ہتک عزت قوانین کو موثر بنانے کی ضرورت
پاکستان میں ہتک عزت کے سخت قوانین موجود ہیں۔ لیکن نظام عدل میں تاریخ پرتاریخ کے کلچر نے ان قوانین کی اہمیت کم کردی ہے۔
پاکستان میں اس وقت آزادی اظہاررائے کے حوالے سے ایک بحث موجود ہے۔ ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے سوشل میڈیا کے جن کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ حکومت اس حوالے سے نئی قانون سازی کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب محض خدشات ہوں اور ایسا کچھ بھی نہ ہونے جا رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا ہونے جا رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت خود ہی ایسی خبریں لیک کر کے چیک کر رہی ہو کہ ایسا کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی سوشل میڈیا سے تنگ ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو صرف سوشل میڈیا سے ہی تحفظات ہیں۔ ابھی وزیر اعظم نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ ملک میں کوئی بحران نہیں ہے۔ اس لیے وہ اخبارات نہ پڑھیں اور ٹی وی ٹاک شوز نہ دیکھیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا میں نہیں ہے بلکہ مین اسٹریم میڈیا سے بھی ہیں۔ ویسے تو عمران خان کا دور حکومت ابھی تک میڈیا کے لیے ایک مشکل دور ثابت ہو رہا ہے۔
صحافیوں کی بیروزگاری نے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں تنخواہیں کم ہوئی ہیں۔ اداروں کی بقا پر سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ ورنہ دو سال پہلے تک تو حالات بالکل ٹھیک تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں کوئی غلطی ہی نہیں ہے۔ لیکن شاید حکومت کا انداز اور حکمت عملی بھی درست نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند صحافی اور اینکر دوست میڈیا کی بدنامی کا باعث بھی بنے ہیں۔ ایسے دوست آگے آگئے ہیں جن کو شارٹ کٹ کی لت لگ گئی ہے۔ وہ ہر جگہ شارٹ کٹ ہی لگا رہے ہیں۔
آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ حکومت اور دیگر قومی اداروں کو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی خاص قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں میڈیا آزاد ہے۔ لیکن وہاں ہتک عزت کے قوانین کو ہی موثر بنایا گیا ہے۔ اور یہی ایک قانون میڈیا سمیت دیگر معاملات میں جھوٹ اور دیگر ساری برائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اور موثر ثابت ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ قانون موجود ہونے کے باوجود اتنا موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں ہتک عزت کے سخت قوانین موجود ہیں۔ لیکن نظام عدل میں تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے ان قوانین کی اہمیت کم کر دی ہے۔ آج بھی جب کسی پرغلط الزام لگایا جائے اور کسی کی ساکھ متاثر ہو تو ہتک عزت کے قوانین کے تحت نوٹس ہی اس کی بحالی کا واحد آپشن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نے جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے حالانکہ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین باقی ممالک سے سخت ہیں۔ مہذب ممالک میں ان مقدمات کو دیوانی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن پاکستان میں ہتک عزت کے فوجداری قوانین بھی موجود ہیں۔ جن کے تحت اگر استغاثہ دائر کیا جائے تو سات سال تک قید کی سزا بھی موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک کسی کو یہ سزا نہیں ہو سکی ہے۔
آج ماڈل کورٹس بنائی جا رہی ہیں۔ جہاں مقدمات کے فیصلے دنوں اور ہفتوں میں ممکن بنائے جا رہے ہیں۔ ویسے تو ہتک عزت کے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا فیصلہ نوے دن میں ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ مقدمات کئی کئی سال تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جھوٹ کی رسی دراز ہو جاتی ہے۔ اس لیے میری چیف جسٹس پاکستان اور حکومت سے اپیل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کے بجائے ہتک عزت کے قوانین کو موثر بنانے پر غور کریں۔ ان مقدمات کو ماڈل کورٹس میں چلانے اور ان کے جلد از جلد فیصلوں کو ممکن بنانے پر غور کیا جائے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ چیف جسٹس پاکستان اپنی ماتحت عدلیہ کو حکم دیں کہ پاکستان بھر میں مختلف عدالتوں میں ہتک عزت کے جتنے بھی مقدمات زیر سماعت ہیں ان کے نوے دن میں فیصلوں کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ ان میں تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کیا جائے۔ ان کی روزانہ سماعت شروع کی جائے تا کہ سچ کا بول بالا ہو سکے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ اگر ہتک عزت کے ایک بھی مقدمہ کا موثر فیصلہ سامنے آ جائے تو جھوٹ کا کاروبار کرنے والے بھاگ جائیں گے، سزا کے خوف سے یہ اپنی دکانیں خود ہی بند کر دیں گے۔
آجکل پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں ویسے بھی اتفاق رائے کا موسم چل رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اتفاق رائے کا یہ موسم جعلی ہے۔ لیکن جعلی ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی ہے۔ آپ اس کو جعلی حقیقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں جو قوتیں اس جعلی حقیقت کو ممکن بنا رہی ہیں۔ ان سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ بھی اس اتفاق رائے کو متنازعہ معاملات میں استعمال کرنے کے بجائے مثبت استعمال کریں۔
ہتک عزت قوانین کو موثر بنانے کے لیے اگر قانون سازی کی جائے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ابھی سوشل میڈیا کو سائبر کرائمز کے قوانین سے جس طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں۔ اگر سائبر کرائمز کے بجائے ہتک عزت کے قوانین نافذ کیے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت میری گزارشات پر نہ صرف غور کرے گی بلکہ ان کو سمجھنے کی بھی کوشش کرے گی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی سوشل میڈیا سے تنگ ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو صرف سوشل میڈیا سے ہی تحفظات ہیں۔ ابھی وزیر اعظم نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ ملک میں کوئی بحران نہیں ہے۔ اس لیے وہ اخبارات نہ پڑھیں اور ٹی وی ٹاک شوز نہ دیکھیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا میں نہیں ہے بلکہ مین اسٹریم میڈیا سے بھی ہیں۔ ویسے تو عمران خان کا دور حکومت ابھی تک میڈیا کے لیے ایک مشکل دور ثابت ہو رہا ہے۔
صحافیوں کی بیروزگاری نے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں تنخواہیں کم ہوئی ہیں۔ اداروں کی بقا پر سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ ورنہ دو سال پہلے تک تو حالات بالکل ٹھیک تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں کوئی غلطی ہی نہیں ہے۔ لیکن شاید حکومت کا انداز اور حکمت عملی بھی درست نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند صحافی اور اینکر دوست میڈیا کی بدنامی کا باعث بھی بنے ہیں۔ ایسے دوست آگے آگئے ہیں جن کو شارٹ کٹ کی لت لگ گئی ہے۔ وہ ہر جگہ شارٹ کٹ ہی لگا رہے ہیں۔
آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ حکومت اور دیگر قومی اداروں کو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی خاص قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں میڈیا آزاد ہے۔ لیکن وہاں ہتک عزت کے قوانین کو ہی موثر بنایا گیا ہے۔ اور یہی ایک قانون میڈیا سمیت دیگر معاملات میں جھوٹ اور دیگر ساری برائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اور موثر ثابت ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ قانون موجود ہونے کے باوجود اتنا موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں ہتک عزت کے سخت قوانین موجود ہیں۔ لیکن نظام عدل میں تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے ان قوانین کی اہمیت کم کر دی ہے۔ آج بھی جب کسی پرغلط الزام لگایا جائے اور کسی کی ساکھ متاثر ہو تو ہتک عزت کے قوانین کے تحت نوٹس ہی اس کی بحالی کا واحد آپشن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نے جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے حالانکہ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین باقی ممالک سے سخت ہیں۔ مہذب ممالک میں ان مقدمات کو دیوانی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن پاکستان میں ہتک عزت کے فوجداری قوانین بھی موجود ہیں۔ جن کے تحت اگر استغاثہ دائر کیا جائے تو سات سال تک قید کی سزا بھی موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک کسی کو یہ سزا نہیں ہو سکی ہے۔
آج ماڈل کورٹس بنائی جا رہی ہیں۔ جہاں مقدمات کے فیصلے دنوں اور ہفتوں میں ممکن بنائے جا رہے ہیں۔ ویسے تو ہتک عزت کے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا فیصلہ نوے دن میں ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ مقدمات کئی کئی سال تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جھوٹ کی رسی دراز ہو جاتی ہے۔ اس لیے میری چیف جسٹس پاکستان اور حکومت سے اپیل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کے بجائے ہتک عزت کے قوانین کو موثر بنانے پر غور کریں۔ ان مقدمات کو ماڈل کورٹس میں چلانے اور ان کے جلد از جلد فیصلوں کو ممکن بنانے پر غور کیا جائے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ چیف جسٹس پاکستان اپنی ماتحت عدلیہ کو حکم دیں کہ پاکستان بھر میں مختلف عدالتوں میں ہتک عزت کے جتنے بھی مقدمات زیر سماعت ہیں ان کے نوے دن میں فیصلوں کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ ان میں تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کیا جائے۔ ان کی روزانہ سماعت شروع کی جائے تا کہ سچ کا بول بالا ہو سکے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ اگر ہتک عزت کے ایک بھی مقدمہ کا موثر فیصلہ سامنے آ جائے تو جھوٹ کا کاروبار کرنے والے بھاگ جائیں گے، سزا کے خوف سے یہ اپنی دکانیں خود ہی بند کر دیں گے۔
آجکل پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں ویسے بھی اتفاق رائے کا موسم چل رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اتفاق رائے کا یہ موسم جعلی ہے۔ لیکن جعلی ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی ہے۔ آپ اس کو جعلی حقیقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں جو قوتیں اس جعلی حقیقت کو ممکن بنا رہی ہیں۔ ان سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ بھی اس اتفاق رائے کو متنازعہ معاملات میں استعمال کرنے کے بجائے مثبت استعمال کریں۔
ہتک عزت قوانین کو موثر بنانے کے لیے اگر قانون سازی کی جائے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ابھی سوشل میڈیا کو سائبر کرائمز کے قوانین سے جس طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں۔ اگر سائبر کرائمز کے بجائے ہتک عزت کے قوانین نافذ کیے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت میری گزارشات پر نہ صرف غور کرے گی بلکہ ان کو سمجھنے کی بھی کوشش کرے گی۔