بلوچستان حکومت میں کام کرنیکی اہلیت نہیں چیف جسٹس

صرف زبانی جمع خرچ کیا جارہا ہے، وفاقی حکومت بھی دلچسپی نہیں لے رہی، بدامنی کیس میں ریمارکس

آئین کے آرٹیکل 9پر عمل نہیں ہورہا، صرف زبانی جمع خرچ کیا جارہا ہے، وفاقی حکومت بھی دلچسپی نہیں لے رہی، بدامنی کیس میں ریمارکس فوٹو: آن لائن

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ بلوچستان کے حا لات آ ئین کے تحت نہیں چلائے جا رہے ہیں ۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں امن وامان سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس اور سیکریٹری داخلہ کو لاپتہ افراد کے حوالے سے (آج ) منگل کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو سیکریٹری دفاع و سیکریٹری قانون سمیت سب کو طلب کریں گے ۔ صوبے کی صورتحال پر (آج) اٹارنی جنرل عرفان قادر کو بھی کوئٹہ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان پولیس امن و امان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے، صوبے کی صورتحال پر صرف زبانی جمع خرچ ہورہا ہے ، آرٹیکل نو پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ۔ صوبائی حکومت کام کرنیکی اہل نہیں، صوبے کے معاملات آئین کے تحت نہیں چلائے جارہے۔بلوچستان کے خراب حالات ہیں وفاقی حکومت دلچسپی نہیں لے رہی ۔

عدالت نے چیئر مین ایف بی آ ر کو ہدایت کی ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف کارروائی کی جائے وفاقی صوبائی حکومتوں نے بلوچستان میں آئین اور قانون کی رٹ کی بحالی کے سلسلے میں جو یقین دہانی کرائی تھی اس پرپیش رفت نہیں ہورہی ہے محسوس ہوتا ہے کہ امن وامان حکومت کے کنٹرول میں نہیں ۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کی عدم موجودگی پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بلوچستان کی صورتحال سے متعلق سپریم کورٹ کی اس ایکسرسائز کو اہم نہیں سمجھتے تو بتادیں ۔ عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ نواب بگٹی کے خاندان کی غیر متنازعہ جائیداد پر اگر کوئی غیر مجاز طریقے سے قابض ہے تو اس کو ختم کیا جائے ۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں اپنی ہڑتال پر نظرثانی کریں اگر وہ نہیں مانتے تو حکومت بلوچستان ان کے خلاف کارروئی میں آزاد ہوگی اور سپریم کورٹ بھی اپنا حکم دے گی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان کی صورتحال سے متعلق یہاں درخواست کی سماعت کی ۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل ہیں ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ جب سیشن جج کے قتل پر حکومت حرکت میں نہیں آتی تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے اس دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات صحیح نہیں ہیں اور گزشتہ دنوں یہاں جو واقعات رونما ہوئے ہم خود اس پر شرمندہ ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری نے وزیراعظم سے جو ملاقاتیں کی تھیں انہیں بھی یہاں کے حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وزیراعظم کو چیف سیکرٹری نے یہ بتایا کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں اور پانی سر سے گزر گیا ہے ۔


عدالت نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومت نے بلوچستان میں آئین اور قانون کی رٹ بحال کرانے کے حوالے سے جو یقین دہانی کرائی تھی اب تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند دنوں سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں نہ صرف اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد کی اچھی خاصی تعداد قتل ہوئی بلکہ بولان کے علاقے میں 7افراد کو قتل کیا گیا ۔نہ ان واقعات کے ملزمان گرفتار ہوئے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنگین جرائم یہاں روز کا معمول بن گئے ہیں ۔

حالانکہ سیکریٹری دفاع ، سیکریٹری داخلہ، چیف سیکریٹری بلوچستان ، آئی جی پولیس ، انسپکٹر جنرل فرنٹیئرکور اور ہوم سیکریٹری بلوچستان نے عدالت کویہ یقین دہانی کرائی تھی کہ حالات ٹھیک کیے جائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ آج کسی عذر کے بغیر اٹارنی جنرل پاکستان غیر حاضر ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ منگل کو عدالت میں پیش ہوں اور اگر وہ منگل کو نہیں آئے تو اگلے روز سیکریٹری دفاع ،وفاقی سیکریٹری داخلہ ، چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت وہ چھ افسران خود عدالت میں پیش ہوں جنہوں نے عدالت کو اس سے پہلے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی عدالت نے اس سیشن کے دوران یہاں آئین اور قانون کی رٹ کی بحالی کے لیے ایک آرڈر پاس کرنا ہے ۔

سماعت کے دوران جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کی اہلیہ نواب زادہ شازین بگٹی کی والدہ بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئیں انہوں نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی کو نو گوایریا بنادیا گیا ہے وہاں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے بندے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان سمیت ڈیڑھ لاکھ بگٹیوں کو ڈیرہ بگٹی جانے نہیں دیا جارہا ۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے ڈیرہ بگٹی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈیرہ بگٹی میں ترقیاتی کاموں کیلئے تین ارب ساٹھ کروڑ روپے رکھے گئے تھے مگر صرف چالیس کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور اب کام بند پڑا ہے۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ نواب بگٹی ملک کی قدآور شخصیت تھے اور اگر ان کے قتل کا افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا تو بلوچستان کے حالات اتنے خراب نہ ہوتے ۔ انہوں نے چیف سیکرٹری کو کہا کہ نواب بگٹی کے خاندان کا اپنے گھر جانا یقینی بنایا جائے ۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نواب بگٹی نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں میں جائیداد کو تقسیم کیا تھا اور صرف نوابی کا مسئلہ باقی رہ گیا تھا اس لئے نوابی کے سوا ان کی جائیداد کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ ان کی اپنی ابزرویشن یہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں مکمل طور پر خلاء ہے ۔

جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوگی چیف سیکرٹری نے کہا کہ وزیراعلی بلوچستان نے انہیں مکمل سپورٹ دیا ہے اور امید ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ عدالت نے محکمہ پولیس میںسپریم کورٹ کی شولڈر پروموشن سے متعلق حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے اور بلوچستان کے جن اضلاع میں جونیئر آفیسروں کو ڈی پی او لگایا گیا ہے ان احکامات کو آج ہی ختم کرکے وہاں سینئر پولیس افسروں کوتعینات کیا جائے ۔

شولڈر پروموشن کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت سے معذرت کرلی ۔23اگست کو بلوچستان سے غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی سے متعلق عدالت کے حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے چیف سیکرٹری بلوچستان نے بتایا کہ اس سلسلے میں پلان تیار کرلیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں اسلحہ کی برآمدگی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے عدالت نے غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف کارروائی پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے بلوچستان حکومت اور محکمہ کسٹمز کو حکم دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سڑکوں پر کوئی بھی گاڑی غیرقانونی طور پر نہ چلے ۔

تاوان کی غرض سے اغواء ہونے والے شخص محمودالحسن کے بارے میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمہ میں3 افراد نامزد ہیں جن میں سے دو کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ایک گرفتار شخص نے یہ بتایا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ۔پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ محمودالحسن کی بیوی نے ان کے اغواء سے متعلق ایک سیاسی شخصیت کا نام لیا ہے عدالت نے حکم دیا کہ اگر اس سیاسی شخصیت کے خلاف شواہد ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔

صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹرز بلوچستان میں ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے مریضوںکو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹرز لازمی سروس کا حصہ ہیں اور وہ ہڑتال نہیں کرسکتے اس لئے انہیں شوکاز نوٹسز جاری کئے جارہے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ ڈاکٹرز قابل احترام ہیں انہیں ہم کل یہاں بلائیں گے اس لئے انہیں شوکاز نوٹس جاری نہ کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنی ہڑتال ختم کریں اور اگر انہوں نے ہڑتال ختم نہیں کی تو پھر بلوچستان حکومت ان کے خلاف کارروائی میں آزاد ہے ۔ عدالت کو لاپتہ افراد کے کیسز میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا گیا ساڑھے سات گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد درخواست کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

Recommended Stories

Load Next Story