیچلرز میں داخلہ لیا تھا اس وقت سائنسی حلقوں میں ماحولیاتی آلودگی، پلاسٹک کے نقصانات اور اس کے حل یا متبادل کے بارے میں بحث کافی زور و شور سے کی جاتی تھی۔ ان دنوں کہیں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کی تخلیق پر کام جاری تھا، تو کہیں پلاسٹک کو تلف کرنے کے نت نئے طریقوں کو آزمایا جارہا تھا۔ ان دنوں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کے حوالے سے ایک خاص سوچ کا مشاہدہ ہوا اور یہ کئی مرتبہ سننے اور پڑھنے کو ملی۔ وہ سوچ یہ تھی کہ اگرچہ بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کا بنانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے مگر اس پر اٹھنے والے اخراجات اسے عام پلاسٹک کے مقابلے میں کافی مہنگا کردیتے ہیں۔ اس وقت یہ امید کی جاتی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے پیداوار بڑھتی جائے گی لاگت میں کمی خودبخود آتی جائے گی۔ اگرچہ آج بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک بنانا ماضی کے مقابلے میں نسبتاً سستا ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ یہ روایتی پلاسٹک کے مقابلے میں سستا متبادل بن سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک دنیا بھر میں بائیو ڈیگریڈایبل پلاسٹک کو ویسا فروغ نہیں مل سکا جیسی امید کی جارہی تھی۔
گزشتہ برس ملک کے کئی حصوں میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اگرچہ اس پابندی کا اطلاق کہیں کُلی ہے تو کہیں جزوی، جبکہ کئی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر، مگر پھر بھی نہ ہونے سے کچھ ہونا بدرجہا بہتر ہے۔ آج آپ کسی عام شہری سے پلاسٹک پر عائد بین کی بابت پوچھیں، تو اکثریت مہنگائی اور بائیو ڈیگریڈایبل تھیلوں کے مہنگے داموں کا گلہ کرے گی۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے، کیونکہ انہیں کسی نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہی نہیں کہ یہ پلاسٹک کیوں استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اس کے کیا مضمرات ہیں۔ بس ایک نادرشاہی حکم آیا اور سرکار نے سمجھ لیا کہ پلاسٹک کا استعمال متروک ہوگیا۔ یاد رکھیے کہ احکامات کے مقابلے میں شعور زیادہ دیرپا اور مؤثر ہوتا ہے۔
پلاسٹک کے استعمال پر یہ بین جزوی ہے، کیونکہ کسی سافٹ ڈرنک کی بوتل اور چاکلیٹ سے لے کر چپس، پاپڑ اور بسکٹ تک تقریباً تمام ہی مصنوعات کی پیکنگ میں پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی بچوں کو خریداری کروائی ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پلاسٹک کا تھیلہ تو ایک ہی ہو تا ہے جبکہ ریپرز اور پیکٹس کی شکل میں پلاسٹک کی مقدار کافی ہوتی ہے۔ ان کا بھی سدباب کرنا ضروری ہے۔
ماحولیاتی آلودگی ایک سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان جیسے ملک کےلیے اس کی سنگینی دو آتشہ ہے۔ موسمیاتی تغیر سے بری طرح متاثر ہونے والے دس ممالک میں پاکستان کے شامل ہونے کا ذکر اتنی بار تحریر و تقریر میں کیا جاچکا ہے کہ یہ بات اب انگریزی محاورے کے حساب سے 'کلیشے' بن چکی ہے۔ ٹھیک ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی، موسمیاتی تغیر کے اثرات، پانی کی کمی، ریاست کو لاحق اندرونی و بیرونی سیکیورٹی کے خدشات اور معاشی بدحالی، سب نے مل کر حکومت کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ کوئی ڈھنگ کا کام کیا جاسکے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے ہم وہ کام بھی نہ کرسکیں جن کی استعداد رکھتے ہیں۔ مثلاً عوام کو ماحولیاتی آلودگی کا شعور دینا، صحت و صفائی جیسے لازم و ملزوم تصورات کو پھیلانا اور سب سے بڑھ کر مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل کی پیش بندی و منصوبہ بندی کرنا۔
ہم نے اپنی نااہلیت، بدانتظامی اور بدنیتی سے تین بڑے قدرتی وسائل ہوا، پانی اور خوراک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوائی آلودگی ہر موسمِ سرما میں اسموگ کی شکل میں جب نمودار ہوتی ہے تو وزیراعظم سے لے کر کسی سڑک پر چلتے راہ گیر تک ہر کوئی شدت کے ساتھ فکرمند ہوجاتا ہے۔ کہیں کارخانوں کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کہیں کسانوں کو قصوروار سمجھ لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے اقدامات کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی یہ اسموگ چھٹتا ہے تو 'آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل' کے مصداق اوپر سے نیچے تک ہر کوئی اپنی روٹین میں مگن ہوجاتا ہے۔ ایک سابقہ چیف جسٹس صاحب کی مہربانی سے ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ پاکستان میں پانی کی کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کےلیے ہمیں ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ہم میں سے کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ جب تک ڈیم نہیں بن جاتا تو کم از کم ہم اپنے گھر میں پانی کا ضیاع روکنے کی کوشش کریں؟ رہی بات خوراک کی، تو ہر گھر میں کسی کو بھنڈی نہیں پسند تو کوئی ٹینڈے نہیں کھانا چاہتا اور کوئی دال سے نالاں ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک بینگن یا کدو کو بیج سے آپ کی پلیٹ تک پہنچانے میں کتنی محنت و مشقت لگتی ہے، کتنے گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ (حالانکہ ہم سب نے یہ بات کئی بار پڑھی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی چالیس فیصد آبادی براہ راست زراعت سے وابستہ ہے)۔
اگر ذمے داری کے تعین کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمے داری حکومت کی بنتی ہے۔ قانون سازی سے عملدرآمد تک ہر لحاظ سے ذمے داری حکومتِ وقت پر آتی ہے۔ کیونکہ جب بھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا تو اس کا سدباب عوام نہیں بلکہ مقتدرہ و انتظامیہ کو کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کا کام صرف یہی نہیں کہ اس وقت اس مسئلے کی شدت کا توڑ کیا جاسکے، بلکہ آئندہ کےلیے بھی اس کی پیش بندی کرنا ضروری ہے۔
ہم گزشتہ ستر برسوں سے اپنے قدرتی وسائل کی ناشکری میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں کا شکر صرف عبادات تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ ہی محض زبانی کلامی 'یا اللہ تیرا شکر ہے' کہہ دینا کافی ہے۔ درحقیقت ان نعمتوں کا اصل شکر ان کی حفاظت ہے۔ ان کو احتیاط سے استعمال میں لانا اور اپنی آنے والی نسلوں کےلیے انہیں بہترین حالت میں رکھنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔