حکومتی پارٹی اور اتحادیوں میں اختلافات

یہ تینوں اب کابینہ کا حصہ نہیں اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا

یہ تینوں اب کابینہ کا حصہ نہیں اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا

PESHAWAR:
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے خلاف مبینہ طور پرگروپنگ کے الزام میں تین اہم صوبائی وزراء سینئر وزیر عاطف خان، وزیر صحت شہرام تراکئی اور وزیر مال و ریونیو شکیل احمد کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ گورنر ہاؤس پشاورکی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے آئین کے آرٹیکل 132 کی دفعہ 3 کے تحت برطرف کیے جانے والے وزراء سے ان کے قلمدان واپس لے لیے ہیں، یہ تینوں اب کابینہ کا حصہ نہیں اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ فارغ کیے گئے وزراء میں ایک وزیر وزارت اعلیٰ کے امیدوار بھی تھے۔ تینوں وزراء ابتدا ہی سے پارٹی پالیسی کی مخالفت اور ایک عرصے سے گروپنگ کر رہے تھے جن کے عمل سے پارٹی اور حکومت دونوں کو نقصان پہنچ رہا تھا، انھیں بہت سمجھایا یہاں تک کہ بات وزیراعظم تک پہنچ گئی، مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا کیونکہ گروپ بندی میں پارٹی خاموش رہتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کو گزشتہ کچھ عرصے سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں اپنی اتحادی جماعتوں کی حکومت مخالف سرگرمیوں اور پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک کی افواہوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت ایسی خبروں کی تردید کرتی چلی آ رہی ہے مگر سب سے پہلا پتھر سندھ میں اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی طرف سے اس وقت پھینکا گیا جب وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، انھیں منانے کے لیے وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دی جس کے ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے لیکن ابھی تک وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔


ابھی یہ صورت حال چل ہی رہی تھی کہ بلوچستان میں اسپیکر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ جام کمال کے درمیان اختلافات کی خبریں آنا شروع ہو گئیں، اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ جام کمال، صوبائی وزیر خزانہ اور سینیٹر سرفراز بگٹی کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحاریک استحقاق جمع کرا دیں، یہ اختلافات ختم کرانے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر متحرک ہو گئے۔ اب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اعلان کیا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور جام کمال ہی وزیراعلیٰ بلوچستان رہیں گے۔ پنجاب میں بھی بزدار حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی جانب سے فارورڈ بلاک بنانے اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف سرگرمیوں کی باتیں اخبارات کی زینت بننے لگیں اور یہ کہا جانے لگا کہ پنجاب میں بھی وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا جائے۔

یہ صورت حال پی ٹی آئی حکومت کے لیے انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ اگر پنجاب میں اختلاف رکھنے والے ارکان کے دباؤ میں آ کر وزیراعلیٰ کو تبدیل کر دیا جائے تو اس سے جہاں وفاقی حکومت کی کمزوری عیاں ہوتی ہے وہاں اس کے لیے نت نئے مسائل پیدا ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت کو بچانے کے لیے وفاقی حکومت سرگرم ہو گئی اور سیاسی بساط پر پہلی لیکن بھرپور چال چلتے ہوئے خیبرپختونخوا میں تین وزراء کو برطرف کر کے پنجاب میں ناراض ارکان کو یہ واضح پیغام دیا گیا کہ اگر انھوں نے بھی گروپنگ کی تو ان کا انجام بھی یہی ہو گا۔ پنجاب حکومت کو سہارا دینے اور ناراض ارکان کی جانب سے فارورڈ بلاک بنانے کی کاوشوں کو ''سبوتاژ'' کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان اتوار کو خود لاہور آ پہنچے اور ایک اجلاس طلب کر لیا جس میں شریک ارکانِ قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان صوبائی اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس موقعے پر وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ناراض ارکان پر واضح کر دیا کہ ان کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو گا اور کسی بھی ''مہم جوئی'' کی صورت میں نقصان ناراض ارکان ہی کا ہو گا۔ اس طرح وزیراعظم نے بزدار حکومت کو ایک بار پھر سہارا دیا ہے اور ان گروپس کی مہم جوئی کو ناکام بنانے کی کوشش کی جو پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس اجلاس میں (ق) لیگ کے ارکان اسمبلی کو مدعو نہیں کیا گیا ورنہ پہلے انھیں اتحادی کے طور پر تمام اجلاسوں میں شریک کیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد (ق) لیگ کو یہ پیغام دینا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے اس کی کوششوں کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ اس اجلاس میں ناراض ارکان اسمبلی نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔

وزیراعظم عمران خان نے ناراض ارکان کو منانے کے لیے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ مہم جو ارکان اسمبلی کی جانب سے فارورڈ بلاک بنانے اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹنے کے لیے حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں، اس موقعے پر وفاقی حکومت کی زیرکی اور دانشمندی کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو کیسے ہینڈل کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تین وزراء کو فارغ کرنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت اندرونی اختلافات کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا خود کو بچانے کے لیے مزید برطرفیاں کی جاتی ہیں۔فی الحال تو طوفان تھم گیا ہے مگر آیندہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
Load Next Story