برآمدات بڑھانے کیلیے آئی سی ٹی سروسز پر توجہ کی ضرورت
سرکاری سطح پر کوئی سپورٹ نہ ہونے کے باوجود ICT سروسز کی برآمدات بڑھ رہی ہیں
ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ ہمارے معاشی مسائل کی ایک وجہ برآمدات پر عدم توجہی ہے۔ بیشتر صورتوں میں اس کی وجہ ملکی پیداواری سرگرمیوں( مینوفیکچرنگ) کو اس امید پر تحفظ دینے کی کوششیں ہیں کہ ایک رو زملکی پیداوار بیرونی دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے کرکٹر صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیلیں اور امید رکھیں کہ ایک روز وہ غیرملکی ٹیموں کو شکست دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ بہت سے لوگ اب بھی اسی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں۔
وقت اب بہت بدل چکا ہے۔ اشیاء کی تیاری کچھ ممالک بالخصوص چین کی شناخت بن چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں مقامی سطح پر اشیاء سازی کا محرک لیبر کا سستا ہونا تھا تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب اہمیت ہنرمند افرادی وسائل، قدرتی وسائل، ٹرانسپورٹ انفرا اسٹرکچر اور صارفین سے نزدیک تر ہونے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل ویلیوچین اب اشیا سازی سے خدمات کی طرف آرہی ہیں۔
بیشتر ممالک دورحاضر میں انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ( آئی سی ٹی ) پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں مگر پاکستان میں آئی سی ٹی کی مینوفیکچرنگ کم قیمت اور کم معیاری پرسنل کمپیوٹرز، موبائل فون وغیرہ کی اسمبلنگ سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ ویتنام اور فلپائن جیسے کامیاب ممالک نے آئی سی ٹی ڈیوائسز پر تمام ٹیکس ختم کردیے اور گلوبل ویلیو چین کا حصہ بننے کے لیے جدوجہد کی۔ پاکستان میں کوئی سپورٹ نہ ملنے کے باوجود آئی سی ٹی کی خدمات کا حجم وسیع ہورہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سال 2018-19 کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ کے مطابق دو سال میں آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات 16 فیصد اضافے سے 1088 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ رواں مالی سال کی ابتدائی ششماہی ( جولائی تا دسمبر) کی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات میں 4.5فیصد اضافہ ہوا۔
بیشتر ممالک میں کم قیمت آئی سی ٹی آلات کی دستیابی سے انٹرنیٹ تک رسائی بڑھی جس کے نتیجے میں ڈیجیٹیل اکانومی کی نمو ہوئی اور آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات بڑھتی چلی گئیں۔ پاکستان میں یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کوم نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد اس ضمن میں تجاویز تیار کی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی کوم سے متعلق تین اہم تجاویز میں: فائبرائزیشن، زیادہ اسپکٹرم کی ریلیز، اور آئی سی ٹی پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہیں۔
وقت اب بہت بدل چکا ہے۔ اشیاء کی تیاری کچھ ممالک بالخصوص چین کی شناخت بن چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں مقامی سطح پر اشیاء سازی کا محرک لیبر کا سستا ہونا تھا تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب اہمیت ہنرمند افرادی وسائل، قدرتی وسائل، ٹرانسپورٹ انفرا اسٹرکچر اور صارفین سے نزدیک تر ہونے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل ویلیوچین اب اشیا سازی سے خدمات کی طرف آرہی ہیں۔
بیشتر ممالک دورحاضر میں انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ( آئی سی ٹی ) پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں مگر پاکستان میں آئی سی ٹی کی مینوفیکچرنگ کم قیمت اور کم معیاری پرسنل کمپیوٹرز، موبائل فون وغیرہ کی اسمبلنگ سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ ویتنام اور فلپائن جیسے کامیاب ممالک نے آئی سی ٹی ڈیوائسز پر تمام ٹیکس ختم کردیے اور گلوبل ویلیو چین کا حصہ بننے کے لیے جدوجہد کی۔ پاکستان میں کوئی سپورٹ نہ ملنے کے باوجود آئی سی ٹی کی خدمات کا حجم وسیع ہورہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سال 2018-19 کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ کے مطابق دو سال میں آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات 16 فیصد اضافے سے 1088 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ رواں مالی سال کی ابتدائی ششماہی ( جولائی تا دسمبر) کی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات میں 4.5فیصد اضافہ ہوا۔
بیشتر ممالک میں کم قیمت آئی سی ٹی آلات کی دستیابی سے انٹرنیٹ تک رسائی بڑھی جس کے نتیجے میں ڈیجیٹیل اکانومی کی نمو ہوئی اور آئی سی ٹی سروسز کی برآمدات بڑھتی چلی گئیں۔ پاکستان میں یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کوم نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد اس ضمن میں تجاویز تیار کی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی کوم سے متعلق تین اہم تجاویز میں: فائبرائزیشن، زیادہ اسپکٹرم کی ریلیز، اور آئی سی ٹی پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہیں۔