قذافی اسٹیڈیم میں پاک بنگلادیش ٹی ٹوئنٹی سیریز کا میلہ

کرکٹ کی رونقوں میں اضافہ، شائقین کا جوش و خروش عروج پر

کرکٹ کی رونقوں میں اضافہ، شائقین کا جوش و خروش عروج پر۔ فوٹو: پی سی بی

قذافی اسٹیڈیم میں بنگال ٹائیگرز کو ایکشن میں دکھائی دے کر بہت اچھا لگا، سری لنکا کے بعد بنگلادیش کے خلاف بھی ہوم سیریز کے کامیاب انعقاد کا کریڈٹ یقینی طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور ہمارے سکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔

دلی خواہش ہے کہ اب انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ سمیت دنیا کی دوسری ٹیمیں بھی پاکستان میں کھیلنے کے لئے آئیں، یہ جذبات قذافی سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لئے دبئی سے فیملی کے ساتھ آنے والے خرم ریاض کے تھے، جمعہ کی شام پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان سیریز کا پہلا میچ اختتام پذیر ہوا تو شائقین کے چہرے خوشی سے سرشار تھے، میچ دیکھنے کے لئے سٹیڈیم آنے والوںکا تعلق لاہور یا ملک بھر کے مختلف شہروں سے ہی نہیں تھا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کرکٹ کے دیوانے اور مستانے آئے ہوئے تھے۔

محمد ندیم بھی اپنی پوری فیملی کے ساتھ بحرین سے لاہور آیا اور اس نے سٹیڈیم میں بیٹھ کر دلچسپ مقابلہ دیکھا، اس موقع پر اس کا کہنا تھا کہ ہم تو انٹرنیشنل کرکٹ ایک بار پھر گھر لوٹنے کے بے تابی سے منتظر تھے، قذافی سٹیڈیم کچھا کچھ بھرا دیکھ کر بڑا اچھا لگا، سچ پوچھیں تو میرے تمام سفری اخراجات کے پیسے پورے ہو گئے، بیرون ملک ہمیں طعنے ملتے تھے کہ تمہارا ملک دہشت گرد ہے اور وہاں پر کسی کی جان مال محفوظ نہیں ہے، اب ہم بھی واپس جا کر بتا سکیں گے کہ پاکستان ہر حوالے سے نہ صرف محفوظ ترین ملک ہے بلکہ ہاکستانیوں بالخصوص زندہ دلان لاہور کی مہمان نوازی کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔

میچ کے دوران سٹیڈیم میں موجود تماشائیوں نے پاکستان اور بنگلادیش دونوں ٹیموں کو بھر پور سپورٹ کیا، بنگلادیش نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو شائقین مہمان ٹیم کے بیٹسمینوں کی ہر اچھی سٹروک پر دل کھول کر انہیں داد دیتے۔ سورج ڈھلنے کے بعد جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو تماشائیوں نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کر دیں جس کی وجہ سے قذافی سٹیڈیم روشنیوں کا خوبصورت منظر پیش کرنے لگا۔یہی مناظر دوسرے ٹوئنٹی 20 میچ کے موقع پر بھی دیکھے گئے، ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے نہ صرف قذافی سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلکہ شائقین کا جوش وخروش بھی عروج پر تھا۔

اگر پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان سیریز کے پہلے میچ کی بات کی جائے تو دونوں ٹیموں کی طرف سے عمدہ کھیل پیش کیا گیا، شائقین بھی دلچسپ مقابلے سے خوب لطف اندوز ہوئے۔پاکستان کے لئے سب سے اچھی بات یہ رہی کہ گرین شرٹس کی عالمی نمبر ون رینکنگ پر چھائے خطرے کے بادل نہ صرف ٹل گئے بلکہ عالمی درجہ بندی میں پاکستانی ٹیم کی پوزیشن کسی حد تک مستحکم بھی ہوئی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو مختصر طرز کی کرکٹ میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، سری لنکا جیسی بی ٹیم کے ہاتھوں شکست کے بعد سرفراز احمد کو کپتانی سے ہاتھ دھونا پڑے، بعد ازاں بابر اعظم کو دورہ آسٹریلیا کے دوران قومی ٹوئنٹی20 ٹیم کی قیادت سونپی گئی، وہ بھی پاکستانی ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نہ نکال سکے اور گرین شرٹس کینگروز کے خلاف شیڈول تینوں میچز ہار گئے اور یوں بابر اعظم کی کمان میں پاکستانی ٹیم پہلی بار ٹوئنٹی20میچ میں فتح حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

میچ کی ایک اور خاص بات عرصہ دراز کے بعد کم بیک کرنے والے شعیب ملک بھی تھے جنہوں نے ناقابل شکست 58رنز بنا کر پاکستانی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تاہم محمد حفیظ ایک بار پھر کرکٹ شائقین کو متاثر نہ کر سکے اور 17 رنز بنا کر چلتے بنے۔ میچ کے دوران اوپنر احسان علی کو بھی ڈبیو کرنے کا موقع ملا جنہوں نے 36 رنز بنا کر اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔احسان علی جارحانہ انداز میں کھیلنے کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں لیکن کپتان بابر اعظم کے جلد آؤٹ ہونے کے بعد جس طرح انہوں نے وکٹ پر زیادہ سے زیادہ رک کر بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ذہنی طور پر مضبوط ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر وہ ہر طرح کا کھیل بھی پیش کر سکتے ہیں۔

بگ بیش میں تہلکہ مچانے والے پیسر حارث رؤف گو میچ کے دوران صرف ایک وکٹ ہی حاصل کر سکے لیکن مقابلے کے دوران انہوں نے چند ایسی گیندیں بھی کیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین بولرز میں ہوگا۔

کہتے ہیں کہ غلطی کوئی کرتا ہے اور اس کا خمیازہ کسی اور کو بھگتنا پڑتا ہے، 2002ء میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی، مہمان ٹیم کراچی کے جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، اس کے قریب بم دھماکہ ہوا، پھر وہی ہوا جوکمزور ملکوں کے کمزور بورڈز کے ساتھ ہوتا ہے، نیوزی لینڈ نے اس واقعہ کو رائی کا پہاڑ بنا لیا اوردورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے واقعے کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پوری دنیا دہشت، وحشت اور خوف میں مبتلا تھی، گزرتے وقت کے ساتھ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی اپنی اصلی حالت میں پلٹ آئی لیکن غربت، مہنگائی ، بے روزگاری و دیگر مسائل کے مارے ملکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔


پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا، تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے ملکی گراؤنڈز انٹرنیشنل کرکٹ سے ویران ہی رہے، پی سی بی کی انتھک کوششوں سے 2008ء میں بنگلا دیش جبکہ اگلے برس سری لنکن ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے ایک بار پھر نو گو ایریا بن گیا۔ لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کی طرف سے حملے میں کپتان جے وردھنے سمیت8 کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا غم بھی سہنا پڑا۔

اگر قذافی سٹیڈیم کی تاریخی اہمیت کی بات کی جائے تو سٹیڈیم کی کہانی 1951-52 سے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر نے اس سٹیڈیم کی بنیاد رکھی، مینار پاکستان کی تعمیر کے خالق نصیرالدین مرأت نے سٹیڈیم کے منصوبے کو ڈیزائن کیا جبکہ اس کی تعمیر میاں عبدالخالق 1959ء میں مکمل کی، ابتدامیں اس سٹیڈیم کے کئی نام رکھے گئے، اولمپک سٹیڈیم، لاہور سٹیڈیم کے بعد نام کی تبدیلیوں کا سلسلہ قذافی سٹیڈیم تک آکر اختتام کو پہنچا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قذافی سٹیڈیم کا نام دیا۔اگلے برس اسلامی سربراہی کانفرنس کا میزبان لاہور بنا تو دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کا تاریخی استقبال کیا گیا، اس کانفرنس کے بعد سٹیڈیم میں جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں کرنل قذافی مہمان خصوصی تھے، ذوالفقار بھٹو اور کرنل قذافی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سٹیڈیم عوام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔

اس اہم اور خاص موقع پر خصوصی طور پر چاندی کا ماڈل اور نیا نقشہ بنوایا گیا تھا، جس پر عمل ہوتا تو موجودہ سٹیڈیم سے کہیں زیادہ گنجائش ہوتی، کیوریٹر حاجی بشیر نے یہ نقشہ اور ماڈل گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کو پیش کیا، انہوں نے اس وقت کے سپورٹس بورڈ پنجاب کے سربراہ فضل محمود کے حوالے کیا جہاں سے یہ ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا جنہوں نے یہ ماڈل کرنل قذافی کو پیش کیا۔

قذافی سٹیڈیم کا نام رکھنے کے بعد ناموں کی بار بار تبدیلی کا سلسلہ رک گیا لیکن اسے خوب سے خوب تر بنانے کا سلسلہ جاری رہا، ورلڈ کپ 1987ء اور عالمی کپ1996ء میں اس سٹیڈیم نے میزبانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ 1987ء کے ورلڈ کپ کو کامیاب بنانے میں بورڈ کے سربراہ جنرل صفدر بٹ اور سیکرٹری اعجاز بٹ کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1996ء کے عالمی کپ سے ایک سال پہلے ایک نئے سٹیڈیم کا منصوبہ بنایا گیا ، ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ شاہدرفیع سیکرٹری تھے۔اس مجوزہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے بہت زیادہ گنجائش رکھی گئی اور ساتھ کلب ہاؤس بھی بنانے کا فیصلہ ہوا لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔

اسی جگہ اب پنجاب سٹیڈیم تعمیر کیا گیا، پروجیکٹ شروع نہ ہو سکنے کی وجہ سے 1996ء ورلڈ کپ کے لیے پرانے قذافی سٹیڈیم ہی کی نیر علی دادا کی نگرانی میں تزئین و آرائش کی گئی، اس کے گرد 71 دکانیں بنائی گئیں جو لیز پر دے دی گئیں، سٹیڈیم کے اندر انکلوڑرز میں کرسیاں لگا دی گئیں جس کی وجہ سے اس میں تماشائیوں کی تعداد مزید کم ہو کر 25 ہزار تک رہ گئی، فلڈ لائٹس لگائی گئیں اور ان کی روشنیوں میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان مارچ 1996ء میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ فائنل نے خوب سماں باندھ دیا۔

ورلڈکپ2003ء میں شرکت کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو موسیقی کی رنگارنگ تقریب سجا کر الوداع کیا گیا، بعد ازاں اسی سٹیڈیم نے وہ ناخوشگوار منظر بھی دیکھا جب تماشائیوں نے گورنر پنجاب اور چیئرمین پی سی بی جنرل(ر) توقیر ضیاء کی موجودگی میں اسٹیڈیم کے جنگلے اکھاڑ ڈالے۔دنیا کے 3 بولرز کو اسی سٹیڈیم میں3 بار ہیٹ ٹرکس کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے پیٹرپیتھرک نے 9 اکتوبر 1976ء کو پاکستان کے خلاف3 گیندوں پر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ 6مارچ 1999ء کو وسیم اکرم نے سری لنکا کے خلاف یہ کارنامہ سرانجام دیا، محمد سمیع نے بھی آئی لینڈرز کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

جاوید میانداد نے1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آصف اقبال کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کی شراکت میں 281 رنز بنانے کا منفرد ریکارڈ بنایا، بعد ازاں گرین شرٹس نے 2002ء میں اسی گراؤنڈ میں کیویز کے خلاف ہی324 رنز اور ایک اننگز سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔سانحہ لبرٹی کی وجہ سے قذافی سٹیڈیم سمیت ملک بھر کے گراوؤنڈز سونے پڑ گئے تھے تاہم سری لنکن ٹیم کے بعد بنگال ٹائیگرز کی لاہور آمد سے عالمی مقابلوں کی یہ رونقیں دوبارہ بحال ہو گئی ہیں،22 مئی 2015ء کو 6 سال کے طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ جو شروع ہوا تھا، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

شائقین کرکٹ کا بڑی تعداد میں قذافی سٹیڈیم کا رخ کرنا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے کتنا پیار ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بنگال ٹائیگرز کے خلاف ٹوئنٹی 20 میچوں کی سیریز کا کامیاب انعقاد کسی ایک کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کامیابی ہے۔
Load Next Story