تقریریں نہیں کام بولتے ہیں

کسی انتخابی مہم میں تو تقریریں کام آسکتی ہیں لیکن ایک حکمران سے لوگ تقریریں نہیں کام چاہتے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

کسی بھی سیاسی حکومت کی یہ مشکل رہی ہے کہ وہ آتی تو بڑے بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کے دعوے کمزور پڑنے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام اور اپوزیشن کی تنقید میں آجاتی ہے پھررفتہ رفتہ اس کی عوامی تائید کمزور پڑ جاتی ہے اوروہ غیر مقبول ہوجاتی ہے اس کے سیاسی حامی اور کارکن ہر وقت مشکل میں پھنسے رہتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں حکمران گھبرا کر دوبارہ عوام سے براہ راست رابطے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے خیال میں براہ راست رابطے سے وہ عوام کے دل جیت سکتے ہیں لیکن عوام جلسے جلوسوں اور سرکاری انتظامات کی شان وشوکت سے مرعوب نہیں ہوتے وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں انھیں تقریروں یاوعظ و نصیحت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ ان پر عمل چاہتے ہیں ۔

حکمران تھانے داروں اور تحصیلداروں کے جمع کیے ہوئے عوام کے سامنے دھواں دھار تقریر کر کے ان کے دلوں میں اپنے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن اگر یہی حکمران عوام کے لیے کوئی فلاحی منصوبہ بنا دیں تو وہ حکمران کے شکر گزار بھی ہوتے ہیں اور اس کو یاد بھی رکھتے ہیں۔

کسی انتخابی مہم میں تو تقریریں کام آسکتی ہیں لیکن ایک حکمران سے لوگ تقریریں نہیں کام چاہتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کی حکومت عوام لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا نہیں کر سکتی اور ان کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر دیتی ہے تو پھر اس کو عوام کی قبولیت کیسے مل سکتی ہے ۔اخبارات اور ٹیلی ویژن وغیرہ اگر کسی حکومت کو مستحکم کر سکتے تو ماضی میں کوئی حکومت زوال سے دوچار نہ ہوتی کیونکہ ہر حکومت کو ذرایع ابلاغ کی مناسب حمایت حاصل رہی ہے جو اب بھی ہے۔

ہمارے ہاں بعض حکمران اور حکومتیں ایسی رہی ہیں جنھوں نے تقریریں کم کی ہیں جلسے کم منعقد کیے ہیں لیکن کام زیادہ کیے ہیں ۔ ایک فوجی حکومت کے اندر ایک وزیر اعظم تھے محمدخان جونیجو ۔ انھیں نہ تقریر کرنی آتی تھی نہ وہ اس کے شوقین تھے لیکن کام کرنا جانتے تھے ۔ ان کے دور حکومت میں پاکستان کی سرزمین پر جتنا کام ہوا اور جسے عوام نے بچشم خودملاحظہ کیا وہ اتنا زیادہ تھا کہ لوگ اب تک اس خاموش شخص کو یاد رکھتے ہیں۔


ابھی کل کی بات ہے کہ پنجاب کے ایک وزیر اعلیٰ شہباز شریف جلسے جلوس نہیں کرتے تھے دن رات کام کرتے تھے ان کے پاس وہی اختیارات تھے جو کسی بھی وزیر اعلیٰ کے پاس ہوا کرتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کیا کہ افسر شاہی کو سرکشی بھول گئی ۔ ان کے دور میں کسی کویہ جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ وقت پر دفترحاضر نہ ہو کجا یہ کہ افسر شاہی کا متحد ہو کر اجلاس کرنے کا خواب و خیال بھی تصور میں نہیں آسکتا تھا ۔وزیراعلیٰ ہر سرکاری ملازم سے زیادہ کام کرتا تھا اور اسی طرح کام لیتا بھی تھا ۔ اس نے لاہور میں جو کام کیے وہ زندہ ہیں اور اس کی یاد دلاتے رہتے ہیں ۔ باتیں وہ کرتے ہیں جنھیں کام نہیں ہوتا جو کام کرتے ہیں وہ باتیں نہیں کرتے۔ ان کے کام ان کی ترجمانی کرتے ہیں ان کی جگہ زبان حال سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کی خدمات بیان کرتے ہیں ۔

لاکھوں لوگ میاں صاحبان کی بنائی ہوئی سڑکوں پر سفر کرتے ہیں میں خود جو ایک دور افتادہ اور بے کس قسم کے گاؤں میں رہتا ہوں، لاہور سے کلر کہار تک نواز شریف کی بنائی ہوئی موٹر وے پر سفر کرتا ہوں لیکن اس سے آگے وادیٔ سون میں اپنے گاؤں تک کی سڑک کو میاں شہباز شریف اپنے دس سالہ دور اقتدار میں شاید بھول گئے تھے اس لیے میں گزشتہ کئی برس سے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ہی سفر کرتا رہا وہ تو بھلا ہو عثمان بزدار کا جنھوں نے وزیراعلیٰ بنتے ہی وادیٔ سون کی مرکزی شاہراہ جو خوشاب سے شروع ہوکر سکیسر کے پہاڑ کے دامن تک جاتی ہے اس کی تعمیر کا حکم دیا اب بہت جلد میں اس نئی نویلی کارپٹ سڑک پر سفر کروں گا وادیٔ سون کے لاکھوں باسی عثمان بزدار کو دعائیں دیتے ہیں ۔

پنجاب کے درویش وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک صحت مند نوجوان اور اپنی اسمبلی کی طرف سے کسی حد تک مطمئن دکھائی دیتے ہیں ان کو ابھی تک وزیراعظم عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے یعنی کسی بھی وزیر اعلیٰ کو کام کرنے کے لیے جو ساز گار ماحول چاہیے وہ موجود ہے ایسے سازگار حالات میں اگروہ اپنی توانائیاں درست طریقے سے استعمال کریں تو کسی حد تک شہباز شریف کی کمی پوری کر سکتے ہیں اور پنجاب کے عوام کو اپنے ہونے کا احساس دلا سکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کئی اچھے کام کرنے کے باوجود وہ ان کی تشہیر نہیں کر پا رہے جس کی وجہ سے وہ مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنوں کے نشانے پر بھی ہیں ۔

میں ایک پرانا اخبار نویس ہونے کی وجہ سے ان کویقین دلاتا ہوں کہ ان کی شرافت سے حکومت کو قطعاً کوئی سیاسی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ عوام کو اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے، تقریریں وہ بہت سن چکے ہیں اور حکمرانوں کا طمطراق بھی بہت دیکھ چکے ہیں، اگر حکومتی حلقے آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام کو اپوزیشن کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اپنے مسائل سے غرض ہے ۔ اگر موجودہ حکمران ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتے تو پھر عوام کو اپوزیشن کی باتوں سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی اور اس کے بعد کیا ہو گا۔

دما دم مست قلندر۔ میں عثمان بزدار کو ایک کامیاب وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ وہ صوبے میں دکھائی دینے والے ترقیاتی تعمیری اور فلاحی منصوبے ہنگامی بنیادوں پرشروع کریں اور پنجاب کے عوام کو سکھ چین فراہم کرنے والے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کریں ۔ ان کے ساتھ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں میں کئی لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اس ضمن میں ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔ کاریگر قسم کے لوگوں سے بچیں ۔ کتنے ہی لیڈر ان کے ساتھ ہیں جو کل تک ماضی کے حکمرانوں پر جان چھڑکتے تھے اس سے عبرت حاصل کریں ۔میں ایک بار پھر کہوں گا کہ عثمان بزدار کوایک کامیاب وزیر اعلیٰ بننا چاہیے جو وہ بن سکتے ہیں۔
Load Next Story