سندھ میں کمشنری نظام ختم ضلعی حکومتیں بحال سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کا فیصلہ

پیپلزپارٹی اور متحدہ کے درمیان بلدیاتی نظام کے بارے میں4سال سے جاری مذاکرات میں ڈرامائی تبدیلی، صدر کا پیغام


G M Jamali September 04, 2012
کراچی:صدر زرداری پیپلزپارٹی اور متحدہ کی کورکمیٹی کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں،وزیراعلیٰ بھی موجود ہیں (فوٹو : ایکسپریس )

پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں کمشنری نظام کے خاتمے ، ضلعی حکومتوں کی بحالی اور ضلعی حکومتوں میں سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی پر اتفاق ہوگیا ہے اس سلسلے میں آئندہ24گھنٹے میں آرڈیننس جاری کیے جانے کا امکان ہے۔

جس کی روشنی میں سیاسی ایڈمنسٹریٹرزکی تقرریوں کے حکمنامے جاری کردیے جائیں گے نئے آرڈیننس کو ایس ایل جی او2012 کا نام دیا جارہا ہے جس کے اجرا کے بعد1979ء کا بلدیاتی اور کمشنری نظام ختم ہوجائے گا جبکہ ضلعی ، تعلقہ اور ٹاؤنزکی سطح پر سیاسی ایڈمنسٹریٹر مقررکردیے جائیں گے، آرڈیننس کے مسودے پر دونوں جماعتوں کے درمیان رات گئے تک صلاح مشورے جاری تھے اس سلسلے میں قانونی ماہرین سے مشاورت بھی کی جارہی تھی۔

باخبر ذرائع نے اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ساڑھے4 سال سے جاری مذاکرات میں پیرکی شام ڈرامائی موڑ آیا اور دونوں جماعتیں جو اس معاملے پرکئی سال سے متفق نہیں ہوپارہی تھیں حیرت انگیز طور پراچانک کچھ دیر جاری رہنے والے مذاکرات میں اس بات پر متفق ہوگئیں کہ فوری طور پر کمشنری نظام کا خاتمہ اورضلعی حکومتوں کو ایس ایل جی او2001 ء کو ردوبدل کے ساتھ بحال کردیا جائے اور ضلعی حکومتوں ، ٹاؤنز اور تعلقہ میں سیاسی ایڈمنسٹریٹرز مقررکردیے جائیں۔

اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، پیپلز پارٹی کے وزیر بلدیات آغا سراج درانی ، وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ ، وزیر قانون ایاز سومرو ، ایم کیو ایم کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار ، سید سردار احمد ، بابر غوری جبکہ وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے شرکت کی، ذرائع کے مطابق اجلاس میں صوبے بھر میں ضلعی حکومتوں کی بحالی اور کمشنری نظام کے خاتمے کے حوالے سے قانونی معاملات کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ سید سردار احمد صوبائی سیکریٹری قانون سیدغلام نبی شاہ ، سیکریٹری بلدیات لالہ فضل الرحمن کے ساتھ مل کرآرڈیننس کے قانونی پہلوؤں کو حتمی شکل دیں۔

تاکہ بعدازاں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان آرڈیننس کا اجرا عمل میں لائیں اس سلسلے میں آرڈیننس کے مسودے کا رات گئے تک انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا تھا کہ کہیں آرڈیننس کے اجرا کے بعد کوئی قانونی سقم سامنے نہ آئے اور دونوں فریقین کی خواہش کے مطابق آرڈیننس پر عملدرآمد کردیا جائے، ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے منظوری کے لیے ایک سمری بھی تیار کرلی گئی ہے تاکہ قانونی پہلوؤں کا جائزہ مکمل ہوتے ہی یہ سمری گورنر ہاؤس بھیجی جائے اور گورنر سندھ فوری طور پر آرڈیننس کا اجرا کردیں۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ رات گئے تک وزیراعلیٰ سندھ نے اس سمری پر دستخط نہیں کییتھے اور اس حوالے سے پیپلزپارٹی کی وہ لیڈر شپ جو کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کیساتھ مذاکرات کے عمل میں شریک نہیں تھی اس کیجانب سے بعض تحفظات سامنے آئے ہیں ان تحفظات سے صدر آصف علی زرداری کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے جس پر صدر نے ہدایت کی ہے کہ اعتراض کرنے والے پارٹی رہنماؤں کو یہ باور کیا جائے کہ یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی روز اول سے جاری مفاہمت کی پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔

قبل ازیں صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور متحدہ کی کور کمیٹی کا اجلاس پیر کو گورنر ہاؤس میں ہوا اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید عاصم حسین سمیت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے شرکت کی ، اجلاس میں نئے بلدیاتی نظام کے مسودے میں انتظامی اور مالی معاملات پر تفصیلی غور کیا گیا اجلاس کے دوران سید قائم علی شاہ نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے پیش رفت سے آگاہ کیا۔

جس پر صدر نے ہدایت کہ کہ بلدیاتی نظام کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کیا جائے ، دوسری جانب گورنر سندھ کی صدارت میں ایم کیو ایم کا مشاورتی اجلاس رات گئے تک جاری تھا جس میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے مشورے کیے گئے، اس سے قبل صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس پیر کو وزیراعلیٰ ہائوس میں ہوا ، اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق ، وزیر بلدیات آغا سراج درانی ، وزیر قانون و جیل خانہ جات محمد ایاز سومرو ، صوبائی وزیر آرکائیوز محمد رفیق انجنیئر ، ایم این اے عبدالقادر پٹیل ، سینئر معاون خصوصی راشد حسین ربانی ، محکمہ قانون کے سیکریٹری غلام نبی شاہ و دیگر نے شرکت کی ۔

اجلاس میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ /آرڈیننس مجریہ2012 کی پیش رفت سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا اور اس ضمن میں رکاوٹیںختم کرنے کیلیے فیصلے کیے گئے ۔دریں اثنا صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے، ایم کیو ایم سے ہمارا اتحاد آئندہ انتخابات کے بعد بھی برقرار رہے گا، جو عناصر اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی سازش کررہے ہیں، دونوں جماعتیں مل کر ان سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

کراچی میں امن و امان کی نازک صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں شہر میں قیام امن کے لیے متحد ہو کر کام کریں،گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کراچی میں مستقل قیام امن کے لیے اتحادی جماعتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور مشترکہ سفارشات تیارکرکے کراچی میں قیام امن کیلیے بھرپور اور مستحکم پالیسی تشکیل دی جائے، کراچی میں بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

بلدیاتی نظام پر ایم کیو ایم سمیت تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر نیا مسودہ تشکیل دیا جائے تاکہ صوبے میں نیا بلدیاتی نظام نافذ کر کے عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیر کو صدارتی کیمپ آفس بلاول ہائوس میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے مشترکہ اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کیا بعد ازاں صدر سے عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے وفد نے بھی سینیٹر شاہی سید کی قیادت میں ملاقات کی، ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد نے صدر کو کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال، متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان اور عام افراد کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔

ایم کیو ایم کے وفد نے صدر کو صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنی سفارشات اور تجاویز سے بھی آگاہ کیا، ذرائع کے مطابق صدر نے ایم کیو ایم کے وفد کو تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ کور کمیٹی کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ موجودہ حکومت بینظیر بھٹو کی مفاہمتی پالیسی پر یقین رکھتی ہے، مفاہمتی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا جائے گا، صدر نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات مضبوط اور دیرپا ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اتحاد کے جس سفر کا آغاز کیا وہ آئندہ نسلوں تک برقرار رہے گا۔

انھوں نے کہا کہ کچھ عناصر شہر میں بدامنی پھیلا کر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو خراب کرنا چاہتے ہیں لیکن ان عناصر کے مذموم مقاصد کامیاب نہیں ہو سکیں گے، انھوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر منعقد کیے جائیں گے اور پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں بھی ایم کیو ایم سمیت اپنی اتحادی جماعتوں سے اپنا اتحاد برقرار رکھے گی، صدر نے کہا کہ کراچی میں بدامنی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، انھوں نے ہدایت کی کہ کراچی میں قیام امن کیلیے صوبائی حکومت مربوط لائحہ عمل طے کرے اور گورنر وزیراعلیٰ اتحادی جماعتوں، قانون نافذ کرنے والوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں کراچی میں قیام امن کیلیے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔

بعد ازاں اے این پی سندھ کے وفد نے صدر سے ملاقات کی، جس کی قیادت صوبائی صدر سینیٹر شاہی سید نے کی، اس موقع پر صوبائی سیکریٹری جنرل بشیر جان، صوبائی وزیر امیر نواب خان اور دیگر بھی موجود تھے، ملاقات میں ملک کی مجموعی صورتحال، کراچی میں قیام امن سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اے این پی کے وفد نے کراچی میں اپنے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، کراچی میں حلقہ بندیوں، نئے بلدیاتی نظام پر اپنے تحفظات اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا، صدر نے اے این پی کے وفد کو ان کے مسائل حل کرنے اور تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی، صدر نے کہا کہ موجودہ حکومت کا یہ آخری سال ہے اور حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے ہیں انھیں پورا کیا جائے گا۔

حکومت ملک سے توانائی کا بحران ختم کرنے، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، بلاول ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ بلدیاتی نظام پر دونوں جماعتوں کے درمیان چار سال سے کہانی چل رہی ہے، جب بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دی جائے گی تب ہم اپنا فیصلہ بتائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں