صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسینؓ

آج بھی کربلائیں سجی ہوئی ہیں، آج بھی شام کے بازار کھلے ہوئے ہیں، آج بھی دمشق کے دربار لگے ہوئے ہیں۔محل سرائیں، قلعے...


Saeed Parvez November 14, 2013

آج بھی کربلائیں سجی ہوئی ہیں، آج بھی شام کے بازار کھلے ہوئے ہیں، آج بھی دمشق کے دربار لگے ہوئے ہیں۔ محل سرائیں، قلعے، اونچے اونچے منارے قائم ہیں۔ حسین بھی ہیں اور یزید بھی ہیں۔ آج بھی حسین یزیدوں کے نرغے میں ہے، آج بھی حسین نہتے اور ''ادھر'' شمشیریں ہیں، یزیدوں کا گھیرا آج بھی مضبوط ہے، مظلوم کربلا اپنے گھرانے اور جان نثاروں کے ساتھ حصار میں ہے، آج بھی فرات لبالب بھرا ہوا، زور و شور سے عین سامنے بہہ رہا ہے اور ''حسینی'' پیاسے ہیں اور فرات کو دیکھ رہے ہیں، آج بھی فرات پر پہرہ ہے۔ ''حسینی'' بھوکے اور ''ادھر'' انواع واقسام کے ''کھانے پینے'' ہیں، وہی رزق کی توہین کے مناظر ہیں، بچے کچھے کھانے کتے بلیاں کھا رہے ہیں اور کھانے کے بعد سرور وکیف کے دور چل رہے ہیں۔

اصول، ضابطے، قانون سب کتابوں میں بند ہیں اور منہ سے نکلی بات ہی قانون ہے،آج بھی کالی صدیوں کی بیداد جاری ہے، قتل کرکے مجرم چھوٹ جاتے ہیں، آج بھی دولت معیار ہے، اونچے اونچے محلوں میں لہو کے چراغ جل رہے ہیں، غریبوں کا پرسان حال کوئی نہیں، اسلام کے نام پر قتل ہورہے ہیں، گردنیں کاٹی جارہی ہیں، عبادت گاہیں تباہ کی جارہی ہیں، درس گاہیں جلائی جارہی ہیں، علم و فن کے رستے میں اسلحے کی یہ باڑیں اور نہتے طلبا پر گولیوں کی بوچھاڑیں، یہ کرائے کے قاتل یادگار شب دیکھو، کس قدر بھیانک ہے ظلم کا یہ ڈھب دیکھو۔ آج حرف آخر ہے بات چند لوگوں کی، دن ہے چند لوگوں کا، رات چند لوگوں کی۔ایسے میں کوئی حسین آئے اور درد مندوں کے صبح وشام بدلے، یہ نظام بدلے، پائوں میں پڑی زنجیریں توڑے، تمام آزادیاں بحال کرے، مگر کوئی صدا نہیں کہ جسے زندگی کہیں۔

دشت وفا میں آبلا پا کوئی بھی نہیں

سب جارہے ہیں سایہ دیوار کی طرف

ایسی ہی سیاہ ترین رات تھی، ایسے ہی کالے کرتوت تھے کہ جب حسینؓ حالات سے مکمل باخبر مدینے سے کوفے کی طرف چلا تھا، صبر و شکر کی کن کن منزلوں سے گزرنا ہوگا حسینؓ سب جانتاتھا، مگر وہ سوئے مقتل چلا، راستے میں قافلہ حسینی کو حر اور اس کے لشکر نے گھیرے میں لے لیا اور کربلا لے آئے پھر حر اپنے کیے پر پچھتایا، ضمیر جاگا، وہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاکر قافلہ حسینی سے آ ملا اور دسویں محرم کے معرکے کا پہلا شہید ٹھہرا۔

پندرہ سو سال پہلے بھی لوگوں کے ضمیر انھیں جھنجھوڑ رہے تھے لوگوں کے دل حسینؓ کے ساتھ تھے مگر دربار کا قرب حاصل رہے تاکہ اپنی جائیدادیں، محل، ماڑیاں، کاروبار، تجوریاں محفوظ رہیں، اس لیے دل حسین کے ساتھ اور تلواریں دربار کے ساتھ تھیں۔

آج بھی یہی منظر نامہ ہے۔ تمام پیر، فقیر، خانقاہوں کے مالک، سجادہ نشین، گدی نشین، دعائیں وظیفے کرنے والے سفید براک و باریش سب کے سب ہمیشہ کی طرح در بار کے ساتھ ہوتے ہیں، دربار میں علماء و مشائخ مجتمع ہوتے ہیں اور خیر سے سارے کے سارے مکتبہ فکر فقہ عقیدہ کے علماء ومشائخ خشوع و خضوع کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، بڑے بڑے تاجر زمیندار، وڈیرے، سردار، خان سب کے سب ہمیشہ دربار کے ساتھ ہوتے ہیں تاکہ ان کے کاروبار، ناجائز بینک بیلنس، زمینیں، کھیت، کھلیان، باغات اور نجی جیلیں محفوظ رہیں اور ان کا ظلم قائم رہے۔ وہ ہاریوں، کسانوں، مزدوروں سے جبری مشقت لیتے رہیں۔ تاجر دو نمبری کاموں سے دولت کماتے رہیں، ان کے دستر خوانوں پر عمدہ کھانے پینے چلتے رہیں اور ان کے ملازمین بھوکے مرتے رہیں۔

محرم پھر آگیاہے اور محرم یونہی آتا رہے گا مگر اب وقت، حالات، واقعات تقاضا کررہے ہیں کہ دنیا بھر کے مظلوموں کو اسوۂ حسینؓ کے مطابق ظلم و جبر کے خلاف پیش کیا جائے۔ حسینؓ کے اعلیٰ ترین سبق کو تمام مظلوموں کے حق میں پیش کیا جائے۔ حضرت جوش ملیح آبادی کی پیش گوئی بالکل درست ہے، واقعی حسین دراصل ایسا ہی بلند کردار ہے۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

تو جناب! ہم کب بیدار ہوںگے! وقت آچکا کہ حسینؓ کو تقسیم اور تفریق کے لیے نہیں صرف جمع کے لیے پیش کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرکہ کربلا فقط یہ ہے کہ ''سرداد، نہ داد دست، در دست یزید'' حسینؓ کا یہ فعل یہ کردار ! بس یہی پورے عالم کے لیے پیغام ہے۔ اسی پیغام کربلا کا پرچار ہونا چاہیے اور اس کا پرچار ظلم کے مخالف اور مظلوم کے ساتھی عوام ہی کرسکتے ہیں اور انھی کو کرنا بھی چاہیے۔کیونکہ ہر دربار،سرکار میں حاضری دینے والوں سے ''امید خیر لا حاصل'' ہے۔

یہ جھوٹ اور سچ کا کھیل ہمیشہ رہے گا، اصول فروش اور اصول پرست بھی ہمیشہ آمنے سامنے رہیںگے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی فلسفے، لفاظی کا محتاج نہیں ہے، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داستان نہایت سادہ ہے، شاعر علی سردار جعفری کا شعر سن لیجیے، بات اور واضح ہوجائے گی۔

ہے ہمیشہ سے یہی افسانہ پست و بلند

حرف باطل زیب منبر، حرف حق بالائے دار

زیب منبر پستی ہے کیونکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے اور بالائے دار بلندی ہے کیونکہ وہ سچ ہوتاہے اور حسینیت پر چلنے والوں کا راستہ تو دار کی طرف ہی جاتاہے اور آج بھی اسی راستے پر چلنے والوں کے لیے کانٹوں بھری راہیں ہیں زہر بھرے پیالے ہیں جو جیلیں ہیں، پھانسی گھاٹ ہیں، بھوک ہے، پیاس ہے، بلکتے بچے ہیں، بیماری سے ایڑیاں رگڑتے اور بنا علاج مرتے انسان ہیں۔ درباری سرکاریوں اور ان کے حواریوں کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک علاج معالجے کی سہولتیں ہیں۔حسینؓ کا نام لیوا صعوبتوں میں ہی مبتلا نظر آئے گا، حسینؓ کا آسائش زمانہ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں باقی سب جھوٹ ہے، فریب ہے، مکر ہے، جالب کے شعر میں ذرا سا تصرف کے ساتھ (جالب نے مصرعے میں ہے ''وہ شاعر نہیں رہا'' ہے)

کچھ اور ہوگیا وہ حسینیؓ نہیں رہا

وابستہ ہوگیا جو کسی تاجدار سے

حسینؓ کے پیغام کو لے کر چلنے والے ہر مذہب وملت میں گزرے ہیں جنہوںنے سچ کو اختیار کیا، دربار کو للکارا، دنیا کو ٹھکرایا، زہر کا پیالہ پیا یا سولی پر چڑھ گئے۔ آج بھی فرات لبالب بھرا، شور مچاتا بہہ رہا ہے مگر سچ اختیار کرنے والوں کے لیے فرات پر پہرے دار کھڑے ہیں حسینؓ کا پیغام ''خلق خدا کو بھوکا ترسانے والوںکے لیے پیام موت ہے''

آخر میں جالب کا سلام حسینؓ کے لیے اور اجازت...

جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے

میرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے

ہوائیں لاکھ چلیں میرا رخ بدلنے کو

دل ونگاہ میں وہ سر زمین آج بھی ہے

صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسینؓ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔