بلدیاتی انتخابات میں تاخیری حربے
میڈیا، عدلیہ اور بعض سیاسی جماعتوں کے مسلسل اصرار پر اگرچہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کرانے پر راضی ہوئیں لیکن...
میڈیا، عدلیہ اور بعض سیاسی جماعتوں کے مسلسل اصرار پر اگرچہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کرانے پر راضی ہوئیں لیکن موروثی سیاست دانوں نے بلدیاتی انتخابات سے بچنے کے لیے طرح طرح کی بہانے بازیاں شروع کردی ہیں۔ چونکہ اہم سرکاری ادارے اور بیورو کریسی ان کے کنٹرول میں ہے، لہٰذا بیورو کریسی کے مشوروں پر ایسے حیران کن بہانے تراشے جارہے ہیں جنھیں نہ عوام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں نہ میڈیا۔ اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کا کردار انتہائی مثبت ہے اور عدلیہ سیاست کاروں کی ہر سازش، ہر بہانے کو رد کرکے مقررہ وقت پر انتخابات کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض ایسی سیاسی جماعتیں جو بلدیاتی انتخابات کو اپنے منشور کا حصہ بتا رہی تھیں وہ بھی ان سازشوں کا شکار ہوکر بلدیاتی انتخابات سے گریزاں ہیں۔ اس حوالے سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ تمام بڑی جماعتوں نے عدلیہ کی مقرر کردہ تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی مخالفت کی ہے۔ اس مشترکہ مخالفت میں بہانہ یہ تراشا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات منصفانہ ہونے کی امید نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی جمہوری تاریخ میں ہونے والے کسی انتخابات کو منصفانہ مانا گیا ہے؟ اسی سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو یہ سیاسی جماعتیں دھاندلی اور ناانصافی پر مبنی قرار دے رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وڈیرہ شاہی جمہوریت میں ہونے والے کوئی بھی انتخابات منصفانہ نہیں ہوسکتے، لیکن ان انتخابات میں حصہ لینے کو یہ سیاسی مدبر چونکہ حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھتے ہیں اسی لیے ان نامنصفانہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیتی رہی ہیں اور اقتدار میں آکر اور اپوزیشن میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔ چونکہ پارلیمانی انتخابات میں ان کی طاقت اختیارات اور لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں آئی لہٰذا بے شمار بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کے باوجود یہ انتخابات انھیں قبول ہیں۔ چونکہ بلدیاتی انتخابات سے ان طبقات کی لوٹ مار اور اختیارات میں کمی آتی ہے لہٰذا یہ انتخابات انھیں غیر منصفانہ لگتے ہیں اور اس غیر منصفانہ انتخابات کے خلاف یہ حضرات متحد ہوکر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور عدلیہ پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کررہی ہے۔ یہ الزام اس لیے شرمناک ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانا اور اسے منصفانہ بنانا سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے، چونکہ سیاسی جماعتیں یہ ذمے داری پوری نہیں کررہی ہیں لہٰذا عدلیہ کو اپنے دائرہ کار سے باہر آنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ یہ اقدام عدلیہ کی زیادتی نہیں بلکہ اہل سیاست کی سیاسی بددیانتی کو روکنے کی کوشش ہے۔
ہماری جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جمہوریت کا راگ ملہار تو الاپتے رہتی ہے لیکن جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام سے ہمیشہ اس لیے خوفزدہ رہتی ہے کہ بلدیاتی نظام موروثی نظام کی جڑیں کاٹ دیتا ہے اور ہمارے سیاسی اہلکار کسی قیمت پر موروثی سیاست اور موروثی حق حکمرانی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی جمہوری حکمران نے ملک کی 36 سالہ جمہوریت میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی نہیں کی، اس کے برخلاف وہ فوجی ڈکٹیٹر جنھیں اہل سیاست جمہوریت دشمن کہتے ہیں انھوں نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کرانے اور آخری فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ر) مشرف نے تو ایسا بلدیاتی نظام متعارف کرایا جو ہمارے جمہوری بادشاہوں کے امتیازات اور لوٹ مار میں آہنی دیوار بنا ہوا ہے۔
2008 میں برسر اقتدارآنے والی جمہوری جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ہم نے کبھی بلدیاتی انتخابات کرانا تو دور کی بات بلدیاتی انتخابات کا نام لیتے ہوئے بھی نہیں سنا۔ ان جمہوری رہنمائوں نے البتہ یہ کوشش ضرور کی کہ بلدیاتی نظام کی جگہ کمشنری نظام لایا جائے۔ کمشنری نظام کو لانے کا فائدہ یہ ہے کہ وڈیرہ شاہی جمہوریت کے وڈیروں کے اختیارات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا اور لوٹ مار میں کمشنری نظام کوئی رکاوٹ نہ بن سکا۔ کیونکہ سیاسی وڈیروں کے لیے کمشنری نظام سوٹ کرتا ہے اس لیے ہمارے سیاسی وڈیروں نے جن میں صنعتی اشرافیہ پیش پیش ہے، اپنے صوبے میں کمشنری نظام کو نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے، اب ان کی کوشش بھی کہ کمشنری نظام کو غیر جماعتی بلدیاتی نظام نافذ کرکے عوام کو آگے آنے سے روکا جائے لیکن عدلیہ نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جماعتی بنیادوں پر سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اور دہرے نظام تعلیم کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو ہم نے ان اعلانات کی بھرپور حمایت اس شرط کے ساتھ کی کہ یہ اعلانات اعلانات ہی نہ رہیں بلکہ ان پر بلا تاخیر عملدرآمد ہو، کیونکہ یہ دونوں کام ملک کے 66 سالہ استحصالی سیٹ اپ کو توڑنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ خان صاحب بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگئے اور دہرے نظام تعلیم کو ختم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہ کرسکے۔ بلدیاتی انتخابات سے گریز کی اصل وجہ یہ نظر آتی ہے کہ پختونخوا میں قتل وغارت گری میں اضافہ ہوا اور اس صوبے کے عوام کی بھلائی کا کوئی کام نہ ہوسکا ۔ جس کی وجہ سے اس صوبے کے عوام کی عمران خان سے وابستہ امیدیں مایوسی میں بدل رہی ہیں۔ خان صاحب کو ڈر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کہیں ان کی مقبولیت کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں۔ دہرے نظام تعلیم کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نظر آرہی ہے کہ وہ جن معماروں کی مدد سے نئے پاکستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ان کا تعلق پتھر کے دور سے ہے اور وہ تعلیم اور اسکولوں کے دشمن ہیں اور اب تک سیکڑوں اسکولوں کو بموں سے اڑاچکے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان کو اپنے دہرے نظریات سے باہر آنا پڑے گا کیونکہ نئے پاکستان کی تعمیر پتھر کے دور کے معماروں سے ممکن نہیں۔
بلوچستان میں بھی امن و امان کا مسئلہ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، بلوچستان جن مسائل کا شکار ہے ان مسائل سے نجات میں بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام موثر کردار ادا کرسکتا ہے لیکن ہمارے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے سرداری نظام کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ ان کی دوسری مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کی اتحادی ہے اور مسلم لیگ ن کی سیاست ڈاکٹر مالک کی سیاست سے میل نہیں کھاتی۔ یوں بلدیاتی انتخابات کا مسئلہ بلوچستان میں لٹک کر رہ گیا ہے۔
پنجاب میں میاں برادران کمشنری نظام کے نفاذ میں ناکام ہونے کے بعد اپنی ساکھ بچانے کے لیے غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاری کررہے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ان کی منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اہل سیاست بلدیاتی نظام سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ بلدیاتی نظام سے ان کے اختیارات اور لوٹ مار کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے، دوسرے یہ کہ خاندانی سیاست خاندانی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کیونکہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نر سری کہلائے جاتے ہیں جب ان نرسریوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی قیادت تیار ہونے لگے گی تو موروثی قیادت کو جگہ خالی کرنا پڑے گی اور یہ تبدیلی مر کر ہی اقتدار اور سیاست پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے خواہاں سیاست دانوں کو کیسے گوارا ہوسکتی ہے۔ پنجاب میں لیپ ٹاپ، انوکھی بس سروس وغیرہ کے ذریعے جو مقبولیت حاصل کی گئی ہے جماعتی بنیاد پر کرائے جانے والے الیکشن میں اس کا بھانڈا پھوٹنے کا خطرہ ہے، ان خطرات سے بچنے کے لیے جو کھیل کھیلے جارہے تھے انھیں عدلیہ نے روک دیا ہے جس پر حکمران سخت ناراض ہیں۔
سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ متحدہ، پیپلزپارٹی کی حلقہ بندیوں اور نئے اضلاع کی تشکیل سے ناراض ہے اور اس ناراضگی کا اظہار انھوں نے ان سیاسی وڈیروں کے ساتھ بیٹھ کر کیا جو بلدیاتی انتخابات کو اپنی موروثی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کو سیاست دان اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اس ملک میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت کو ابھارنے کا ذریعہ بنائیں تو عوام اس سیاست کا خیر مقدم کریںگے اگر طبقاتی مفادات کی خاطر بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام اہل قلم اور میڈیا اس کی بھرپور مخالفت کریںگے، سیاست دانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بلدیاتی نظام مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔ اس پس منظر میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر قوم کے اجتماعی مفادات سے غداری کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے؟