ہمارے ہیں حُسین

ایک طرف ظالموں کا قبیلہ ہے اور دوسری طرف معصوم ومظلوم لوگ۔ظالم کو طاقت کا زعم ہے

khanabadosh81@gmail.com

RAWALPINDI:
ایک طرف ظالموں کا قبیلہ ہے اور دوسری طرف معصوم ومظلوم لوگ۔ظالم کو طاقت کا زعم ہے،وہ اقتدار پہ ناجائز قبضہ چاہتاہے،وسائل پر غیرقانونی طور پر تصرف کا خواہاںہے اس لیے اپنے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی ہر بغاوت کو وہ کچل ڈالناچاہتاہے اور ہر سرکو اپنے حضور جھکا ہوا دیکھنا چاہتاہے،لیکن کچھ سر ایسے ہوتے ہیں جو ہر در پہ نہیں جھکتے اور ایک بار جبر کے سامنے اٹھ جائیں تو پھر کٹ جاتے ہیں لیکن جھکتے نہیں،اور ظالم اس لیے بھی ہر ایسے سر کو کاٹ دینا چاہتا ہے کہ کہیں یہ کئی اور سروں کو ایسی سرکشی نہ سکھا دیں۔سو، سرکٹتے رہتے ہیں ،کٹتے رہے ہیں اور کٹتے رہیں گے،مگر ظالم کے سامنے ہار نہ مانی ہے،ہار نہ مانی تھی اور ہار نہ مانیں گے۔گو کہ ظالم ہتھیاروں سے لیس ہے،طاقتور ہے،مظلوم بے بس ہے لیکن اپنا جائزحق چاہتا ہے،اپنے مختصر قافلے سمیت جنگ کرنے کو تیار ہے، مگر جھکنے اور بکنے کو تیار نہیں۔سو اپنا سرکٹاتاہے،مائیں بہنیں بے ردا ہوتی ہیں،بچے اور جوان گھائل ہوتے ہیں لیکن نیزے پر پھر بھی وہی سر،سرفراز رہتا ہے جو ظلم کے سامنے کٹنا توگوارا کرتا ہے ،جھکنا نہیں...

آپ شامِ غریباں کے یہ مناظر سنیے تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جیسے ہماری ہی بات ہو رہی ہے...فقط کرداروں کے نام اور مقام بدلے ہیں،کام آج بھی وہی، استحصالیوں کا محکوموںپر ظلم اور تشدد...گویا طالبانیت اور سامراجیت کی چکی میں پستے ستم رسیدہ پاکستان کی بات ہو رہی ہو، جیسے طاقت ور طبقات کے استحصال کے شکار عوام کی بات ہو رہی ہو...!

پیاس وہی ہے ، دشت وہی ہے، وہی گھرانہ ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

پیاس، دشت، مشکیزہ،تیر ...جیسے سارے استعارے بلوچستان ہی سے لیے گئے ہوں۔

بلوچوں کی تاریخ میں ایک معروف روایت یہ بھی رہی ہے کہ وہ کربلا میں حضرت حسینؓ کے لشکر میں شامل تھے،ان کے کچھ لوگ کربلا میں شہید ہونے والے حسینؓ کے 72ساتھیوں میں بھی شامل تھے۔بعدازاں یزید کے ظلم وستم سے تنگ آکر یہ طائفہ شام اور حلب سے ہوتا ہوا کیچ مکران کے پہاڑوں میں آکر آباد ہوا۔شاید تبھی آج تک اس کی سرشت میں سرکشی شامل ہے۔شاید تبھی جب کوئی حسینی یہ کہے تو لگتا ہے جیسے کسی بلوچ نے کہا ہو کہ؛

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

سروں کی فصل جب اتری تھی ، تب سے واقف ہیں

کبھی چھپے ہوئے خنجر ، کبھی کھنچی ہوئی تیغ

سپاہ ِ ظلم کے ایک ، ایک ڈھب سے واقف ہیں

اور یہ بھی کہ...

عہدِ امانت سرِ نوشت میں شامل تھا

بیعت سے انکار سرشت میں شامل تھا

اس لیے وہ آج تک کسی ظالم کی بیعت نہیں کرپایا۔اس نے ان یزیدی مظالم کا مقابلہ حسینی ہمت سے ہی کیا ہے۔آپ ایک طرف واقعہ کربلا کا پورا منظر نامہ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف استحصالی طبقے کا موازنہ کیجیے تو یزیدیت اور استحصالیت ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آئیں گے!ظلم و جبر،استحصال ،غیر اخلاقی و غیر انسانی سلوک،اپنے اقتدار کے دوام کے لیے معصوم انسانوں کا قتلِ عام،ان کے اقتدار کو قبول نہ کرنے والے لوگوں پر مظالم ،محکوم و بے بس عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنا ،بے رحم ،بے انصاف ،بے دل ،بے وفا اور ''بے'' کے کئی سابقوں اور لاحقوں پر پوری اترنے والی جتنی ''خصوصیات'' یزیدیت کی ہیں،وہی آپ کو یہاں کے استحصالی طبقات میں ملیں گی۔دوسری طرف اپنی زمین اور وسائل پر حق حاکمیت ،اپنے آبائواجداد کے اقدار و اقتدار کے لیے قربانی ،ظلم کے سامنے ڈٹ جانا،سچائی کے لیے اپنے بچوں ،جوانوں اور خاندانوں کی قربانی ،باہمت،باغیرت،باوفا اور ''با'' کے کئی سابقوں اور لاحقوں پر پوری اترنے والی حسینیت کی جتنی خصوصیات ہیں ،ان کا متن آپ کو آج یہاں یکجا ملے گا۔اپنی اقدار اور اقتدار کے لیے تاریخ میں حسینی گھرانے جیسی قربانی جیسے ناپید ہے ۔حسینؓ کے قافلے سے بچ جانے والے اس کے سپاہی آج بھی یزیدیت کے خلاف سربکف ہیںاور اپنے وجود اور تشخص کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔صدیوں کی اس آگ میں تپ کروہ اتنے کندن ضرور ہوئے ہیں کہ اب اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود انھیںاب کسی طاقت ور کا ڈر نہیںرہا۔

حسین! تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا

مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا

سو، حسین اور حسینیت ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہے، مجبوروں اور بے کسوں کا آسرا ہے، لاوارثوں کا سہارا ہے، بے نواؤں کی نوا ہے، یہ دنیا بھر کے محکوموں کا اثاثہ ہے، بلوچوں کا اثاثہ ہے۔


اور حضرت شاعرِ انقلاب،جوش ملیح آبادی نے تو بہت پہلے ہی بڑے اعتماد سے کہاتھا کہ:

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

اور آج حسینیت کے تناظر میں بیدار بلوچ قوم ہر اس شخص کو اپنا سمجھتی ہے جو ظلم کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور حق و سچ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔اور حسینؓ جیسی قربانی بھلا آج تک کسی نے دی ہے کیا؟!سوقت یہ طے ہے کہ جہاں ظلم ہوگا ،جبر ہوگا،استحصال ہوگا،یزیدیت ہوگی،وہیں اس کے مقابلے میں سرکشی ہوگی،بغاوت ہوگی،حسینیت ہوگی۔

آخر میں ،میں یہاں حسینی قافلے کے ایک شاعر افتخار عارف کی ایک نظم ''اعلان نامہ''نقل کرتا ہوں ،آپ اسے بلوچستان کے پس منظر میں پڑھیں تو لگتا ہے جیسے یہ ہمارے ہی دل کی صدا ہے ...

میں لاکھ بزدل سہی مگرمیں اسی قبیلے کا آدمی ہوں

کہ جس کے بیٹوں نے جو کہا اس پہ جان دے دی،

میں جانتا تھا مرے قبیلے کی خیمہ گاہیں جلائی جائیں گی

اور تماشائی رقص شعلہ فشاں پر اصرار ہی کریں گے،

میں جانتا تھا مراقبیلہ بریدہ اور بے ردا سروں کی گواہیاںلے کے آئے گا،

پھر بھی لوگ انکار ہی کریں گے،

سو میں کمیں گاہِ عافیت میں چلا گیا تھا،

سو میں اماں گاہِ مصلحت میں چلاگیا تھا،

اور اب مجھے میرے شہسواروں کا خون آواز دے رہا ہے،

تو نذر ِسرلے کے آگیا ہوں،

تباہ ہونے کو ایک گھرلے کے آگیا ہوں،

میں لاکھ بزدل سہی مگر میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں!
Load Next Story