نجی تعاون
بھارت نے جب سے کشمیر پر نئی یلغار کی ہے، پورا ترکی حرکت میں ہے۔
ڈیووس اِن دنوں خبروں کا مرکز ہے، اطلاعات کے اِس ہجوم میں ایک خبرنے خیال کے دریچے کھول دیے۔ خبر یہ ہے کہ ڈیووس کا دورہ کرنے والے لیڈروں میں عمران خان ہمیشہ نمایاں رہیں گے کیونکہ جتنے کم خرچ میں یہ دورہ ہوا، اس کی مثال ماضی میں ملتی ہے ، نہ آیندہ کبھی ملے گی۔ راز اِس بچت کا یہ ہے کہ اس دورے کے اخراجات اکرام سہگل اور محمد عمران نے برداشت کیے۔
اکرام سہگل صاحب، ان کی سیاسی فکر اور شخصیت کو ہم برس ہا برس سے جانتے ہیں، وہ قومی زندگی کے مختلف گوشوں میں خاموشی کے ساتھ اہم کردار ادا کرنے والے اہم اور موثر شخص ہیں۔ محمد عمران کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، یقینا وہ بھی کوئی اہم شخصیت ہی ہوں گے لیکن ایک مہنگے سرکاری دورے کے اخراجات حکومت برداشت نہ کرے، کچھ نجی شخصیات برداشت کریں، اس پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں جس پر سوچنا فیصلہ سازوں کا کام ہے یا پھر اہل فکر کا لیکن جیسے چراغ سے چراغ جلتا ہے، ایسے ہی اس واقعے کی لو سے ایک چراغ اور جل اٹھا ہے جس کی خبر مجھے ہمیشہ خوشی کی خبر دینے والے دیار یعنی ترکی سے ملی۔
ہم دنیا کے مختلف گوشوں میں جاتے ہیں، کسی پُر شوق اور باذوق سیاح کی طرح اُس کے گلی کوچوں میں بھٹکتے ہیں، اُس کے زمین و آسمان کو دیکھتے ہیں، دو گھڑی رک کر کسی سے بات کرتے ہیں اور کسی اجنبی کی طرح وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں پھر اِس آوارہ خرامی کی یاد سے آپ کا نہاں خانۂ دل مشک بار ہو یا نہ ہو، اس کا تعلق اُس سلوک سے ہے جو دیار غیر میں آپ کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ترکی دنیا کا واحد گوشہ ہے جس کے آثار و احوال کی خوشبو آپ ہمیشہ اپنے دل میں بسا کر لوٹتے ہیں اور تا عمر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ترکی میں ہمیں ننھیال دودھیال کی سی محبت کیوں ملتی ہے؟ یہ کچھ ایسا راز بھی نہیں کہ اس کے پسِ پشت ہمارے دوراندیش بزرگوں کی دانائی بھی کارفرما ہے اور ہمارے اہل سفارت کی محنت اور ہنر مندی بھی۔ مجھے دو سفیروں یعنی مخدومی سہیل محمود صاحب (موجودہ سیکریٹری خارجہ پاکستان) اور موجودہ سفیر جناب سائرس سجاد قاضی کی کارکردگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملاہے ۔ یہ لوگ جس جذبے اور تن دہی سے کام کرتے ہیں، اس کی مثال شاید ہی ملے، ہمارے پریس اتاشی عبدالاکبر جس روانی سے اپنے گاؤں میں پشتو بولتے ہیں، ویسی ہی روانی ان کی ترکی میں ہے۔
انھوں نے تعلقات عامہ کی سرگرمی کو اپنی دلداری سے ایسی تخلیقی جہت دی ہے کہ اسے تادیر یاد رکھا جائے گا، کاش ،ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہو پاتیں۔ استنبول سے بلال پاشا اور سلیم نیازی کے جوش و جذبے کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔ ترکی میں پاکستان کے نمایندوں کی اس کارکردگی کا نتیجہ ہمیشہ خوش گورا رہا، تازہ مثال کشمیر کا حالیہ بحران ہے جس سے دنیا منہ موڑ لیا لیکن اِس دیس نے ہمیںامید، محبت اور اطمینان کی خبر دی لیکن حال ہی میں ایک واقعہ ایسا ہوا ہے جو دونوں بھائیوں سے احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
بھارت نے جب سے کشمیر پر نئی یلغار کی ہے، پورا ترکی حرکت میں ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب اس ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں کشمیر پر کوئی کانفرنس نہ ہو رہی ہو، اخبارات میں خصوصی اشاعتیں اور ایڈیشن شایع نہ ہو رہے ہوں، ٹیلی ویژن سے پروگرام نشر نہ ہو رہے ہوں، جامعات میں نئی نسل کو اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ نہ کیا جا رہا ہو، یوں ، مسئلہ کشمیر گویا پاکستان ہی کی طرح اہل ترکی کا بھی مسئلہ نمبر ایک بن گیا ہے۔ ان سرگرمیوں میں ہمارے پیارے ڈاکٹر خلیل طوقار بھی زمین کا گز بنے ہوئے ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے اپنی علمی، ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کو بھول کر کشمیر کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ایسی کیفیت میں راوی کو چین ہی لکھنا چاہیے لیکن حال ہی میں انقرہ میں ترک وزارت خارجہ کے زیر اہتمام اس موضوع پر کانفرنس میں کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جس کی وجہ سے خود ترک قیادت پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔
گزشتہ ماہ ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر اور اہل کشمیر کے ساتھ ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ اس کانفرنس میں کچھ ایسی شخصیات اور تھنک ٹینک بھی سامنے آئے جن کا انداز فکر خلیجی ملکوں کے اُن لوگوں کی طرح سے تھا جو بھارت اور کشمیر کے معاملے کو اصولی سطح پر دیکھنے کے بجائے اقتصادی اور تجارتی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ گو یہ لوگ اس کانفرنس میں کوئی بار نہ پا سکے لیکن پریشانی اس بات کی ہونی چاہیے کہ ترکی میں یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ کوئی پاکستان اور بھارت کے معاملے میں دوستی اور محبت پر ہاتھ کی میل یعنی دولت کو ترجیح دینے لگے؟
پاکستان کے لیے ارض ِمحبت کا درجہ رکھنے والے ترکی میں بھارت کو پاؤں ٹکانے کی جگہ کیا صرف بھارتی سفارت کاروں کی محنت سے ملی؟ ہرگز نہیں ۔ انقرہ میں تو حال یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک کو اپنا سفارت خانہ بنانے کے لیے بھی قائد اعظمؒ جادہ سی (یعنی شاہراہ قائداعظمؒ) کے سوا کہیں اور جگہ نہیں ملتی، وہاں سفارت کار ایسا کمال کیسے دکھا سکتے ہیں؟ مطلب یہ کہ ترکی اس ملک میں سفارتکاری کا جھنڈا اٹھا کر پاؤں ٹکانے میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ ثقافت کے ڈھونگ نے اسے یہ آسانی فراہم کی ہے۔
استنبول کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے اگر آنکھیں کھلی ہوں تو بعض مقامات پر ہندو یوگیوں کے آشرم ملتے ہیں جو یوگا کی آڑ میں واردات کرتے ہیں۔ ان یوگیوں اور ان کے چیلوں نے اب اپنے پر پرزے اتنے نکال لیے ہیں کہ موسم بہار میں وہاں ہولی بھی منائی جانے لگی ہے جب کہ بھارتی ماہرین معیشت، تاجروں اور دانش وروں کو اپنے اپنے دائروں میں اثرات پیدا کرنے کے لیے اپنی حکومت کی طرف سے تعاون بھی فراہم کیا جاتاہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی کوئی نمایندگی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس معاملے میں ہم پریشاں ہوں یا نہ ہوں، ترک کافی پریشان ہیں۔
پاکستان کو اس باب میں کیا کرنا چاہیے؟ اس معاملے پر ہمارے ہاں شاید کسی بھی سطح پر غور نہیں کیا گیا، اگر ایسا ہوتا تو ہمارے جیسے لوگوں کو بھی کچھ خبر ہوتی۔ اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود ان سطور کے لکھنے والے کے بھی ترکی میں ادبی، ثقافتی، صحافتی اور علمی و تعلیمی حلقوں کے ساتھ برسوں پرانے قریبی تعلقات ہیں لیکن ایسی کوئی سرگرمی آج تک اس کے علم میں آ سکی اور نہ کسی نے یہ کہا کہ آپ اپنی دوستیوں سے کام لیں اور بھارتی سرگرمیوں کا توڑ کریں۔
اہلِ درد ایسے معاملات میں اپنی سی ضرور کرتے ہیں لیکن اس طرح کے کاموں کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بھارت نے مستقل مزاج سے کام لیتے ہوئے غیر سفارتی طریقے سے وہاں جگہ بنائی۔ اس معاملے میں ترک حساس ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر خلیل طوقار نے لاہور میں ترک تہذیبی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جس سے تہذیبی سطح پر یہاں سرگرمی پیدا ہو گئی۔ اسی طرح تعلیمی سرگرمیوں کے لیے پاکستان میں '' صلاح الدین باتور (ahttin Batur) کی قیادت میں ''معارف'' (Maarif Foundation) اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے TIKA محمت ایمرے آکٹونا (Mehmet Emere Aktoa) کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں ۔
خود ترک سفیر Ehsan Mustafa Yordacol بھی تہذیبی نوعیت کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں لیکن ہماری طرف سے ترکی میں تہذیبی سطح پر نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے، حد تو یہ ہے کہ ترکی (اور دیگر ملکوں کی جامعات میں بھی) جو پاکستان چیئرز قائم ہیں، عرصہ ٔدراز سے ان میں سے بھی بیشتر اب تک خالی پڑی ہیں اور جن پانچ پر تعیناتی کی خبر آئی ہے، وفاقی محتسب ان کی شفافیت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ اس خلا میں بھارت کو کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس کی طرف سے ترکی میں ہی نہیں دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اسی طرح تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں اثرات بڑھا کر سیاسی سطح پر فوائد سمیٹنے شروع کر دیے گئے ہیں جس کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔
اس غیر روایتی سفارت کاری کو یوگا جیسے تہذیبی مراکز ہی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ڈیووس جیسے مقامات پر اخراجات میں کمی کے لیے نجی تعاون کا حصول اپنی جگہ، ہمیں غیر روایتی سفارت کاری کے فروغ کے لیے نجی تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔
اکرام سہگل صاحب، ان کی سیاسی فکر اور شخصیت کو ہم برس ہا برس سے جانتے ہیں، وہ قومی زندگی کے مختلف گوشوں میں خاموشی کے ساتھ اہم کردار ادا کرنے والے اہم اور موثر شخص ہیں۔ محمد عمران کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، یقینا وہ بھی کوئی اہم شخصیت ہی ہوں گے لیکن ایک مہنگے سرکاری دورے کے اخراجات حکومت برداشت نہ کرے، کچھ نجی شخصیات برداشت کریں، اس پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں جس پر سوچنا فیصلہ سازوں کا کام ہے یا پھر اہل فکر کا لیکن جیسے چراغ سے چراغ جلتا ہے، ایسے ہی اس واقعے کی لو سے ایک چراغ اور جل اٹھا ہے جس کی خبر مجھے ہمیشہ خوشی کی خبر دینے والے دیار یعنی ترکی سے ملی۔
ہم دنیا کے مختلف گوشوں میں جاتے ہیں، کسی پُر شوق اور باذوق سیاح کی طرح اُس کے گلی کوچوں میں بھٹکتے ہیں، اُس کے زمین و آسمان کو دیکھتے ہیں، دو گھڑی رک کر کسی سے بات کرتے ہیں اور کسی اجنبی کی طرح وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں پھر اِس آوارہ خرامی کی یاد سے آپ کا نہاں خانۂ دل مشک بار ہو یا نہ ہو، اس کا تعلق اُس سلوک سے ہے جو دیار غیر میں آپ کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ترکی دنیا کا واحد گوشہ ہے جس کے آثار و احوال کی خوشبو آپ ہمیشہ اپنے دل میں بسا کر لوٹتے ہیں اور تا عمر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ترکی میں ہمیں ننھیال دودھیال کی سی محبت کیوں ملتی ہے؟ یہ کچھ ایسا راز بھی نہیں کہ اس کے پسِ پشت ہمارے دوراندیش بزرگوں کی دانائی بھی کارفرما ہے اور ہمارے اہل سفارت کی محنت اور ہنر مندی بھی۔ مجھے دو سفیروں یعنی مخدومی سہیل محمود صاحب (موجودہ سیکریٹری خارجہ پاکستان) اور موجودہ سفیر جناب سائرس سجاد قاضی کی کارکردگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملاہے ۔ یہ لوگ جس جذبے اور تن دہی سے کام کرتے ہیں، اس کی مثال شاید ہی ملے، ہمارے پریس اتاشی عبدالاکبر جس روانی سے اپنے گاؤں میں پشتو بولتے ہیں، ویسی ہی روانی ان کی ترکی میں ہے۔
انھوں نے تعلقات عامہ کی سرگرمی کو اپنی دلداری سے ایسی تخلیقی جہت دی ہے کہ اسے تادیر یاد رکھا جائے گا، کاش ،ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہو پاتیں۔ استنبول سے بلال پاشا اور سلیم نیازی کے جوش و جذبے کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔ ترکی میں پاکستان کے نمایندوں کی اس کارکردگی کا نتیجہ ہمیشہ خوش گورا رہا، تازہ مثال کشمیر کا حالیہ بحران ہے جس سے دنیا منہ موڑ لیا لیکن اِس دیس نے ہمیںامید، محبت اور اطمینان کی خبر دی لیکن حال ہی میں ایک واقعہ ایسا ہوا ہے جو دونوں بھائیوں سے احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
بھارت نے جب سے کشمیر پر نئی یلغار کی ہے، پورا ترکی حرکت میں ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب اس ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں کشمیر پر کوئی کانفرنس نہ ہو رہی ہو، اخبارات میں خصوصی اشاعتیں اور ایڈیشن شایع نہ ہو رہے ہوں، ٹیلی ویژن سے پروگرام نشر نہ ہو رہے ہوں، جامعات میں نئی نسل کو اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ نہ کیا جا رہا ہو، یوں ، مسئلہ کشمیر گویا پاکستان ہی کی طرح اہل ترکی کا بھی مسئلہ نمبر ایک بن گیا ہے۔ ان سرگرمیوں میں ہمارے پیارے ڈاکٹر خلیل طوقار بھی زمین کا گز بنے ہوئے ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے اپنی علمی، ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کو بھول کر کشمیر کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ایسی کیفیت میں راوی کو چین ہی لکھنا چاہیے لیکن حال ہی میں انقرہ میں ترک وزارت خارجہ کے زیر اہتمام اس موضوع پر کانفرنس میں کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جس کی وجہ سے خود ترک قیادت پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔
گزشتہ ماہ ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر اور اہل کشمیر کے ساتھ ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ اس کانفرنس میں کچھ ایسی شخصیات اور تھنک ٹینک بھی سامنے آئے جن کا انداز فکر خلیجی ملکوں کے اُن لوگوں کی طرح سے تھا جو بھارت اور کشمیر کے معاملے کو اصولی سطح پر دیکھنے کے بجائے اقتصادی اور تجارتی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ گو یہ لوگ اس کانفرنس میں کوئی بار نہ پا سکے لیکن پریشانی اس بات کی ہونی چاہیے کہ ترکی میں یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ کوئی پاکستان اور بھارت کے معاملے میں دوستی اور محبت پر ہاتھ کی میل یعنی دولت کو ترجیح دینے لگے؟
پاکستان کے لیے ارض ِمحبت کا درجہ رکھنے والے ترکی میں بھارت کو پاؤں ٹکانے کی جگہ کیا صرف بھارتی سفارت کاروں کی محنت سے ملی؟ ہرگز نہیں ۔ انقرہ میں تو حال یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک کو اپنا سفارت خانہ بنانے کے لیے بھی قائد اعظمؒ جادہ سی (یعنی شاہراہ قائداعظمؒ) کے سوا کہیں اور جگہ نہیں ملتی، وہاں سفارت کار ایسا کمال کیسے دکھا سکتے ہیں؟ مطلب یہ کہ ترکی اس ملک میں سفارتکاری کا جھنڈا اٹھا کر پاؤں ٹکانے میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ ثقافت کے ڈھونگ نے اسے یہ آسانی فراہم کی ہے۔
استنبول کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے اگر آنکھیں کھلی ہوں تو بعض مقامات پر ہندو یوگیوں کے آشرم ملتے ہیں جو یوگا کی آڑ میں واردات کرتے ہیں۔ ان یوگیوں اور ان کے چیلوں نے اب اپنے پر پرزے اتنے نکال لیے ہیں کہ موسم بہار میں وہاں ہولی بھی منائی جانے لگی ہے جب کہ بھارتی ماہرین معیشت، تاجروں اور دانش وروں کو اپنے اپنے دائروں میں اثرات پیدا کرنے کے لیے اپنی حکومت کی طرف سے تعاون بھی فراہم کیا جاتاہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی کوئی نمایندگی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس معاملے میں ہم پریشاں ہوں یا نہ ہوں، ترک کافی پریشان ہیں۔
پاکستان کو اس باب میں کیا کرنا چاہیے؟ اس معاملے پر ہمارے ہاں شاید کسی بھی سطح پر غور نہیں کیا گیا، اگر ایسا ہوتا تو ہمارے جیسے لوگوں کو بھی کچھ خبر ہوتی۔ اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود ان سطور کے لکھنے والے کے بھی ترکی میں ادبی، ثقافتی، صحافتی اور علمی و تعلیمی حلقوں کے ساتھ برسوں پرانے قریبی تعلقات ہیں لیکن ایسی کوئی سرگرمی آج تک اس کے علم میں آ سکی اور نہ کسی نے یہ کہا کہ آپ اپنی دوستیوں سے کام لیں اور بھارتی سرگرمیوں کا توڑ کریں۔
اہلِ درد ایسے معاملات میں اپنی سی ضرور کرتے ہیں لیکن اس طرح کے کاموں کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بھارت نے مستقل مزاج سے کام لیتے ہوئے غیر سفارتی طریقے سے وہاں جگہ بنائی۔ اس معاملے میں ترک حساس ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر خلیل طوقار نے لاہور میں ترک تہذیبی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جس سے تہذیبی سطح پر یہاں سرگرمی پیدا ہو گئی۔ اسی طرح تعلیمی سرگرمیوں کے لیے پاکستان میں '' صلاح الدین باتور (ahttin Batur) کی قیادت میں ''معارف'' (Maarif Foundation) اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے TIKA محمت ایمرے آکٹونا (Mehmet Emere Aktoa) کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں ۔
خود ترک سفیر Ehsan Mustafa Yordacol بھی تہذیبی نوعیت کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں لیکن ہماری طرف سے ترکی میں تہذیبی سطح پر نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے، حد تو یہ ہے کہ ترکی (اور دیگر ملکوں کی جامعات میں بھی) جو پاکستان چیئرز قائم ہیں، عرصہ ٔدراز سے ان میں سے بھی بیشتر اب تک خالی پڑی ہیں اور جن پانچ پر تعیناتی کی خبر آئی ہے، وفاقی محتسب ان کی شفافیت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ اس خلا میں بھارت کو کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس کی طرف سے ترکی میں ہی نہیں دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اسی طرح تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں اثرات بڑھا کر سیاسی سطح پر فوائد سمیٹنے شروع کر دیے گئے ہیں جس کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔
اس غیر روایتی سفارت کاری کو یوگا جیسے تہذیبی مراکز ہی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ڈیووس جیسے مقامات پر اخراجات میں کمی کے لیے نجی تعاون کا حصول اپنی جگہ، ہمیں غیر روایتی سفارت کاری کے فروغ کے لیے نجی تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔