پر اجے قیامت نئیں آؤندی

یہ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ بیویاں کرائے کے قاتلوں یا اپنے آشناؤں کے ساتھ سازبازکرکے اپنے بچوں کے باپ کوقتل کروادیتی ہیں۔

چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں جنھیں کچھ بھی نہیں پتا کہ کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، ان تین، چار، پانچ، چھ سال کی بچیوں کو بس اتنا پتا ہے'' ابو گڑیا لانا، دادا! ٹافی دو ، امی! بسکٹ دو، میں کارٹون دیکھوں گی'' بس یہی ان ننھی گڑیوں کی باتیں ہیں۔ روٹھ جانا پھر من جانا۔ کیا لکھوں ! کیسے لکھوں ، ہاتھوں میں کپکپاہٹ ویسے ہی ہے۔ یہ باتیں لکھتے ہوئے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور بڑھ گئی ہے۔ پورا وجود کانپ رہا ہے۔

یہ کیسا وقت آگیا ہے ، کچھ سجھائی نہیں دے رہا ، دنیا بھرکے کام جاری وساری ہیں، سڑکوں پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، سب کچھ رواں دواں ہے، مگر یہ ننھی پریاں! ان پر یہ کیسی قیامت ہے، جو گزرگئی؟ اس سوال کا جواب کون دے گا، کس سے جواب مانگوں۔ مہنگائی ہے،آٹا نہیں مل رہا، چینی اور مہنگی ہوگئی، دولت کے نشے میں دھت ، وحشی، شوقیہ، انسانوں کا شکار کر رہے ہیں، اسٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں، موبائل فون ، پرس چھینے جا رہے ہیں، موٹرسائیکلیں چھینی جا رہی ہیں، گھروں میں ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔

یہ سارے نقصانات برداشت کیے جاسکتے ہیں مگر اپنی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو کیسے برداشت کیا جائے! اور یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ میرا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے میں لکھ نہیں پا رہا، مگر مجھے یہ سب لکھنا ہے۔ پوچھو ان ماں باپ سے جن جن پر یہ بیتی ہے، انھیں نیند کہاں آتی ہوگی، انھیں بھوک کہاں لگتی ہوگی، رہ رہ کر معصوم بچی یاد آتی ہوگی۔

یہ درندے انھیں کیا کہا جائے، یہ وحشی صرف اس سزا کے حق دار ہیں کہ انھیں سرعام پھانسی دی جائے اور تین دن تک لاش کو لٹکا رہنے دیا جائے، خدا کرے کہ ان درندوں کی لاش ان کے گھر والے بھی وصول نہ کریں اور ان کے ناپاک وجود کو قبر بھی قبول نہ کرے اور پتا نہیں ان کا کریا کرم کیسے ہو۔

قوم لوط والا مکروہ کام آج بھی جاری ہے۔ کئی ممالک میں یہ کام جائز قرار دیا گیا ہے، مگر ہمارے ملک پاکستان میں یہ کام چھوٹے چھوٹے لڑکوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کی ویڈیو بنائی جاتی ہے جو امیر ملکوں میں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔ ان معصوم کم عمر لڑکوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ سنا ہے یہ دنیا کے مال دار ممالک میں موجود طاقتور مافیا کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا، مگر مافیا کے زور کے آگے نہ ٹھہر سکا۔ اس مکروہ غیر انسانی دھندے کے پیچھے جنسی تسکین کے عوض پیسے کا حصول ہے۔ غریب رکشے والا، یا ایسے ہی غربت کے ماروں کو دولت والے زیادتی اور ویڈیو کے عوض معاوضہ دیتے ہیں اور یہ ویڈیوز بیرون ممالک کو بھیجی جاتی ہیں۔

پاکستان قرضوں تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی ہے۔ لوگ مانگ تانگ کر گزارا کر رہے ہیں، حالات سے تنگ، خودکشیاں کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے گھر میں دو دو ، تین تین دنوں کی فریج میں پڑی روٹیاں گرم کرکے کھانا شروع کردی ہیں، اور یہ کام ایک دو ماہ سے جاری ہے۔ مگر میں 73 سال کا بغیر پتے کا بوڑھا، عین تندرست ہوں اور کھانا دیر میں سہی ہضم ہو رہا ہے۔ یہ بات لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم لوئر مڈل یا مڈل کلاس کے لوگ ''حالات'' کے تحت رزق کا احترام کریں، اور تازہ روٹی کا نخرہ چھوڑ دیں۔ صوفیا اور اللہ کے نیک بندوں اور سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی عمل تھا کہ جو مہیا ہوتا اسی پر صبر شکر کے ساتھ گزارا کرتے۔

ہمارے گھروں میں حتیٰ کہ عام غریب کے گھروں میں اب فریج ہوتے ہیں۔ میں اور میری بیوی ہم دونوں ابھی چھ ماہ پہلے اپنی بیٹی کے گھر کینیڈا کے دارالخلافہ اوٹاوا میں دو ماہ رہ کر آئے ہیں۔ وہاں کا تو رہن سہن ہی یہی ہے کہ کئی دنوں تک روٹیاں، پراٹھے، ڈبل روٹی اور مختلف سالن فریج سے نکال کر گرم کرکے کھائے جاتے ہیں۔ پورے یورپ میں بھی یہی رواج ہے۔ ہمارے ملک پر مشکل آن پڑی ہے تو ہمیں بھی توے سے اترتی گرم روٹی اور روز کا پکا سالن والے نخرے چھوڑ دینا چاہئیں۔

یہ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ بیویاں کرائے کے قاتلوں یا اپنے آشناؤں کے ساتھ ساز باز کرکے اپنے بچوں کے باپ کو قتل کروا دیتی ہیں اور یہ کرتے ہوئے انھیں ہوش نہیں رہتا کہ پکڑے جائیں گے تو کیا ہوگا؟ یہ شوہر مارنے والا کام غریب سے امیر تک ہر طبقے میں ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے جنسی تسکین ہی آج کے انسان کا سب سے اول اور آخری مسئلہ رہ گیا ہے! جہاں ساتھ رہتے عورت مرد بطور میاں بیوی اعتبار، اعتماد کھو بیٹھیں، وہاں کیا جینا اور کیا مرنا ! یہ کام عورت مرد دونوں کرتے ہیں۔ آج کا انسان بہت سی گمبھیرتاؤں کا شکار ہے۔ آج کا انسان اپنی اصلیت کو بھول بیٹھا ہے کہ وہ ایک ہی آدم کی اولاد ہے۔ نامعلوم وہ کون سا مذہب ہے، کون سا عقیدہ ہے کہ جو یہ کہتا ہو کہ غیر مذہب کو مار دو، اور اگر کوئی ایسا مذہب یا عقیدہ ہے تو آج کے انسان کو یہ سوچنا ہوگا کہ انسان کو کیسے بچایا جائے۔ انسان کو ماننے والا، امن کا پرچارک، سارے جہان کا محبتی شاعر حبیب جالب کہتا ہے:

امن کا پرچم لے کر اٹھو، ہر انساں سے پیار کرو

اپنا تو منشور ہے جالب، سارے جہاں سے پیار کرو

مگر کہاں! جالب جیسے دیوانے تو ہر دور میں رہیں گے، مگر ان کی آواز پرکس نے کان دھرا؟ اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں فرانس اور جرمنی کے لاکھوں انسان جنگوں میں مارے گئے، قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ اٹھارہویں صدی سے پہلے بھی تھا اور آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان میں مودی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ظلم و ستم کی نئی داستانیں لکھ رہا ہے۔ وقت تو اچھا یا برا گزر ہی جاتا ہے۔ بس داستانیں رہ جاتی ہیں۔

چلو ہندوستان سے جنگ ،کشمیرکی آزادی یہ بھی ہوتا رہے گا، جو ہونا ہے، جو لکھا ہے، ہوجائے گا، مگر یہ جو انسان پر آئے دن قیامتیں گزر رہی ہیں ان قیامتوں کو روکا جائے۔ سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور معصوم بچوں سے جنسی درندگی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ جن گھروں میں معصوم بچے بچیاں ہیں وہ ان قیامتوں پر لرز کر رہ جاتے ہیں۔ منو بھائی کی نظم کا یہ مصرعہ ہے '' پر اجے قیامت نئیں آؤندی'' اسی پر چند لائنیں لکھ رہا ہوں جو کچھ میرے وطن پر گزری اور گزر رہی ہے:

بھیناں دے ڈوپٹے قاتلاں دے


پیراں وچ رُل کھل جاندے نیں

بھیناں دے اتھرو، منتاں ترلے

کسے وی کم جد نئیں آؤندے

بھراواں دے سینے گولیاں نال

جدوں چھلنی ہو ہو جاندے نیں

اے دھرتی کنب کنب جاندی اے

اسمان وی تکدا رہندا اے

پر اجے قیامت نئیں آؤندی

ننھی کلیاں، گڈیاں، بال کھلونے

ٹافیاں کھٹیاں مٹھیاں' رنگ برنگے غبارے

گوٹا لگے فراک پجامے

سب خاک خون ہو جاندے نیں

پر اجے قیامت نئیں آؤندی

خورے قیامت کد آئے گی؟
Load Next Story