ڈیڑھ ماہ گزر گیا معروف لوک فنکار کے قتل کا معمہ حل نہ ہو سکا
غلام محمد عرف تبسم کو ان کے اپنے گھر کے مہمان خانے میں قتل کیا گیا
وطن عزیز میں ہر زبان کے معروف لوک فنکار اور گلوکار موجود ہیں، جنہیںاپنے علاقوں میں انتہائی پذیرائی حاصل ہے، بات اگر اپنے شہر یعنی کوئٹی کی جائے تو یہ ملک کا سرد ترین لیکن ملنسار اور مہمان نوازوں شہر ہے۔
بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے لوگ اس شہر میں اپنا نام کسی نہ کسی فن میں کمانے کے لئے ضرور آتے ہیں، جس میں کبھی کسی کے قدم کامیابی چوم لیتی ہے اور کوئی مایوسی کا شکار ہی رہتا ہے۔ اس شہر نے کئی نامور گلوکار وں اور فنکاروں کو پہچان دی، جنہوں نے صوبے کی مختلف روائتی زبانوں میںگانے گا کر خوب نام کمایا مگر معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی، منفی رجحانات کے باعث کوئی کسی کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور فن کے دلدادہ لوگ اپنے ارمان لئے ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ چکی شاہوانی میں ایک ایسا ہی لوک فنکار غلام محمد عرف تبسم بھی ایک گھر میں اپنے چار بیٹوں اور بیٹیوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھے، جن کی روزی روٹی ایک سرکاری محکمے میں بطور معاون کی نوکری اور یہ گلوکاری و فنکاری تھی۔
غلام محمد صوبے سمیت ملک بھر کی تقریباً 12زبانوں میں گائیگی کے فن دکھانے کے جوہر رکھتے تھے جو کہ مختلف نجی محفلوں اور شادی بیاہ کی خوشی کے مواقعوں پر گانے گا کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ غلام محمد عرف تبسم کو زیادہ تر لوگ تبسم کے نام سے ہی جانتے تھے جو کہ ان کا تخلص تھا، لیکن 48 سالہ غلام محمد کو اپنے ہی گھرکے مہمان خانے میں آنے والے ایک کم عمرمہمان نے قتل کر ڈالا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں نامعلوم قاتل کے خلاف ان کے بیٹے شاہ فہد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
لوک فنکار کے قتل سے پورے علاقہ میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے اور قاتل کی عدم گرفتاری پر ہر کوئی پولیس پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ اس حوالے سے مقتول کے بیٹے شاہ فہد نے بتایا کہ اس کے والد نے گھر کے ایک کمرے کو مہمان خانہ بنا رکھا تھا، جہاں وہ اکثر اپنے دوستوںعزیز واقارب کے آنے پر ان کے لئے محفل سجایا کرتے تھے بلکہ اکثر مہمان وہاں قیام بھی کر لیا کرتے تھے، انہیں مہمانوں میں 6 دسمبر 2019ء کی رات کو ایک لڑکا آیا، جو لب و لہجے سے سندھی بلوچی لگ رہا تھا مگر وہ گفتگو اردو میں کر رہا تھا۔
قتل کی رات انہوں نے اپنے اس دوست کے ہمراہ شام سے ہی موسیقی کی محفل سجائی اور کافی دیگر تک ونہی بیٹھے رہے، رات زیادہ بیتنے پر گلوکار کا بیٹا سونے کے لئے چلا گیا۔ مشکوک لڑکے کو مہمان نوازی کی وجہ سے کھانا پیش کیا گیا، جس کے بعد کافی دیر موسیقی کی محفل چلتی رہی، گھر کے اندر کافی دیر تک موسیقی کے آلات بجنے اور گانے کی آواز آتی رہی۔ گلوکار فنکار تبسم اپنے مہمان کو رات گئے تک کافی دیرگائیگی سے محضوظ کرتے رہے، جس کے بعد وہ رات گئے تک جاگنے کے بعد سو گئے، لیکن اگلی صبح دن 12بجے تک جب ان کے والد نہ اٹھے تو ان کے بیٹے شاہ فہداور دیگر نے مہمان خانے میں جا کر دیکھا تو مہمان خانے میں وہ مہمان موجود نہیں تھا، جس پر شاہ فہد کو تشویش ہوئی، کمرے میں تمام بستر ایک جگہ پر پڑے تھے، جنہیں شاہ فہد نے اٹھایا تو ان کے اس کے والد غلام محمد عرف تبسم کی خون میں لتھڑی نعش پڑی تھی، جسے سر پر کوئی ٹھوس چیز مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
شاہ فہد دوڑتا ہوا کہ گھر گیا اور شور مچا کر دیگر اہل خانہ کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ پھر گھر میں ایک کہرام مچ گیا، اہل خانہ نے تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں قتل کی اطلاع دی، جس پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تمام معاملے کا جائزہ لیا اور ان کے بیٹے شاہ فہد کی مدعیت میںایف آئی آر بھی نامعلوم لڑکے کے خلاف درج کر لی۔
مقتول کے بھتیجے محمد روف کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ ان کا چاچا ایک ملنسار شخص تھا اکثر اس کے پاس موسیقی کے دلداہ لوگ آکر مختلف زبانوں میںگانوں کی فر مائش کرتے تھے، وہ ہمیشہ کی طرح سے براہوی بلوچی سندھی پشتو اور پنجابی سرائیکی فارسی سمیت دیگر زبانوںمیںگانے گا کر انہیں محظوظ کرتے تھے، بھتیجے محمد روف نے مزید بتایا کہ چھ دسمبر سے قبل ایک رات وہ اپنے گھر میں بتا رہے تھے کہ چند روز قبل انہیں ایک موسیقی کے پروگرام میں کافی پذیرائی ملی، لوگ بار بار چٹ کے ذریعے انہیں گانوں کی فرمائشیں کر رہے تھے کہ انہیں چٹوں میں سے ایک چٹ پر انہیں جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی، جسے انہوں نے در گزر کیا اور وہ اپنے معمول کے مطابق گانے گاتے رہے۔ واردت کے بعد ملزم مقتول کے ہی کپڑے پہن کر اور اپنے خون آلود کپڑے ونہی چھوڑ کر فرار ہو گیا مگر ہم جانتے نہیں کہ وہ کون تھا اور پہلے وہ یہاں کبھی آیا بھی نہیں تھا۔
محمد رؤف کے مطابق واردات کے بعد مقتول معروف گلو کار غلام محمد عرف تبسم کو ان کے آبائی قبرستان ریلوے قبرستان میں دفن کر دیا گیا انہوں نے اس حوالے سے شک ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیںشبہ ہے کہ قاتل نے مقتول کو اکیلے قتل نہیں کیا، لگتا ایسے ہی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور لوگ بھی رات گئے آئے ہوں گے کیوں کہ مہمان خانے کا دروازہ گھر سے باہر کی جانب تھااور قاتل نے کسی اور کو بھی موقع پاتے ہی بلوا کر قتل کیا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس کیس کی کس طرح سے چھان بین کرتی ہے۔
دوسری جانب اس واردات کے حوالے سے تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے تفتیشی محمد ادریس جو کہ اس قتل کے معمے کو ایک چیلنج سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نے بتایا کہ انہیں اس کیس کے حوالے سے جب بتایا گیا تو انہوںنے اس کیس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا شروع کر دیا، تاہم قاتل تو واردات کی رات ہی کسی طر ح سے فرار ہو گیا تھا مگر ہم نے آلہ قتل سمیت دیگر شواہد جائے واقوعہ سے اکھٹے کر لئے اور آلہ قتل سمیت اس پر انگلیوں کے نشان کے سیمپل لے کر لاہور بجھوا دیئے گئے ہیں، ابھی تک اس کے سیمپل واپس نہیں آئے مگر ملزم کی تلاش کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، یہ قتل اپنی نوعیت کا مختلف کیس ہے، کیوں کہ قاتل کو کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا۔
گھر والوں نے مقتول کو ایک کمرے میں مہمان خانہ بنا کر دے رکھا تھا، جہاں وہ گائیکی کرتا تھا اب ابتدائی طورپر یہ ہی معلوم ہورہا ہے کہ نامعلوم قاتل رات آکر ونہی پر ٹھہرا ہے اور اس نے رات کو کسی وجہ سے موقع پاتے ہی غلام محمد تبسیم کو کسی ٹھوس چیز جسے مقامی زبان میں سٹول کہتے ہیں جو کہ کلہاڑی نما ہوتا ہے کے ذریعے قتل کیا اور خود رات کو ہی وہاں سے فرارہو گیا، گھر والوں کے مطابق قاتل مقتول تبسم کا موبائل بھی لے اڑا، جس کی مالیت تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
قاتل جائے وقوعہ سے فرار ہوا تو پیچھے کوئی سراغ نہیں چھوڑا لیکن اس کے فنگر پرنٹس حاصل کر لئے گئے ہیں، تمام پہلوؤں سے اس قتل کے محرکات کا جائزہ لیا جارہا ہے یہ کیس ہمارے لئے ایک چیلنج ہے جسے جلد ہی حل کر لیا جائے گا اور قاتل کو جلد دھر لیا جائے گا، کیوںکہ اس میں یہ معلوم نہی ہو پارہا کہ مقتول کے اس نامعلوم قاتل کے ساتھ کب سے روابط تھے اور وہ کب کب ان کے پاس آتا رہا ہے جبکہ مقتول کے بیٹے شاہ فہد اور بھتیجے محمد رؤف کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ مقتول کے پاس اکثر کئی لوگ اسی مہمان خانے میں گائیکی سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔
بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے لوگ اس شہر میں اپنا نام کسی نہ کسی فن میں کمانے کے لئے ضرور آتے ہیں، جس میں کبھی کسی کے قدم کامیابی چوم لیتی ہے اور کوئی مایوسی کا شکار ہی رہتا ہے۔ اس شہر نے کئی نامور گلوکار وں اور فنکاروں کو پہچان دی، جنہوں نے صوبے کی مختلف روائتی زبانوں میںگانے گا کر خوب نام کمایا مگر معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی، منفی رجحانات کے باعث کوئی کسی کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور فن کے دلدادہ لوگ اپنے ارمان لئے ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ چکی شاہوانی میں ایک ایسا ہی لوک فنکار غلام محمد عرف تبسم بھی ایک گھر میں اپنے چار بیٹوں اور بیٹیوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھے، جن کی روزی روٹی ایک سرکاری محکمے میں بطور معاون کی نوکری اور یہ گلوکاری و فنکاری تھی۔
غلام محمد صوبے سمیت ملک بھر کی تقریباً 12زبانوں میں گائیگی کے فن دکھانے کے جوہر رکھتے تھے جو کہ مختلف نجی محفلوں اور شادی بیاہ کی خوشی کے مواقعوں پر گانے گا کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ غلام محمد عرف تبسم کو زیادہ تر لوگ تبسم کے نام سے ہی جانتے تھے جو کہ ان کا تخلص تھا، لیکن 48 سالہ غلام محمد کو اپنے ہی گھرکے مہمان خانے میں آنے والے ایک کم عمرمہمان نے قتل کر ڈالا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں نامعلوم قاتل کے خلاف ان کے بیٹے شاہ فہد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
لوک فنکار کے قتل سے پورے علاقہ میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے اور قاتل کی عدم گرفتاری پر ہر کوئی پولیس پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ اس حوالے سے مقتول کے بیٹے شاہ فہد نے بتایا کہ اس کے والد نے گھر کے ایک کمرے کو مہمان خانہ بنا رکھا تھا، جہاں وہ اکثر اپنے دوستوںعزیز واقارب کے آنے پر ان کے لئے محفل سجایا کرتے تھے بلکہ اکثر مہمان وہاں قیام بھی کر لیا کرتے تھے، انہیں مہمانوں میں 6 دسمبر 2019ء کی رات کو ایک لڑکا آیا، جو لب و لہجے سے سندھی بلوچی لگ رہا تھا مگر وہ گفتگو اردو میں کر رہا تھا۔
قتل کی رات انہوں نے اپنے اس دوست کے ہمراہ شام سے ہی موسیقی کی محفل سجائی اور کافی دیگر تک ونہی بیٹھے رہے، رات زیادہ بیتنے پر گلوکار کا بیٹا سونے کے لئے چلا گیا۔ مشکوک لڑکے کو مہمان نوازی کی وجہ سے کھانا پیش کیا گیا، جس کے بعد کافی دیر موسیقی کی محفل چلتی رہی، گھر کے اندر کافی دیر تک موسیقی کے آلات بجنے اور گانے کی آواز آتی رہی۔ گلوکار فنکار تبسم اپنے مہمان کو رات گئے تک کافی دیرگائیگی سے محضوظ کرتے رہے، جس کے بعد وہ رات گئے تک جاگنے کے بعد سو گئے، لیکن اگلی صبح دن 12بجے تک جب ان کے والد نہ اٹھے تو ان کے بیٹے شاہ فہداور دیگر نے مہمان خانے میں جا کر دیکھا تو مہمان خانے میں وہ مہمان موجود نہیں تھا، جس پر شاہ فہد کو تشویش ہوئی، کمرے میں تمام بستر ایک جگہ پر پڑے تھے، جنہیں شاہ فہد نے اٹھایا تو ان کے اس کے والد غلام محمد عرف تبسم کی خون میں لتھڑی نعش پڑی تھی، جسے سر پر کوئی ٹھوس چیز مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
شاہ فہد دوڑتا ہوا کہ گھر گیا اور شور مچا کر دیگر اہل خانہ کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ پھر گھر میں ایک کہرام مچ گیا، اہل خانہ نے تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں قتل کی اطلاع دی، جس پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تمام معاملے کا جائزہ لیا اور ان کے بیٹے شاہ فہد کی مدعیت میںایف آئی آر بھی نامعلوم لڑکے کے خلاف درج کر لی۔
مقتول کے بھتیجے محمد روف کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ ان کا چاچا ایک ملنسار شخص تھا اکثر اس کے پاس موسیقی کے دلداہ لوگ آکر مختلف زبانوں میںگانوں کی فر مائش کرتے تھے، وہ ہمیشہ کی طرح سے براہوی بلوچی سندھی پشتو اور پنجابی سرائیکی فارسی سمیت دیگر زبانوںمیںگانے گا کر انہیں محظوظ کرتے تھے، بھتیجے محمد روف نے مزید بتایا کہ چھ دسمبر سے قبل ایک رات وہ اپنے گھر میں بتا رہے تھے کہ چند روز قبل انہیں ایک موسیقی کے پروگرام میں کافی پذیرائی ملی، لوگ بار بار چٹ کے ذریعے انہیں گانوں کی فرمائشیں کر رہے تھے کہ انہیں چٹوں میں سے ایک چٹ پر انہیں جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی، جسے انہوں نے در گزر کیا اور وہ اپنے معمول کے مطابق گانے گاتے رہے۔ واردت کے بعد ملزم مقتول کے ہی کپڑے پہن کر اور اپنے خون آلود کپڑے ونہی چھوڑ کر فرار ہو گیا مگر ہم جانتے نہیں کہ وہ کون تھا اور پہلے وہ یہاں کبھی آیا بھی نہیں تھا۔
محمد رؤف کے مطابق واردات کے بعد مقتول معروف گلو کار غلام محمد عرف تبسم کو ان کے آبائی قبرستان ریلوے قبرستان میں دفن کر دیا گیا انہوں نے اس حوالے سے شک ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیںشبہ ہے کہ قاتل نے مقتول کو اکیلے قتل نہیں کیا، لگتا ایسے ہی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور لوگ بھی رات گئے آئے ہوں گے کیوں کہ مہمان خانے کا دروازہ گھر سے باہر کی جانب تھااور قاتل نے کسی اور کو بھی موقع پاتے ہی بلوا کر قتل کیا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس کیس کی کس طرح سے چھان بین کرتی ہے۔
دوسری جانب اس واردات کے حوالے سے تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے تفتیشی محمد ادریس جو کہ اس قتل کے معمے کو ایک چیلنج سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نے بتایا کہ انہیں اس کیس کے حوالے سے جب بتایا گیا تو انہوںنے اس کیس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا شروع کر دیا، تاہم قاتل تو واردات کی رات ہی کسی طر ح سے فرار ہو گیا تھا مگر ہم نے آلہ قتل سمیت دیگر شواہد جائے واقوعہ سے اکھٹے کر لئے اور آلہ قتل سمیت اس پر انگلیوں کے نشان کے سیمپل لے کر لاہور بجھوا دیئے گئے ہیں، ابھی تک اس کے سیمپل واپس نہیں آئے مگر ملزم کی تلاش کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، یہ قتل اپنی نوعیت کا مختلف کیس ہے، کیوں کہ قاتل کو کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا۔
گھر والوں نے مقتول کو ایک کمرے میں مہمان خانہ بنا کر دے رکھا تھا، جہاں وہ گائیکی کرتا تھا اب ابتدائی طورپر یہ ہی معلوم ہورہا ہے کہ نامعلوم قاتل رات آکر ونہی پر ٹھہرا ہے اور اس نے رات کو کسی وجہ سے موقع پاتے ہی غلام محمد تبسیم کو کسی ٹھوس چیز جسے مقامی زبان میں سٹول کہتے ہیں جو کہ کلہاڑی نما ہوتا ہے کے ذریعے قتل کیا اور خود رات کو ہی وہاں سے فرارہو گیا، گھر والوں کے مطابق قاتل مقتول تبسم کا موبائل بھی لے اڑا، جس کی مالیت تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
قاتل جائے وقوعہ سے فرار ہوا تو پیچھے کوئی سراغ نہیں چھوڑا لیکن اس کے فنگر پرنٹس حاصل کر لئے گئے ہیں، تمام پہلوؤں سے اس قتل کے محرکات کا جائزہ لیا جارہا ہے یہ کیس ہمارے لئے ایک چیلنج ہے جسے جلد ہی حل کر لیا جائے گا اور قاتل کو جلد دھر لیا جائے گا، کیوںکہ اس میں یہ معلوم نہی ہو پارہا کہ مقتول کے اس نامعلوم قاتل کے ساتھ کب سے روابط تھے اور وہ کب کب ان کے پاس آتا رہا ہے جبکہ مقتول کے بیٹے شاہ فہد اور بھتیجے محمد رؤف کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ مقتول کے پاس اکثر کئی لوگ اسی مہمان خانے میں گائیکی سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔