تاریخی اہمیت کی حامل مسجد خداباد کی بحالی سست روی کا شکار
مسجد کے گرد واقع قلعہ ٹھیکیدار نے تباہ کردیا، بحالی کا کام 20 برس سے جاری ہے،جلد دورہ کروں گا، ،سیکریٹری محکمہ آثار
پاکستان میں تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کی بحالی اور ان کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ذمے داری ہے کیونکہ غیر محتاط انداز میں اگر ان تاریخی عمارات کی بحالی کا کام سرانجام دیا جائے تو اس سے عمارت کے اصل خدوخال اور خصوصیات متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے جیسا کہ ہم نے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی بحالی کے معاملے میں دیکھا۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک اور مثال ہمیں ایک ایسی تاریخی عمارت کی بحالی میں غیر محتاط اور بے پروا رویے کی نظر آتی ہے کہ جو تین سو برس پرانی اور ضلع دادو سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کا نام مسجد خداباد ہے اور اسے 1718 میں یار محمد کلہوڑو نے تعمیر کرایا تھا۔
اس مسجد کی بحالی اور تجدید کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے تاہم ماہرین ورثہ کا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ مزدوروں اور غیر تکنیکی ماہرین کی وجہ سے مسجد کی بحالی کا کام غیر معیاری انداز میں ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ تاریخی تقریبا اپنی اصل ہییت اور شکل کھوچکا ہے۔
ماہر تعلیم اور فن تعمیرات سے وابستہ ڈاکٹر فتح داؤپوتو کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب اس مسجد کے اردگرد ایک شاندار قلعہ نما عمارت تھی جسے ناتجربہ کار ٹھیکیداروں نے تباہ کردیا کیونکہ انہوں نے اس مسجد کی بحالی کے لیے جو مٹی استعمال کی اسے قلعے کی بنیادوں سے لیا گیا جس کی وجہ سے قلعہ برباد ہوگیا۔ڈاکٹر داؤدپوتو کا کہنا تھا کہ کلچر، سیاحت اور محکمہ آثار تکنیکی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ تاریخی عمارات کی بحالی کا کام کرسکیں۔
یہ محکمے عام طور پر ترتیب دیے گئے پلان سے ہٹ کر اور بجٹ سے بڑھ کر کام کرتھے ہیں اور ان محکموں سے وابستہ اکثر ملازمین، افسران اور ماہرین نہ تو تاریخ کے ماہر ہیں نہ ہی دیگر فنون سے کوئی دلچسپی رکھتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بحالی کے کام کا کنٹریکٹ من پسند افراد کو دیا جاتا ہے جو مقامی مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو ان تاریخی عمارتوں کی شکل و صورت بگاڑ دیتے ہیں انہیں کوئی اندازہ یا مہارت نہیں ہوتی کہ اس طرح کی عمارات کو کس طرح بحال کیا جاتا ہے، اسی طرح مسجد میں بگڑ جانے والے رنگ کی تجدید و بحالی کے لیے مقامی رنگ ساز کی خدمات روزانہ 500 روپے اجرت پر لی گئی۔
کلچر، سیاحت اور محکمہ آثار کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس بحالی مسجد کے منصوبے کی اب تک دو مختلف پی سی او منظور کی جاچکی ہے تاہم یہ کام آج بھی جاری ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ انہیں درست معلوم نہیں مگر اندازہ ہے کہ اب تک 12 کروڑ روپے اس منصوبے کی نذر ہوچکے ہیں۔
محکمہ ثقافت کے ڈآئریکٹر قاسم علی قسم کے مطابق صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا تھا کہ بحالی کے کام میں ناقص مواد کیسے استعمال کیا گیا؟ تاہم کچھ عرصے خاموشی کے بعد اسی ٹھیکیدار نے دوبارہ کام شروع کردیا یعنی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ مزدوروں نے مسجد کی اصل دیواروں کو مقامی سیمنٹ سے پلاسٹر کردیا جبکہ اس کے لیے خاص مواد استعمال کیا جتا ہے، اسی طرح انہوں نھے کلہوڑہ قبرستان کی بحالی میں بھی کیا۔
سیکریٹری کلچر، سیاحت اکبر لغاری نے ایکسپریس سے بات چیت میں محکمے پر بے پروائی اور غفلت کے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور بتایا کہ محکمے سے وابستہ ڈآئریکٹرز، نائب ڈآئریکٹرز اور دیگر عملہ اپنے شعبوں میں پیشہ ور ڈگریاں رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود چند روز میں مسجد کا دورہ کروں گا اور بحالی کے کام کا جاہزہ لوں گا۔ مسجد سے ملحق قلعے کی تباہی سے متعلق انھوں نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں تاہم وہ اس سلسلے میں جلد تحقیقات کرائیں گے۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک اور مثال ہمیں ایک ایسی تاریخی عمارت کی بحالی میں غیر محتاط اور بے پروا رویے کی نظر آتی ہے کہ جو تین سو برس پرانی اور ضلع دادو سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کا نام مسجد خداباد ہے اور اسے 1718 میں یار محمد کلہوڑو نے تعمیر کرایا تھا۔
اس مسجد کی بحالی اور تجدید کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے تاہم ماہرین ورثہ کا کہنا ہے کہ غیر تربیت یافتہ مزدوروں اور غیر تکنیکی ماہرین کی وجہ سے مسجد کی بحالی کا کام غیر معیاری انداز میں ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ تاریخی تقریبا اپنی اصل ہییت اور شکل کھوچکا ہے۔
ماہر تعلیم اور فن تعمیرات سے وابستہ ڈاکٹر فتح داؤپوتو کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب اس مسجد کے اردگرد ایک شاندار قلعہ نما عمارت تھی جسے ناتجربہ کار ٹھیکیداروں نے تباہ کردیا کیونکہ انہوں نے اس مسجد کی بحالی کے لیے جو مٹی استعمال کی اسے قلعے کی بنیادوں سے لیا گیا جس کی وجہ سے قلعہ برباد ہوگیا۔ڈاکٹر داؤدپوتو کا کہنا تھا کہ کلچر، سیاحت اور محکمہ آثار تکنیکی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ تاریخی عمارات کی بحالی کا کام کرسکیں۔
یہ محکمے عام طور پر ترتیب دیے گئے پلان سے ہٹ کر اور بجٹ سے بڑھ کر کام کرتھے ہیں اور ان محکموں سے وابستہ اکثر ملازمین، افسران اور ماہرین نہ تو تاریخ کے ماہر ہیں نہ ہی دیگر فنون سے کوئی دلچسپی رکھتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بحالی کے کام کا کنٹریکٹ من پسند افراد کو دیا جاتا ہے جو مقامی مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو ان تاریخی عمارتوں کی شکل و صورت بگاڑ دیتے ہیں انہیں کوئی اندازہ یا مہارت نہیں ہوتی کہ اس طرح کی عمارات کو کس طرح بحال کیا جاتا ہے، اسی طرح مسجد میں بگڑ جانے والے رنگ کی تجدید و بحالی کے لیے مقامی رنگ ساز کی خدمات روزانہ 500 روپے اجرت پر لی گئی۔
کلچر، سیاحت اور محکمہ آثار کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس بحالی مسجد کے منصوبے کی اب تک دو مختلف پی سی او منظور کی جاچکی ہے تاہم یہ کام آج بھی جاری ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ انہیں درست معلوم نہیں مگر اندازہ ہے کہ اب تک 12 کروڑ روپے اس منصوبے کی نذر ہوچکے ہیں۔
محکمہ ثقافت کے ڈآئریکٹر قاسم علی قسم کے مطابق صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا تھا کہ بحالی کے کام میں ناقص مواد کیسے استعمال کیا گیا؟ تاہم کچھ عرصے خاموشی کے بعد اسی ٹھیکیدار نے دوبارہ کام شروع کردیا یعنی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ مزدوروں نے مسجد کی اصل دیواروں کو مقامی سیمنٹ سے پلاسٹر کردیا جبکہ اس کے لیے خاص مواد استعمال کیا جتا ہے، اسی طرح انہوں نھے کلہوڑہ قبرستان کی بحالی میں بھی کیا۔
سیکریٹری کلچر، سیاحت اکبر لغاری نے ایکسپریس سے بات چیت میں محکمے پر بے پروائی اور غفلت کے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور بتایا کہ محکمے سے وابستہ ڈآئریکٹرز، نائب ڈآئریکٹرز اور دیگر عملہ اپنے شعبوں میں پیشہ ور ڈگریاں رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود چند روز میں مسجد کا دورہ کروں گا اور بحالی کے کام کا جاہزہ لوں گا۔ مسجد سے ملحق قلعے کی تباہی سے متعلق انھوں نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں تاہم وہ اس سلسلے میں جلد تحقیقات کرائیں گے۔