’سوات‘ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ
سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، بل کھاتا شور مچاتا دریائے سوات، دل کش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں۔
ان دنوں سرد موسم اور برف باری کی وجہ سے ملک کے شمالی علاقوں نے سفید چادر اوڑھ لی ہے، بعض علاقوں میں تو درجۂ حرارت منفی بارہ سے بھی نیچے گرگیا ہے۔
بہت سے علاقوں میں راستے بند ہیں، مقامی افراد اپنے گھر وں میں محصور ہوگئے ہیں اور منچلے سیاح راستوں میں پھنس گئے ہیں۔ کم و بیش یہی حالت ملک کے جنوب میں واقع بلوچستان کے بعض علاقوں کی بھی ہے۔
کراچی میں بھی بہت سردی ہے، سوئیٹر، مفلر، جیکٹ اور شالیں نکل آئی ہیں، لوگ گلی محلوں میں آگ جلاکر ہاتھ تاپتے، چائے کافی پیتے نظر آتے ہیں اور بعض منچلے سرد موسم میں آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ایسے سرد موسم میں ذہن کے دریچوں میں سوات کی یادوں کے البم کھل جاتے ہیں اور دل تڑپنے لگتا ہے، جس کی پرکشش وادیوں، خوب صورت پہاڑوں، دل کش اور حسین فطری مناظر، دل فریب آبشاروں، بل کھاتے اور شور مچاتے دریاؤں اور بے شمار پرکشش تفریحی مقامات نے دیگر سیاحوں کی طرح مجھے ہمیشہ اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ اسی خوب صورتی کی وجہ سے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
سوات کئی مرتبہ جانا ہوا اور ہر مرتبہ یہی حسرت لے کر واپس لوٹے کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے، کیوںکہ اس کو جتنا دیکھو، دل ہی نہیں بھرتا اور دل سے یہی صدا آتی ہے کہ کچھ دن اور ان فطری مناظر کو دیکھ لیں، کچھ دن اور اس جنت نظیر خطے میں گزار لیں۔ اپنے ربّ کی صناعی اور بہترین تخلیق کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اور کبھی سجدۂ شکر بجالا تا ہے۔
مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، وہ لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور محنتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ ہے۔
سوات صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہے اور یہ سابق ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی ۔ پوری وادی پانچ ہزار 337 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ اور مغرب میں ضلع دیر واقع ہیں۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بالائی سوات، زیریں سوات اور کوہستان۔
سوات وسط ایشیا کی تاریخ میں علم بشریات اور آثارقدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہر ت حاصل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد سے 254 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے 170کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ضلعی صدر مقام سیدوشریف میں ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ ہے، فضائی راستے کے علاوہ سڑک کے راستے بھی لوگ سوات جاتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو سٹرک کے راستے سفر کرنے کا اپنا مزا ہے۔ پنڈی میں پیرودھائی کے بس اڈے سے سوات جانے والی بس میں بیٹھیں تو واہ کینٹ، ایبٹ آباد اور مردان سے ہوتی ہوئی مالاکنڈ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور پھر سوات کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جہاں مینگورہ پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آگے جانا ہوتو دوسری بس میں سفر کرنا ہوگا۔ چوںکہ تھکن بہت تھی، اس لیے مینگورہ کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مینگورہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں فضاگیٹ پارک اپنی مثال آپ ہے۔
ہم لوگ مینگورہ سے نکل کر مالم جبہ پہنچے، جہاں کے نظارے ہی منفرد اور دل کش تھے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں بھی گئے، جہاں سیم سن اسکی ریزورٹ سردیوں میں آباد ہوتا ہے۔ بہت سے متوالے اسکی انگ کرنے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور غیرملکی سیاح بھی۔ وہاں کئی اعلیٰ اور آرام دہ ہوٹل ہیں، اس کے علاوہ چیئرلفٹ بھی ہیں، جن میں بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
سوات میں مجھے بحرین پسندآیا، جہاں دریا کا بلند آہنگ شور بہت مزا دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا، جو بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کا نام بحرین اس لیے ہے کہ یہ دریائے سوات اور دریائے درال کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں درخت اور سبزہ زار دیکھنے والوں پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ سوات میںکون سا مقام سب سے زیادہ خوب صورت ہے۔
ایک صبح ہمارا رخ کالام کی طرف تھا، دریا کے کنارے پر واقع یہ دل کش قصبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف دریا، اس کے اطراف سبزہ زار اور تھوڑے ہی سے فاصلے پر کئی آبشار۔ دریائے سوات کے کنارے پر ایک جھونپڑا ہوٹل پر بیٹھے اور چائے کاآڈر دیا، سخت سردی اور دہکتے ہوئے کوئلوں کا دھواں اور چائے کی کیتلی سے بلند ہوتی ہوئی بھاپ ایک عجب سماں پیدا کررہی تھی۔ کالام میں پہلے پی ٹی ڈی سی کا موٹیل تھا، لیکن اب ایک خوب صورت فائیو اسٹار ہوٹل اور دوسرے بہت سے ہوٹل بھی ہیں، لیکن دریا کنارے واقع چھوٹے ہوٹلوں میں قیام سے سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اگلی دوپہر کالام میں ٹراؤٹ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا، ٹراؤٹ اُس علاقے کی خاص سوغات ہے، جس کا سوندھا مزا اور لذت برسوں یاد رہتی ہے۔ کالام ہی میں سیف اللہ جھیل ہے، ایک جانب تو اس کا فطری حسن سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے اور دوسری جانب اسی جھیل میںمزے دار ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔
کالام سے گیارہ کلومیٹر آگے کی طرف سفر کریں تو مٹلتان کا علاقہ آتا ہے۔ جو اپنے گھنے جنگلوں، برفپوش پہاڑی چوٹیوں اور بڑے بڑے گلیشیئرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کالام ہی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر'' اپر اوشو'' کی وادی میں مہوڈنڈ جھیل واقع ہے، جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال ہے۔ کالام سے انیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور خوب صورت جھیل ہے، جسے کنڈول کہتے ہیں، جب کہ کالام میں گھنے اور بے پناہ خوب صورت جنگلات بھی ہیں۔ یہ جنگلات فطرت کو دریافت کرنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور وہاں مہم جوئی کے شوق بھی پوری ہوجاتے ہیں۔
یہ علاقے تو بہت سے سیاحوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراگاہوں، خوب صورت جھیلوں اور پہاڑی راستوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اسپن خوار جھیل، اترور وادی کے مشر ق میں پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔ کھپیرو جھیل نیلے پانی کی دل کش جھیل ہے اور سطح سمندر سے تیرہ ہزار چار سو فٹ بلند ہے۔ اسی طرح سوات کی سعید گئی جھیل بھی اپنے حسن میں لاجواب ہے۔ سوات ہی میں کوہ ہندوکش کا خوب صورت سلسلہ سیاحوں کو ہائیکنگ اور مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے۔
سفید محل سیدوشریف سے تیرہ کلومیٹر دور مرغزار کے چھوٹے سے قصبے میں سفید محل واقع ہے، جسے 1940میں تعمیر کیا گیا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مانکیال گاؤں، میدیان، کالاکوٹ اور دیگر گاؤں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مینگورہ کے شمال میں بیس کلومیٹر کا سفر طے کریں تو شنگرائی کی خوب صورت آبشار آتی ہے۔ سوات کے شاہی باغ کے کیا کہنے، جس کا سبزہ زار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مینگورہ سے 56کلومیٹر دور میاندم کا حسین قصبہ ہے۔ سطح سمند ر سے ایک ہزار آٹھ سو میٹر بلند ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی سخت سردی پڑتی ہے۔ سوات کی جروگو آبشار ملک کی بلندترین آبشار ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گبرال بھی ہے، جو بے پناہ حسین فطری نظاروں سے بھرپور ہے۔
بہر حال سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، بل کھاتا شور مچاتا دریائے سوات، دل کش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں اور لمبے لمبے درخت، آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والا سبزہ زار، شفاف پانی کے چشمے اور سردیوں میں برف باری اور برف سے ڈھکے علاقوں کی خوب صورتی دیکھنے کے لیے آپ کو سوات جانا ہوگا۔
بہت سے علاقوں میں راستے بند ہیں، مقامی افراد اپنے گھر وں میں محصور ہوگئے ہیں اور منچلے سیاح راستوں میں پھنس گئے ہیں۔ کم و بیش یہی حالت ملک کے جنوب میں واقع بلوچستان کے بعض علاقوں کی بھی ہے۔
کراچی میں بھی بہت سردی ہے، سوئیٹر، مفلر، جیکٹ اور شالیں نکل آئی ہیں، لوگ گلی محلوں میں آگ جلاکر ہاتھ تاپتے، چائے کافی پیتے نظر آتے ہیں اور بعض منچلے سرد موسم میں آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ایسے سرد موسم میں ذہن کے دریچوں میں سوات کی یادوں کے البم کھل جاتے ہیں اور دل تڑپنے لگتا ہے، جس کی پرکشش وادیوں، خوب صورت پہاڑوں، دل کش اور حسین فطری مناظر، دل فریب آبشاروں، بل کھاتے اور شور مچاتے دریاؤں اور بے شمار پرکشش تفریحی مقامات نے دیگر سیاحوں کی طرح مجھے ہمیشہ اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ اسی خوب صورتی کی وجہ سے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
سوات کئی مرتبہ جانا ہوا اور ہر مرتبہ یہی حسرت لے کر واپس لوٹے کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے، کیوںکہ اس کو جتنا دیکھو، دل ہی نہیں بھرتا اور دل سے یہی صدا آتی ہے کہ کچھ دن اور ان فطری مناظر کو دیکھ لیں، کچھ دن اور اس جنت نظیر خطے میں گزار لیں۔ اپنے ربّ کی صناعی اور بہترین تخلیق کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اور کبھی سجدۂ شکر بجالا تا ہے۔
مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، وہ لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور محنتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ ہے۔
سوات صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہے اور یہ سابق ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی ۔ پوری وادی پانچ ہزار 337 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ اور مغرب میں ضلع دیر واقع ہیں۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بالائی سوات، زیریں سوات اور کوہستان۔
سوات وسط ایشیا کی تاریخ میں علم بشریات اور آثارقدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہر ت حاصل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد سے 254 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے 170کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ضلعی صدر مقام سیدوشریف میں ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ ہے، فضائی راستے کے علاوہ سڑک کے راستے بھی لوگ سوات جاتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو سٹرک کے راستے سفر کرنے کا اپنا مزا ہے۔ پنڈی میں پیرودھائی کے بس اڈے سے سوات جانے والی بس میں بیٹھیں تو واہ کینٹ، ایبٹ آباد اور مردان سے ہوتی ہوئی مالاکنڈ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور پھر سوات کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جہاں مینگورہ پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آگے جانا ہوتو دوسری بس میں سفر کرنا ہوگا۔ چوںکہ تھکن بہت تھی، اس لیے مینگورہ کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مینگورہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں فضاگیٹ پارک اپنی مثال آپ ہے۔
ہم لوگ مینگورہ سے نکل کر مالم جبہ پہنچے، جہاں کے نظارے ہی منفرد اور دل کش تھے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں بھی گئے، جہاں سیم سن اسکی ریزورٹ سردیوں میں آباد ہوتا ہے۔ بہت سے متوالے اسکی انگ کرنے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور غیرملکی سیاح بھی۔ وہاں کئی اعلیٰ اور آرام دہ ہوٹل ہیں، اس کے علاوہ چیئرلفٹ بھی ہیں، جن میں بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
سوات میں مجھے بحرین پسندآیا، جہاں دریا کا بلند آہنگ شور بہت مزا دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا، جو بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کا نام بحرین اس لیے ہے کہ یہ دریائے سوات اور دریائے درال کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں درخت اور سبزہ زار دیکھنے والوں پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ سوات میںکون سا مقام سب سے زیادہ خوب صورت ہے۔
ایک صبح ہمارا رخ کالام کی طرف تھا، دریا کے کنارے پر واقع یہ دل کش قصبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف دریا، اس کے اطراف سبزہ زار اور تھوڑے ہی سے فاصلے پر کئی آبشار۔ دریائے سوات کے کنارے پر ایک جھونپڑا ہوٹل پر بیٹھے اور چائے کاآڈر دیا، سخت سردی اور دہکتے ہوئے کوئلوں کا دھواں اور چائے کی کیتلی سے بلند ہوتی ہوئی بھاپ ایک عجب سماں پیدا کررہی تھی۔ کالام میں پہلے پی ٹی ڈی سی کا موٹیل تھا، لیکن اب ایک خوب صورت فائیو اسٹار ہوٹل اور دوسرے بہت سے ہوٹل بھی ہیں، لیکن دریا کنارے واقع چھوٹے ہوٹلوں میں قیام سے سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اگلی دوپہر کالام میں ٹراؤٹ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا، ٹراؤٹ اُس علاقے کی خاص سوغات ہے، جس کا سوندھا مزا اور لذت برسوں یاد رہتی ہے۔ کالام ہی میں سیف اللہ جھیل ہے، ایک جانب تو اس کا فطری حسن سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے اور دوسری جانب اسی جھیل میںمزے دار ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔
کالام سے گیارہ کلومیٹر آگے کی طرف سفر کریں تو مٹلتان کا علاقہ آتا ہے۔ جو اپنے گھنے جنگلوں، برفپوش پہاڑی چوٹیوں اور بڑے بڑے گلیشیئرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کالام ہی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر'' اپر اوشو'' کی وادی میں مہوڈنڈ جھیل واقع ہے، جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال ہے۔ کالام سے انیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور خوب صورت جھیل ہے، جسے کنڈول کہتے ہیں، جب کہ کالام میں گھنے اور بے پناہ خوب صورت جنگلات بھی ہیں۔ یہ جنگلات فطرت کو دریافت کرنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور وہاں مہم جوئی کے شوق بھی پوری ہوجاتے ہیں۔
یہ علاقے تو بہت سے سیاحوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراگاہوں، خوب صورت جھیلوں اور پہاڑی راستوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اسپن خوار جھیل، اترور وادی کے مشر ق میں پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔ کھپیرو جھیل نیلے پانی کی دل کش جھیل ہے اور سطح سمندر سے تیرہ ہزار چار سو فٹ بلند ہے۔ اسی طرح سوات کی سعید گئی جھیل بھی اپنے حسن میں لاجواب ہے۔ سوات ہی میں کوہ ہندوکش کا خوب صورت سلسلہ سیاحوں کو ہائیکنگ اور مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے۔
سفید محل سیدوشریف سے تیرہ کلومیٹر دور مرغزار کے چھوٹے سے قصبے میں سفید محل واقع ہے، جسے 1940میں تعمیر کیا گیا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مانکیال گاؤں، میدیان، کالاکوٹ اور دیگر گاؤں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مینگورہ کے شمال میں بیس کلومیٹر کا سفر طے کریں تو شنگرائی کی خوب صورت آبشار آتی ہے۔ سوات کے شاہی باغ کے کیا کہنے، جس کا سبزہ زار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مینگورہ سے 56کلومیٹر دور میاندم کا حسین قصبہ ہے۔ سطح سمند ر سے ایک ہزار آٹھ سو میٹر بلند ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی سخت سردی پڑتی ہے۔ سوات کی جروگو آبشار ملک کی بلندترین آبشار ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گبرال بھی ہے، جو بے پناہ حسین فطری نظاروں سے بھرپور ہے۔
بہر حال سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، بل کھاتا شور مچاتا دریائے سوات، دل کش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں اور لمبے لمبے درخت، آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والا سبزہ زار، شفاف پانی کے چشمے اور سردیوں میں برف باری اور برف سے ڈھکے علاقوں کی خوب صورتی دیکھنے کے لیے آپ کو سوات جانا ہوگا۔