بجلی کا بل سرکار کی کمائی صارف کی تباہی
ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی سیکٹر کے فوائد کےلیے 1990 کی دہائی میں شروع کیے گئے منصوبوں کو ختم کیا جائے
SAO PAULO:
حکومت نے ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 98 پیسے فی یونٹ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا۔ نیپرا سے منظوری کی صورت میں آئندہ ماہ صارفین پر 10 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ حکومت ہر خسارے کے بعد بوجھ صارفین پر ڈالتی ہے۔ یہ بوجھ عوام پر کیسے ڈالاجاتا ہے اور صارف اس بوجھ کے تلے کیسے دبتا چلا جاتا ہے۔
بلاگ میں موجود تصویر اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک بل کی ہے۔ جس میں 96 یونٹس استعمال کیے گئے ہیں۔ اس میں پہلے 83 یونٹس کی قیمت 14 روپے 38 پیسے ہے، جبکہ اس سے اوپر کے 13 یونٹ کی قیمت 20 روپے 70 پیسے لگائی گئی ہے۔ اس طرح 96 یونٹ کا بل 1462 روپے 64 پیسے بنا۔ یہ کل قیمت ہے اس بجلی کی جو استعمال کی گئی ہے۔ اس قیمت پر حکومت کی جانب سے دو قسم کے ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلا ٹیکس جسے ای ڈی لکھا گیا ہے، اسے الیکٹریسٹی ڈیوٹی کہا جاتا ہے۔ آپ نے جتنی بجلی استعمال کی ہے، اس کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد بل میں صارف پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور یہ آپ کے ہر بل کے اوپر واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اگلا جو ٹیکس دینا ہوتا ہے، وہ ٹیلی وژن فیس ہے۔ یعنی ہر صارف کو یہ پیسے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ آج تک صارفین 35 روپے ٹیلی وژن فیس کی مد میں جمع کراتے آئے ہیں، جبکہ حکومت ان دنوں اس فیس کو بھی سو روپے تک کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ بل میں جو اگلا ٹیکس ہوتا ہے، اسے جی ایس ٹی، یعنی جنرل سیلز ٹیکس کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس عام صارفین کو 17 سے 18 فیصد تک ادا کرنا ہوتا ہے۔
اس بل میں استعمال شدہ بجلی کا 17 فیصد یعنی 261 روپے شامل کیا گیا ہے۔ یہ تو تھے وہ ٹیکسز اور چارجز جو صارفین کو ہر حال میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن اب ہم بجلی کے سب سے خطرناک پہلو کی جانب آپ کو لے کر چلتے ہیں۔ آپ کے بجلی کے بلوں پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یعنی ایف پی اے کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس پہلو کو اگر آسان الفاظ میں سمجھائیں تو اس میں پہلی چیز فیول ہے، یعنی ایندھن۔ ایندھن وہ چیز ہے جس سے بجلی تیار کی جاتی ہے۔ یعنی اگر آپ ہائیڈل پاور سے بجلی تیار کررہے ہیں تو آپ کا ایندھن پانی ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ ونڈ پاور سے بجلی تیار کررہے ہیں تو آپ کا ایندھن ہوا ہوگی۔ جبکہ سولر انرجی سے بجلی تیار کرنے کےلیے سورج کی روشنی ایندھن کہلاتی ہے۔ اگر بجلی تیل سے تیار کی جاتی ہے تو اس کا فیول یا ایندھن تیل ہوگا اور کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی کا فیول کوئلہ ہوتا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ جتنا سستا ایندھن بجلی کی تیاری میں استعمال ہوگا، اتنی ہی سستی بجلی تیار ہوگی۔
1990 کی دہائی میں اس وقت کے حکمرانوں نے قدرتی ذرائع سے سستی بجلی تیار کرنے کے بجائے کچھ نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں، تاکہ وہ بجلی تیار کرکے حکومت کو فروخت کریں۔ حکومت یہ رقم ان کمپنیوں کو ادا کرے گی۔ ان کمپنیوں کو آسان الفاظ میں آئی پی پیز یعنی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں موجود آئی پی پیز وہ کمپنیاں ہیں جو دنیا کے سب سے مہنگے تیل، جو کہ زمین سے نکلتا ہے، اس سے بجلی پیدا کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان ادھار تیل خرید کر آئی پی پیز کو دیتی ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ اس تیل سے بجلی پیدا کریں اور ہمیں فروخت کریں۔ جب دنیا میں خام تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا اوپر جاتی ہیں تو اس فیول کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس مہنگے تیل سے بجلی بھی مہنگی بنتی ہے۔
اس طرح فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وہ رقم ہے جو آپ بجلی کی تیاری میں استعمال ہونے والے تیل کی قیمت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ مذکورہ بل میں 96 یونٹ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 394 روپے 89 پیسے لگائے گئے ہیں۔ یعنی آپ نے جو بجلی استعمال کی، اس کے چارجز تو آپ کو دینا ہی ہوں گے، لیکن ساتھ ہی اس بجلی کی تیاری میں جو تیل استعمال ہوا ہے، اس کی قیمت بھی آپ کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
اس کی مثال ایسے ہی کہ آپ ایک موٹر سائیکل خریدتے ہیں، اس کی کل قیمت ایک لاکھ روپے ہے، لیکن کمپنی آپ سے کہے کہ آپ کو اس میں استعمال ہونے والے ٹائروں کے ربڑ کے پیسے، اس پر ہونے والے پینٹ کے پیسے اور جن مزدوروں نے اس موٹر سائیکل کی تیاری میں حصہ لیا، ان کے پیسے اور جس عمارت میں یہ موٹرسائیکل تیار کی گئی اس کی بجلی کے پیسے بھی آپ کو الگ سے ادا کرنے ہوں گے۔ یقیناً آپ اس کمپنی کی اس توجیہہ پر حیران ہوں گے۔ یہاں ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ ہم بجلی کے پیسے تو ادا کرہی رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس بجلی کی تیاری میں استعمال ہونے والے فیول کے پیسے بھی ہمیں ہی ادا کرنے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ پوری دنیا میں بجلی کی تیاری گرین انرجی، یعنی قدرتی ذرائع سے کی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ سستے ترین توانائی کے ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو گرین انرجی کی بے پناہ دولت عطا کر رکھی ہے۔ پاکستان بھر میں سارا سال دھوپ رہتی ہے۔ سولر انرجی کے ذریعے پورے ملک کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ ارض پاک کے شمالی علاقہ جات پانی کی دولت سے مالا مال ہیں، جہاں پن بجلی کے سیکڑوں منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان سارا سال سمندری ہواؤں کی لپیٹ میں رہتے ہیں، جن سے وِنڈ انرجی تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ناقص منصوبہ بندی اور جدت کے بجائے ہم آج بھی خام تیل اور کوئلے کے ذریعے بجلی کی تیاری کررہے ہیں۔ یعنی ہم بجلی کی تیاری کےلیے دنیا کے مہنگے ترین ذریعے سے بجلی تیار کرتے ہیں اور اس کےلیے نجی کمپنیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
پالیسی ساز اداروں کو ہم قوم کی رائے ہی پہنچا سکتے ہیں، لیکن صارفین کے مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے۔ آپ کو ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ آپ نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پیسے تو ادا کردیے، لیکن اس فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم پر بھی آپ کو جنرل ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ آپ نے بجلی بنانے کےلیے استعمال ہونے والے تیل کے پیسے ادا کیے، اس پر بھی دوبارہ جنرل سیلز ٹیکس ادا کیا، جبکہ ایک بار پھر آپ کو الیکٹریسٹی ڈیوٹی بھی ادا کرنا پڑے گی۔ یعنی جب تک قوم کی جان آئی پی پیز سے نہیں چھوٹتی، اس وقت تک ہمیں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافی رقم ادا کرنا پڑتی رہے گی۔
آپ کے بلوں میں ایک اور اضافی رقم جو ملک بھر کے صارفین ادا کرتے ہیں، وہ ہے نیلم جہلم سر چارج۔ یہ رقم بل میں ڈیم کی تعمیر کےلیے صارفین سے وصول کی جارہی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر اپریل 2018 میں مکمل ہوچکی ہے، جبکہ 969 میگا واٹ کے اس منصوبے سے 14 اگست 2018 سے بجلی بھی حاصل کی جارہی ہے۔ لیکن آج بھی پاکستان بھر کے صارفین اپنے کل بلوں کا ایک فیصد یعنی 1994 روپے کے بل پر 20 روپے نیلم جہلم سرچارج کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کررہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اگر منصوبے کی تعمیر کےلیے صارفین سے رقم وصول کی جارہی تھی تو منصوبے کی تکمیل کے بعد اس رقم کو ختم کیوں نہیں کیا جارہا؟
ضرورت اس امر کی ہےکہ نجی سیکٹر کے فوائد کےلیے 1990 کی دہائی میں شروع کیے گئے منصوبوں کو ختم کیا جائے اور مہنگے ذرائع سے بجلی تیار کرنے کے بجائے سستے ذرائع سورج، پانی اور بجلی کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جائے۔ جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ماحول دوست اور کم خرچ بالا نشین ہیں۔ لیکن ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی سستے ذرائع استعمال کرنے کے بجائے مہنگے داموں ہی بجلی کی تیاری پر فوکس کررہی ہے، جو کہ عام شہریوں کےلیے خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکومت نے ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 98 پیسے فی یونٹ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا۔ نیپرا سے منظوری کی صورت میں آئندہ ماہ صارفین پر 10 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ حکومت ہر خسارے کے بعد بوجھ صارفین پر ڈالتی ہے۔ یہ بوجھ عوام پر کیسے ڈالاجاتا ہے اور صارف اس بوجھ کے تلے کیسے دبتا چلا جاتا ہے۔
بلاگ میں موجود تصویر اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک بل کی ہے۔ جس میں 96 یونٹس استعمال کیے گئے ہیں۔ اس میں پہلے 83 یونٹس کی قیمت 14 روپے 38 پیسے ہے، جبکہ اس سے اوپر کے 13 یونٹ کی قیمت 20 روپے 70 پیسے لگائی گئی ہے۔ اس طرح 96 یونٹ کا بل 1462 روپے 64 پیسے بنا۔ یہ کل قیمت ہے اس بجلی کی جو استعمال کی گئی ہے۔ اس قیمت پر حکومت کی جانب سے دو قسم کے ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلا ٹیکس جسے ای ڈی لکھا گیا ہے، اسے الیکٹریسٹی ڈیوٹی کہا جاتا ہے۔ آپ نے جتنی بجلی استعمال کی ہے، اس کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد بل میں صارف پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور یہ آپ کے ہر بل کے اوپر واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اگلا جو ٹیکس دینا ہوتا ہے، وہ ٹیلی وژن فیس ہے۔ یعنی ہر صارف کو یہ پیسے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ آج تک صارفین 35 روپے ٹیلی وژن فیس کی مد میں جمع کراتے آئے ہیں، جبکہ حکومت ان دنوں اس فیس کو بھی سو روپے تک کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ بل میں جو اگلا ٹیکس ہوتا ہے، اسے جی ایس ٹی، یعنی جنرل سیلز ٹیکس کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس عام صارفین کو 17 سے 18 فیصد تک ادا کرنا ہوتا ہے۔
اس بل میں استعمال شدہ بجلی کا 17 فیصد یعنی 261 روپے شامل کیا گیا ہے۔ یہ تو تھے وہ ٹیکسز اور چارجز جو صارفین کو ہر حال میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن اب ہم بجلی کے سب سے خطرناک پہلو کی جانب آپ کو لے کر چلتے ہیں۔ آپ کے بجلی کے بلوں پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یعنی ایف پی اے کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس پہلو کو اگر آسان الفاظ میں سمجھائیں تو اس میں پہلی چیز فیول ہے، یعنی ایندھن۔ ایندھن وہ چیز ہے جس سے بجلی تیار کی جاتی ہے۔ یعنی اگر آپ ہائیڈل پاور سے بجلی تیار کررہے ہیں تو آپ کا ایندھن پانی ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ ونڈ پاور سے بجلی تیار کررہے ہیں تو آپ کا ایندھن ہوا ہوگی۔ جبکہ سولر انرجی سے بجلی تیار کرنے کےلیے سورج کی روشنی ایندھن کہلاتی ہے۔ اگر بجلی تیل سے تیار کی جاتی ہے تو اس کا فیول یا ایندھن تیل ہوگا اور کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی کا فیول کوئلہ ہوتا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ جتنا سستا ایندھن بجلی کی تیاری میں استعمال ہوگا، اتنی ہی سستی بجلی تیار ہوگی۔
1990 کی دہائی میں اس وقت کے حکمرانوں نے قدرتی ذرائع سے سستی بجلی تیار کرنے کے بجائے کچھ نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں، تاکہ وہ بجلی تیار کرکے حکومت کو فروخت کریں۔ حکومت یہ رقم ان کمپنیوں کو ادا کرے گی۔ ان کمپنیوں کو آسان الفاظ میں آئی پی پیز یعنی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں موجود آئی پی پیز وہ کمپنیاں ہیں جو دنیا کے سب سے مہنگے تیل، جو کہ زمین سے نکلتا ہے، اس سے بجلی پیدا کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان ادھار تیل خرید کر آئی پی پیز کو دیتی ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ اس تیل سے بجلی پیدا کریں اور ہمیں فروخت کریں۔ جب دنیا میں خام تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا اوپر جاتی ہیں تو اس فیول کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس مہنگے تیل سے بجلی بھی مہنگی بنتی ہے۔
اس طرح فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وہ رقم ہے جو آپ بجلی کی تیاری میں استعمال ہونے والے تیل کی قیمت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ مذکورہ بل میں 96 یونٹ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 394 روپے 89 پیسے لگائے گئے ہیں۔ یعنی آپ نے جو بجلی استعمال کی، اس کے چارجز تو آپ کو دینا ہی ہوں گے، لیکن ساتھ ہی اس بجلی کی تیاری میں جو تیل استعمال ہوا ہے، اس کی قیمت بھی آپ کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
اس کی مثال ایسے ہی کہ آپ ایک موٹر سائیکل خریدتے ہیں، اس کی کل قیمت ایک لاکھ روپے ہے، لیکن کمپنی آپ سے کہے کہ آپ کو اس میں استعمال ہونے والے ٹائروں کے ربڑ کے پیسے، اس پر ہونے والے پینٹ کے پیسے اور جن مزدوروں نے اس موٹر سائیکل کی تیاری میں حصہ لیا، ان کے پیسے اور جس عمارت میں یہ موٹرسائیکل تیار کی گئی اس کی بجلی کے پیسے بھی آپ کو الگ سے ادا کرنے ہوں گے۔ یقیناً آپ اس کمپنی کی اس توجیہہ پر حیران ہوں گے۔ یہاں ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ ہم بجلی کے پیسے تو ادا کرہی رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس بجلی کی تیاری میں استعمال ہونے والے فیول کے پیسے بھی ہمیں ہی ادا کرنے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ پوری دنیا میں بجلی کی تیاری گرین انرجی، یعنی قدرتی ذرائع سے کی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ سستے ترین توانائی کے ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو گرین انرجی کی بے پناہ دولت عطا کر رکھی ہے۔ پاکستان بھر میں سارا سال دھوپ رہتی ہے۔ سولر انرجی کے ذریعے پورے ملک کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ ارض پاک کے شمالی علاقہ جات پانی کی دولت سے مالا مال ہیں، جہاں پن بجلی کے سیکڑوں منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان سارا سال سمندری ہواؤں کی لپیٹ میں رہتے ہیں، جن سے وِنڈ انرجی تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ناقص منصوبہ بندی اور جدت کے بجائے ہم آج بھی خام تیل اور کوئلے کے ذریعے بجلی کی تیاری کررہے ہیں۔ یعنی ہم بجلی کی تیاری کےلیے دنیا کے مہنگے ترین ذریعے سے بجلی تیار کرتے ہیں اور اس کےلیے نجی کمپنیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
پالیسی ساز اداروں کو ہم قوم کی رائے ہی پہنچا سکتے ہیں، لیکن صارفین کے مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے۔ آپ کو ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ آپ نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پیسے تو ادا کردیے، لیکن اس فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم پر بھی آپ کو جنرل ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ آپ نے بجلی بنانے کےلیے استعمال ہونے والے تیل کے پیسے ادا کیے، اس پر بھی دوبارہ جنرل سیلز ٹیکس ادا کیا، جبکہ ایک بار پھر آپ کو الیکٹریسٹی ڈیوٹی بھی ادا کرنا پڑے گی۔ یعنی جب تک قوم کی جان آئی پی پیز سے نہیں چھوٹتی، اس وقت تک ہمیں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافی رقم ادا کرنا پڑتی رہے گی۔
آپ کے بلوں میں ایک اور اضافی رقم جو ملک بھر کے صارفین ادا کرتے ہیں، وہ ہے نیلم جہلم سر چارج۔ یہ رقم بل میں ڈیم کی تعمیر کےلیے صارفین سے وصول کی جارہی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر اپریل 2018 میں مکمل ہوچکی ہے، جبکہ 969 میگا واٹ کے اس منصوبے سے 14 اگست 2018 سے بجلی بھی حاصل کی جارہی ہے۔ لیکن آج بھی پاکستان بھر کے صارفین اپنے کل بلوں کا ایک فیصد یعنی 1994 روپے کے بل پر 20 روپے نیلم جہلم سرچارج کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کررہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اگر منصوبے کی تعمیر کےلیے صارفین سے رقم وصول کی جارہی تھی تو منصوبے کی تکمیل کے بعد اس رقم کو ختم کیوں نہیں کیا جارہا؟
ضرورت اس امر کی ہےکہ نجی سیکٹر کے فوائد کےلیے 1990 کی دہائی میں شروع کیے گئے منصوبوں کو ختم کیا جائے اور مہنگے ذرائع سے بجلی تیار کرنے کے بجائے سستے ذرائع سورج، پانی اور بجلی کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جائے۔ جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ماحول دوست اور کم خرچ بالا نشین ہیں۔ لیکن ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی سستے ذرائع استعمال کرنے کے بجائے مہنگے داموں ہی بجلی کی تیاری پر فوکس کررہی ہے، جو کہ عام شہریوں کےلیے خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔