ہمارے حکمران ایسا فیصلہ کرسکتے ہیں
اپنے معصوم شہریوں کو دہشت گردوں و قاتلوں سے محفوظ رکھنے، ملک میں قیام امن، سرحدوں کے تحفظ اور سیکیورٹی فورسز کو...
اپنے معصوم شہریوں کو دہشت گردوں و قاتلوں سے محفوظ رکھنے، ملک میں قیام امن، سرحدوں کے تحفظ اور سیکیورٹی فورسز کو خود کش حملہ آوروں سے بچانے کے لیے کیا حکومت پاکستان ایرانی حکومت کے نقش قدم پر چل سکتی ہے؟ کیا پاکستان دہشت گردوں کا ٹیٹوا دبانے کے لیے ایران ایسی جرأت و استقامت دکھا سکتا ہے؟ یہ ایک سادہ سا سوال ہے لیکن اس کا جواب مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمت درکار ہے۔
26 اکتوبر 2013 ء کی صبح ایرانی حکومت نے زاہدان کی جیل میں سولہ مجرموں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا کر ان کے سرپرستوں اور سرغنوں کو ایک سخت پیغام بھیجا ہے کہ ایران میں ان کی بدمعاشی چلے گی نہ ایران میں مغربی ممالک کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو رہنے اور پنپنے دیا جائے گا۔ ایران نے ملک میں قیام امن اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ان دہشت گردوں کو اس برق رفتاری سے پھانسیاں دی ہیں کہ دنیا حیران رہ گئی ہے۔ ہمارا پیارا اور محسن ملک چین بھی غداروں، دہشت گردوں اور قانون سے متصادم ہونے والوں کو اسی طرح تیزی کے ساتھ سنگین سزائیں دیتا رہتا ہے، بصورت دیگر دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا یہ ملک (جس کے تعاقب میں امریکا اور بھارت لگے ہوئے ہیں) انارکی اور خانہ جنگی کا شکار ہو کر کب کا بربادی کے سمندر میں غرقاب ہو چکا ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ نظری انقلاب اور نظریاتی ممالک کو بدروحوں سے بچانے کے لیے آنکھیں، کان اور دل ہر وقت بیدار رکھنا پڑتے ہیں۔ چین گذشتہ 64 سال سے اور ایران پچھلے 34 سال سے اسی چوکسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم 66 برس میں یہ کردار ادا نہ کر سکے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے نظریاتی دشمنوں نے ہمارا مشرقی بازو کاٹ ڈالا اور اب وہی ہماری مغربی سرحدوں کے پہاڑوں میں چھپ کر ہماری پشت خونم خوں بھی کر رہے ہیں اور انھی عناصر نے ہمارے کوچہ و بازار میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ملک بھر میں بدامنی کی جو آگ جل رہی ہے، یہ بھی ہماری انھی غفلتوں کا نتیجہ ہے، چنانچہ نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے سب سے پہلے ہمیں ''اپنا گھر'' درست کرنا ہو گا، تو ان کے الفاظ اتنے بے جا بھی نہیں لگتے۔
ایران اور چین تو کسی بڑے بگاڑ کے پیدا ہونے سے قبل ہی اپنے اپنے گھروں کی مسلسل ''صفائی'' میں لگے رہتے ہیں لیکن افسوس ہم ایسا نہیں کر سکے۔ محض لفظوں کی جگالی کیے جا رہے ہیں؛ چنانچہ نتیجہ بھی ویسا ہی برآمد ہو رہا ہے۔
ملک دشمنوں، دہشت گردوں، اسمگلروں، خود کش حملہ آوروں اور غیر ملکی جاسوسوں کے خلاف ایران بہت تیزی کے ساتھ بروئے کار آتا ہے (پاکستان کی مانند نہیں کہ خطرناک بھارتی جاسوسوں کو گلے میں ہار ڈال کر عزت و اکرام سے رہا بھی کرتا ہے اور عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتا) 26 اکتوبر 2013ء کو ایران نے جن سولہ مجرموں کو پھانسیاں دی ہیں، اس نے ثابت کیا ہے کہ اگر ملک کی سلامتی اور اپنے عوام کی حفاظت درکار ہے تو مجرموں کو سزائیں بھی فوری دینا ہوں گی اور دل پر پتھر کی سلیں رکھ کر فیصلے بھی سخت کرنا ہوں گے۔ ابھی ایک ہفتہ ہی قبل ایرانی انقلاب کے دشمنوں، عالمی اسمگلروں اور دہشت گردوں نے پاک ایران سرحد پر سیستان کے پہاڑوں میں چودہ ایرانی محافظوں کو بیدردی سے قتل کر دیا۔ قاتل تین ایرانی محافظوں کو اغواء کر کے اپنے ساتھ بھی لے گئے۔ ایران کو جلد معلوم ہو گیا کہ قاتل گروہ کون ہے؛ چنانچہ ایرانی حکومت نے، رد عمل کے طور پر، زاہدان کی جیل میں قید قاتل گروہ کے سولہ قیدی مجرم ساتھیوں کو پھانسی دے کر اعلان کیا: ''یہ پیغام ہے ریاست کے ان باغیوں کو جنہوں نے رات کی تاریکی میں ہمارے سیکیورٹی فورسز کے افراد پر قاتلانہ حملہ کیا اور چودہ مار ڈالے۔ ایسا قطعی نہیں ہو سکتا کہ ریاست کے باغیوں اور دہشت گردوں کو سخت جواب نہ دیا جائے۔'' اس سلسلے میں ایران کے نائب وزیر داخلہ اور سیستان کے اٹارنی جنرل نے جس عزم کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابل تقلید بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔
کیا پاکستان اس ایرانی عمل اور فیصلے کی تقلید کر سکتا ہے؟ کیا ہم سب نہیں جانتے کہ ہمارے ہاں کن کن شدت پسند گروہوں کے وابستگان نے سرحد پر کھڑے ہمارے سیکیورٹی فورسز کے ان گنت افراد کو اغواء کر کے بے دردی سے ان کے گلے بھی کاٹے، انھیں اجتماعی طور پر شہید بھی کیا اور رات کی تاریکیوں میں انھوں نے لاتعداد مرتبہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر شب خون مار کر بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھی قیدیوں کو سزائیں دینا ہمارے حکمرانوں کے بس کی بات نہ رہی۔ بلکہ ہماری وہ جیلیں ہی ٹوٹ گئیں جہاں سزا یافتہ دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کے مجرم ساتھی قیدی رکھے گئے تھے۔
گذشتہ تین عشروں کے دوران پاک ایران سرحد پر ایرانی سیکیورٹی فورسز کے چار ہزار جوان اور افسر شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں لیکن ایران کا بھی جہاں بس چلتا ہے، وہ مجرموں اور ان کے سرپرستوں کو سخت سزائیں دینے میں تاخیر نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں شدت پسند گروہ مساجد، بازاروں اور سرکاری دفاتر میں خود کش حملے بھی کرواتے ہیں، خود بھی بارود پھینکتے ہیں اور خون کی ندیاں بہا کر ''جرأت و بہادری'' سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ ایران میں بھی گذشتہ چار پانچ برسوں میں ایسا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ''جنداللہ'' گروپ نے ایران کی ایک مسجد میں بموں اور خود کش حملہ آوروں سے کارروائی کرتے ہوئے 39 نمازی قتل کر دیے۔ اس کی ذمے داری بھی انھوں نے قبول کر لی۔ ایرانی حکومت فوری طور پر حرکت میں آئی۔ جند اللہ کے چودہ افراد گرفتار کیے۔ مقدمات کے بعد ان سب کو سرِبازار پھانسیاں دے دی گئیں۔ پھانسی پانے والوں میں ''جنداللہ'' تنظیم کے سربراہ کا بھائی بھی شامل تھا جو ''ریگی برادران'' کے نام سے معروف تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے عقب میں امریکا تھا جو اس تنظیم اور اس کے وابستگان کو فنڈز بھی فراہم کرتا تھا اور اسلحہ بھی۔ بعد ازاں ''جنداللہ'' کے اصل رہنما عبدالمالک ریگی کو ایرانی فضائیہ نے جس طرح فضا ہی میں (دبئی سے کرغستان جاتے ہوئے) گرفتار کیا، یہ بھی ایک ایسی شاندار مثال ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ایران دہشت گردوں اور ریاست کے باغیوں کو ہر گز معاف نہیں کرتا۔ ایران کی جرأت مندانہ قیادت کے انھی فیصلوں کا کمال ہے کہ اب ''جنداللہ'' کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ عبدالغفور ریگی، عبدالحمید ریگی اور عبدالمالک ریگی سب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح 2010ء میں ایرانی شہر''شا بہار'' میں دہشت گردوں کو جس طرح سزائیں دی گئیں، اس نے ایران میں قیام امن کی کوششوں کی بہت ہمت افزائی کی۔ اگرچہ بعض اطراف سے اسے ایک ''مسلکی جنگ'' کا نام بھی دیا گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایران نے پوری طاقت سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے وطن عزیز میں قیام امن کی خاطر معلوم اور سزا یافتہ دہشت گردوں سے کیا سلوک کیا ہے؟ یہ دہشت گرد جنہوں نے ہمارے پچپن ہزار معصوم شہریوں کو گذشتہ دس برسوں میں تہ تیغ کر ڈالا ہے۔ ان میں سے بعض کو یقینا عدالتوں کی طرف سے سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں سے چند ایک پھانسی پر چڑھائے جانے والے تھے کہ فریق مخالف کی طرف سے دھمکی آئی: ''خبردار، ہمارے ساتھیوں کو یہ سزا دی تو۔ عمل درآمد ہوا تو تم میں سے دو تین بڑے تو ہم شکار کریں گے ہی۔'' سب طرف خاموشی چھا گئی۔ حکمران سناٹے میں آ گئے۔ چنانچہ پھانسیاں رک گئیں اور ساتھ ہی ہمارا سارا ریاستی دبدبہ و رعب بھی خاک میں مل گیا۔ قاتلوں کی پھانسیاں رکنے سے ان پچپن ہزار مقتولین کے وارثوں کے دلوں میں کیا گزری ہے جو شدت پسندوں کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں کر دیے گئے، ذرا ان کے دلوں پر دستک دے کر تو دیکھیے۔