تصویر کائنات میں رنگ

لڑکے اور لڑکیاں ہر شعبے میں اپنا نام اور مقام پیدا کر رہے ہیں ان میں آگے بڑھنے کی لگن موجود ہے۔


مونا خان January 26, 2020

RAWALPINDI: اپنی پچھلی تحریروں میں امریکا میں مقیم کامیاب پاکستانی مرد حضرات کا ذکر کافی رہا، مگر یہاں مجھے کچھ کمی محسوس ہوئی، تو اس کمی کو ہماری شاعرہ سبین سیف کے اس شعر میں بیان کردیتی ہوں:

میں نہ لاتی فلک سے آدم تو

گھر زمیں پر بسا نہیں ہوتا

الغرض کسی بھی ملک کی ترقی میں مرد و عورت دونوں کا بھرپور ہاتھ ہوتا ہے۔ تو یہاں میں ضرور ان پاکستانی نوجوان خواتین کا ذکر کروں گی جو اپنی پروفیشنل لائف کی چیمپئن ہیں۔ ثمر ملک سے میری ملاقات World Forum Disrupt کی Women in Media میں ہوئی اور وہ وہاں سینئر برانڈ مارکیٹنگ منیجر کے عہدے پر رہتے ہوئے سارے فورم کے انتظامات و نظام سنبھالے ہوئے تھیں۔

بلاشبہ یہ کانفرنس انتہائی کامیاب رہی، جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی خواتین نے بھرپور شرکت کی۔ میں نے ثمر ملک سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا کہ یہاں میری کافی لوگوں سے یہاں ملاقات ہوئی ہے تو انھوں نے کانفرنس کی کامیابی کے حوالے سے آپ کا نام لیا۔ آپ یہ بتائیں اس طرح کی کانفرنسز میں جب پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو کیسا محسوس کرتی ہیں۔

انھوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا بلاشبہ جب کسی بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا نام آتا ہے تو میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ اس کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد خواتین کو خودمختار بنانا اور انھیں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں آگے بڑھنے کے مواقعے مہیا کرنا ہے۔ لڑکیوں میں شعور بیدار کرنا اور ان میں ایک مثبت سوچ کو پروان چڑھانا میرے کام کا حصہ ہے۔ میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہوں۔

اس طرح کی کانفرنس کے انعقاد کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کا تعلق دہشتگردی سے جوڑا جاتا ہے اس غلط اور منفی تاثر کو زائل کرنا ہماری بنیادی ذمے داری ہے اور میں خود اس طرح کی کانفرنسز منعقد کرکے اس ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتی ہوں۔ دراصل یہ فورم ہوتا ہے جہاں پر کھل کر آپ اپنا موقف بیان کرسکتے ہیں جسے اہمیت بھی یقینا دی جاتی ہے۔

میں نے ان سے اگلا سوال کیا کہ آپ کو اپنی اس جدوجہد کے دوران جو مشکلات پیش آئیں، ذرا ان کے بارے میں بتائیں تو وہ انتہائی دل آویز مسکراہٹ سے یوں گویا ہوئیں کہ میرے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے، لہٰذا روایتی طور پر میرے لیے بہت زیادہ فکرمند رہتے ہیں کہ لڑکی ذات ہے، مختلف شہروں اور ملکوں میں اکیلے جا رہی ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی پریشانی اطمینان میں تبدیل ہوگئی، میرے لیے یہ شعبہ ایک چیلنج کی طرح تھا جو میں نے قبول کیا۔

میں ایونٹ منیجر کی حیثیت سے جب مختلف خیال لوگوں سے ملتی ہوں تو ان کے خیالات کو سنتی ہوں ان سے مزاج آشنائی ہوتی ہے۔ اس سارے عمل اور جدوجہد میں تین چیزوں کا عمل دخل ہے۔ صبر وتحمل، زیرو ٹالرنس اور مسکراہٹ کا۔الف تا ی تمام باتیں جو کانفرنس کے انعقاد کے لیے ضروری ہوتی ہیں کسی بھی کانفرنس کی کامیابی کے پیچھے پوری ٹیم ہوتی ہے۔ میں کانفرنس کے شرکا اور اس کے آرگنائزر اور اسپانسرز کے ساتھ تمام آئیڈیاز کو شیئر کرتی ہوں۔ کانفرنس کے اسپیکرز کا چناؤ بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

بہرحال ایک طویل عمل سے گزر کر ہی ایک کامیاب کانفرنس یا ایونٹ منعقد کیا جاسکتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے اس کے لیے دن، رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ میں نے ثمر ملک سے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں Women in Media کانفرنس کا آئیڈیا کیسے آیا؟انھوں نے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے میڈیا انڈسٹری میں بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ ترقی اور ملازمت کے بہترین مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی مدد کرنے اور ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی غرض سے یہ کانفرنس منعقد کروائی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ کی اس کانفرنس میں مجھے کافی خواتین حجاب میں بھی نظر آئیں جو میرے لیے حیرانی کی بات تھی، تو انھوں نے کہا اپنی شناخت قائم رکھتے ہوئے یہاں پر میڈیا میں کام کرنا ہمت و حوصلے کی بات ہے۔ میں نے ضمنی بات ان سے پوچھی کہ کیا آپ پاکستان میں بھی ایسی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیں گی؟ تو انھوں نے کہا کہ یقینا میں ایسا چاہوں گی، تاکہ لڑکیوں کو آگے بڑھنے کے مزید مواقع مہیا ہوسکیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔

ہمیں اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ایسی کانفرنسوں کا انعقاد پاکستان میں تواتر کے ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ان میں غیر ملکی مہمان شریک ہوں۔ یہ مندوبین واپس جاکر اپنے ملک کے باسیوں کو بتائیں کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔ جب پاکستان کا منفی تاثر زائل ہوگا تو لامحالہ سرمایہ کاری کا رجحان بھی بڑھے گا جس سے پاکستانیوں کو روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے۔

میں نے کہا آپ یہاں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں، کیسا لگتا ہے جب لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔ بلاشبہ فخر محسوس کرتی ہوں گو کہ میں برطانوی شہری ہوں اور میں نے کوئین میری لندن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہے۔ لندن میں اپنا بزنس کر رہی ہوں لگژری ایونٹس کے لیے ٹیبل اور چیئرز کے کور بناتی ہوں۔ اگر لڑکیاں اپنی روایات اور اقدار سے جڑی رہیں تو زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔ برطانیہ کا معاشرہ پاکستانی معاشرے سے یکسر مختلف ہے۔

یہاں پر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ لڑکیوں کو اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کلچرز کی ویلیوز اور رولز کو بھی سمجھنا چاہیے۔ اپنی روایات سے ناتا نہ توڑیں، لڑکی آؤٹ اسپوگن ضرور ہو، لیکن بدتمیز نہ ہو، پاکستانی اور مسلمان لڑکیوں کو برطانیہ کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے بلکہ آگے بھی بڑھنا ہے۔ جیسے آپ نے بتایا کہ آپ لندن، برطانیہ میں مسلم کمیونٹی سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ میرے سوال کے جواب میں کہنے لگیں کہ یہاں لندن میں ایک منی پاکستان آباد ہے۔

ہم برطانوی شہریت کے حامل ضرور ہیں لیکن ہمارا رشتہ پاکستان سے اٹوٹ ہے۔ یہاں پر نوجوان نسل میں ایک جذبہ اور لگن پائی جاتی ہے اور یہ اپنی قوم و ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک لڑکی کی عزت و افتخار اس بات میں ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرے۔میں نے ان سے پوچھا کہ خواتین کو وہ مقام مل رہا ہے جس کے لیے وہ اتنی جدوجہد کر رہی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ تمام شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری رہی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

مسلمان لڑکیاں جن کا تعلق پاکستان، ہندوستان، ہسپانیہ، افریقا، چین یا دنیا کے دیگر ممالک سے ہے وہ اب یہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ ترقی اور تبدیلی کا عمل جاری و ساری ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنی کم عمری میں ڈھیر ساری کامیابیاں سمیٹی ہیں، اس کامیابی کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے؟ وہ کہنے لگیں مونا! آپ بھی سمجھ سکتی ہیں کہ ایک لڑکی کے لیے کتنی مشکلات پیش آتی ہیں۔ جب وہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے عملی جدوجہد کرتی ہے۔

میرا ماننا ہے کہ لوگ آپ کو روکتے ہیں، ہرٹ کرتے ہیں لیکن دل برداشتہ ہونے کی بجائے بہت سے کام کرنے چاہئیں۔ ہم بہتر ہیں، تو سر جھکا کر چلنا سیکھیں۔ کوئی بدتمیزی کرے تو یہ اس کا ذاتی طرز عمل ہوگا، ہمیں بحیثیت لڑکی ثابت کرنا ہے کہ ہم میں برداشت کا مادہ موجود ہے، زندگی کو مثبت نقطہ نظر سے دیکھیں تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔میں نے پوچھا کہ آپ پاکستان کو یاد کرتی ہیں؟ تو وہ بولیں ہاں، بہت زیادہ مس کرتی ہوں، بچپن کے آٹھ یا نو سال میں نے لاہور میں گزارے ہیں۔

اب بھی سال میں کم ازکم دو بار پاکستان جاتی ہوں، اپنے عزیز و اقارب سے ملنے، اپنی دوستوں سے مل کر خوب انجوائے کرتی ہوں۔ پاکستانی کھانے تو لاجواب ہوتے ہیں۔ مجھے لکھنے اور شاعری کا بہت شوق ہے، علامہ اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ میں تو یہاں دیگر اقوام کے لوگوں کو بھی دعوت دیتی ہوں کہ وہ پاکستان آئیں، یہاں کے مہمان نواز اور امن پسند لوگوں سے ملیں۔ میرا ان سے سوال تھا کہ وہ پاکستان کے مستقبل کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ میں بہت زیادہ پرامید ہوں کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کرے گا، پاکستانی یوتھ بہت ٹیلنٹڈ ہے۔

لڑکے اور لڑکیاں ہر شعبے میں اپنا نام اور مقام پیدا کر رہے ہیں ان میں آگے بڑھنے کی لگن موجود ہے، البتہ کرپشن کے باعث مسائل ہیں، ٹیکس کلچر نہیں ہے۔ اس کے باوجود مجھے امید ہے کہ پاکستان عمران خان کی قیادت میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔ میری ثمر ملک سے ہونے والی گفتگو انتہائی کارآمد اور مفید معلومات پر مبنی تھی اسی لیے میں نے ایکسپریس کے قارئین کے ساتھ شیئر کی۔ آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں