شرح سود میں اضافے پر احتجاج مشکلات بڑھیں گی کاروباری برادری اقتصادی ماہرین

بلندشرح سودسے کبھی فائدہ ہوا نہ اب ہوگا،مالی خسارے میں اضافے کاخدشہ، معیشت بحران میں گھری ہوئی ہے


صنعتکاری کے فروغ، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور روزگارکی فراہمی کیلیے شرح سود8 فیصد تک لائی جائے. فوٹو: فائل

بزنس کمیونٹی اور ماہرین اقتصادیات نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں مارک اپ کی شرح میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلندشرح سودسے کبھی فائدہ ہوا نہ اب ہوگا۔

معیشت بحرانوں میں گھری ہوئی ہے، فیصلے سے بہتری نہیں آئے گی، خطے کے دیگر ممالک کو مدنظر رکھتے ہوئے مارک اپ کی شرح کم از کم 8 فیصد تک لائی جائے تاکہ نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو، کاروباری شعبے میں استحکام آئے اورتجارتی و معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔ صنعتکاروں وتاجروں بشمول صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سہیل لاشاری، ماہر اقتصادیات اور پی پی اے کے سابق چیئرمین عبدالباسط، میٹ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین نسیب احمد سیفی، پاکستان ایمبرائیڈری ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی محمد اکرم، ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین خواجہ خاور رشید، قومی تاجر اتحاد کے جنرل سیکریٹری حافظ عابد علی و دیگر نے کہا کہ صنعت کاری کا عمل تیز اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتی شعبے کو سستے قرضوں کی فراہمی بہت ضروری ہے۔

بزنس لیڈرزنے کہا کہ بحرانوں کی وجہ سے صنعتیں بند یا پھر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں لہٰذا حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ مارک اپ کی شرح خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پہلے ہی بہت زیادہ ہے جس سے صنعتی شعبے کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ کی زیادہ شرح کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہوا ہے اور اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو نہ صرف صنعت و معیشت کے مسائل مزید بڑھیں گے بلکہ مالی خسارہ بھی بڑھے گا جو کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مارک اپ کی شرح 8 فیصد تک لائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی اگرچہ معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔



تاہم یہ مہنگائی طلب کا نتیجہ ہے بلکہ اس میں بجلی وگیس مہنگی کرنے، مختلف اشیا پر سبسڈی کم اور ٹیکسوں مین اضافے سے متعلق حکومتی فیصلوں، منافع خوروں کی لالچ، سپلائی سائیڈ کے مسائل اور دیگر عوامل کا ہاتھ ہے، اس لیے زری پالیسی سخت کرنے سے اس قسم کی مہنگائی پرقابو نہیں پایا جاسکتا بلکہ اس کے لیے انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے، لہٰذا سود کی شرح میں اضافے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ سود کی شرح بڑھنے سے حکومت پر مالی بوجھ میں اضافہ ہوگا۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداللہ ذکی نے کہا کہ جاری حالات میں صرف حکمران ہی سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ تاجرو صنعت کار اور عوام حکمرانوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کی زد میں ہیں جنہیں نہ امن مل رہا ہے نہ گیس اور بجلی مل رہی ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے۔

تعلیم وصحت کا نظام درہم برہم ہے جو لوگوں کو باغی بناتی جا رہی ہے اور یہی باغی لوگ آسان طریقہ سے دولت کے حصول کیلیے نت نئے انداز میں جرائم کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں پر شرح سود میں اضافے سے ملک میں قرضوں کی شرح سود ایک بارپھر دہرے ہندسے میں آ گئی ہے، انفرااسٹرکچرل مسائل اور بڑھتی مہنگائی کے اس دور میں تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے، شرح سود میں اضافے سے تجارتی بینک ایک بار پھرتجارتی شعبوں کو قرضوں کی پیشکشیں کرتے رہیں گے لیکن یہ شعبہ قرضوں کے حصول میں دلچسپی نہیں لے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ تک محدود رکھے۔

سائٹ سپرہائی وے ایسوسی ایشن کے صدر محمد جاوید غوری نے کہا کہ شرح سود میں بتدریج اضافہ صنعتی شعبے کو بینکوں سے دور رہنے کی ایک کوشش ہے جو بیرونی دنیا میں بہترین کاروباری مواقع کے باوجود اپنی کاروباری سرگرمیوں کو صرف اپنے پاس موجود سرمائے تک محدود کردیں گے، شرح سود میں اضافے کے اثرات نہ صرف مقامی طور پر استعمال ہونے والی روزمرہ اشیا کی قیمتوں پر مرتب ہوں گے بلکہ برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت بھی بڑھ جائیگی۔ لسبیلہ چیمبرآف کامرس کے صدر اسماعیل ستار نے شرح سود میں اضافے کو معیشت کیلیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی ساز اپنی مختصرالمدت روایات کو ترک کرتے ہوئے سود میں اضافے کے بغیر معاشی افزائش میں اضافے اور افراط زرکی شرح میں کمی کا میکنزم ترتیب دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں