لیڈی ریڈنگ اسپتال انتظامیہ نے مریضوں کیلئے بیڈز کی تعداد کم کردی

مریضوں کےلئے بیڈز کی تعداد کم ہونے کے بعد اب کئی مریض بیڈز نہ ملنے کے مسائل سے دوچار ہیں


شاہدہ پروین/ January 26, 2020
مریضوں کےلئے بیڈز کی تعداد کم ہونے کے بعد اب کئی مریض بیڈز نہ ملنے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ فوٹوفائل

لیڈی ریڈنگ اسپتال انتظامیہ نے نئے بننے والے میڈیکل اینڈ الائیڈ یونٹ میں منتقلی کے بعد شعبہ سرجیکل و پلمونالوجی سمیت کئی شعبہ جات میں مریضوں کےلئے بیڈز کی تعداد کم کردی۔

مریضوں کےلئے بیڈز کی تعداد کم ہونے کے بعد اب کئی مریض بیڈز نہ ملنے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں گزشتہ گیارہ سال سے زیر تعمیر میڈیکل اینڈ الائیڈ یونٹ کو بالآخر انتظامیہ نے مریضوں کےلئے باضابطہ کھول دیا ہے جس میں کئی وارڈوں کی منتقلی بھی جاری ہے۔

اس نئے اضافی بلاک کے حوالے سے بتایا جارہا تھا کہ تین ارب روپے سے زائد فنڈز سے تعمیر کئے جانے والے اس یونٹ سے اسپتال میں مریضوں کے لئے بیڈز کی تعداد 1600 سے بڑھ جائےگی، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب اس نئے اضافی بلاک میں کئی شعبہ جات کی منتقلی کے چکر میں مریضوں کےلئے بیڈز کی تعداد کو کم کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق شعبہ جنرل سرجری میں مریضوں کے لئے مجموعی بیڈز کی تعداد 180 تھی جس کو کم کرکے 120 کردیا گیا ہے اسی طرح شعبہ پلمونالوجی میں مجموعی طور پر 48 بیڈز تھے جوکہ اب منتقلی کے بعد کم کرکے 28 کردیئے گئے ہیں۔ شعبہ نیوروسرجری کے بھی مریضوں کے لئے مختص 67 بیڈز کو اب کم کرکے 42 کردیا گیا ہے۔

شعبہ گیسٹرو میں بیڈز کی تعداد 31 تھی جوکہ اب 26ہوگئی ہے۔ اسی طرح بعض شعبہ جات کے الگ آئی سی یوز کو بھی کو ختم کرکے ان کے بیڈز کو مین آئی سی یو میں شامل کردیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں اب پیڈس کارڈیک سرجری کے علاوہ آرتھوپیڈک وارڈ کی منتقلی کی جائےگی۔ جس کے بعد نئے آرتھوپیڈک وارڈ میں مریضوں کو 74 بیڈز کی بجائے 54 بیڈز دستیاب ہوں گے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ منصوبہ 30 جون 2018کو محکمہ صحت کی فائلوں میں مکمل ہوچکا ہے۔ تاہم اب بھی منصوبے کو مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔

اب اس حوالے سے مزید آلات کی خریداری کےلئے 400 ملین روپے کی لاگت کا پی سی ون حکومت کو بھجوایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں نئی انتظامی پالیسی کے تحت اب سوائے ڈیوٹی والے ڈاکٹروں اور داخل مریضوں کے لواحقین کے کوئی اس نئے یونٹ میں داخل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں