امین فہیم کو ملزم نامزد کرنے پر ایف آئی اے تذبذب کا شکار

سندھ زون کے ڈائریکٹر نے معاملہ ڈی جی کو ریفر کیا انھوں نے واپس سندھ زون کو بھیج دیا

سندھ زون کے ڈائریکٹر نے معاملہ ڈی جی کو ریفر کیا انھوں نے واپس سندھ زون کو بھیج دیا ۔ فوٹو اے پی پی

این آئی سی ایل کرپشن کیس میں ایف آئی اے کے تفتیشی حکام وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کو مقدمے میں باقاعدہ نامزد کرنے کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہیں۔

اس سلسلے میں واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے معاملے کو طول دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ایف آئی اے کے لیگل ڈیپارٹمنٹ نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں وفاقی وزیر کے خلاف چالان پیش کرنے کی اجازت دینے کے بجائے ان کے خلاف ثبوتوں کو ناکافی قرار دے دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق این آئی سی ایل کی جانب سے باغ کورنگی (کراچی) میں تقریبا دگنا قیمت پر خریدی جانے والے 10 ایکڑ اراضی کے سودے میں وفاقی وزیر تجارت اور ان کے اہل خانہ کے نجی اکائونٹس میں منتقل ہونے والی رقم کے معاملے پر ایف آئی اے حکام تاحال کوئی حتمی مؤقف اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

وفاقی وزیر تجارت کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مرکزی ملزم خواجہ اکبر بٹ کے اکائونٹ سے منتقل ہونیوالے 4 کروڑ 10 لاکھ روپے انھیں ڈیفنس میں واقع ان کے بنگلے کی فروخت کے عوض ادا کیے گئے تھے۔

بنگلے کی فروخت کا سودا انھوں نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کے مرحوم ڈائریکٹر جنرل ظفر سلیم لون سے کیا تھا اور چونکہ انھیں سودے کے مطابق مزید 3 کروڑ روپے کی رقم ادا نہیں کی گئی اس لیے انھوں نے ہائیکورٹ کی ڈگری کی مدد سے سودا منسوخ کرکے رقم واپس کردی ہے.


تاہم چند ماہ قبل سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر معظم جاہ انصاری اور دیگر تفتیشی افسران نے اعتراف کیا تھا کہ بنگلے کی فروخت کی ڈیل مشکوک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وصول کی جانے والی کرپشن کی رقم کو قانونی جواز فراہم کرنے کیلیے یہ کہانی تیار کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ملوث ملزمان کے خلاف چالان پیش کرنے کا حکم دیا تھا.

تاہم جب مقدمے کے تفتیشی افسر کی جانب سے وفاقی وزیر اور ان کے دیگر اہل خانہ کو مقدمے میں باقاعدہ نامزد کرکے ان کے خلاف چالان پیش کرنے کی اجازت طلب کی تو ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون معظم جاہ انصاری نے معاملہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ریفر کردیا۔ ذرائع کے مطابق چونکہ معظم جاہ انصاری حکومتی حلقوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے.

اس لیے انھوں نے اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملے کو غیرضروری طور پر طول دینے کیلیے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو معاملہ ریفر کیا، اس دوران معظم جاہ انصاری پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تربیت کیلیے چلے گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایک ماہ سے زائد ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اس فائل کو اپنے پاس رکھے رہے اور چند دن قبل ان کی جانب سے ڈائریکٹر سندھ زون کو جواب دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں جس کیلیے وہ مکمل طور پر بااختیار ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل کے جواب کی روشنی میں حال ہی میں تعینات ہونیوالے موجودہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون محمد مالک نے وفاقی وزیر کو مقدمے میں نامزد کرکے چالان پیش کرنے کا معاملہ قانونی رائے کیلیے ایف آئی اے کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کو ریفر کیا اور لیگل ڈیپارٹمنٹ نے انتہائی سوچ بچار کے بعد اس سلسلے میں واضح مؤقف اختیار کرنے کے بجائے انویسٹی گیشن افسر کی جانب سے وفاقی وزیر کے خلاف جمع کیے گئے.

ثبوتوں کو ناکافی قرار دے دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ مقدمے کو شواہد کے اعتبار سے مزید مضبوط کیا جائے۔ ذرائع نے بتایاکہ ایف آئی اے کے اعلی افسران سپریم کورٹ اور حکومتی حلقوں کی جانب سے دو طرفہ دبائوکا شکار ہیں اور وہ اس معاملے پر آزادانہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
Load Next Story