چین کے خلاف ’’انفارمیشن وارفیئر‘‘ اور ووہان وائرس
عالمی سیاست کا یہ نظام بہت پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کےلیے ہمارے ذہنوں کو پیچیدگی سے نبرد آزما ہونے کےلیے تیار رہنا چاہیے
ساری دنیا ''ووہان وائرس'' سے خوفزدہ ہے، جسے طبّی زبان میں ''ناول کورونا وائرس 2019'' کا نام دیا گیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبریں دیکھیں تو یوں لگے گا کہ جیسے دنیا کی اگلی سب سے ہلاکت خیز عالمی وبا کی وجہ یہی ووہان وائرس ہوگا، جس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوں گے۔ خوف کی اس فضا کو سوشل میڈیا کے طفیل پھیلنے والی جھوٹی معلومات اور ''ٹیبلائیڈ'' قسم کے اخبارات، جرائد اور ویب سائٹس سے جاری ہونے والی خبروں اور ویڈیو کلپس نے مزید دو آتشہ بنا دیا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک خوفزدہ نظروں سے چین کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اگر انہیں اپنے ملک میں دُور سے بھی کوئی چینی (یا چینی جیسا دکھائی دینے والا) کوئی شخص نظر آجائے، تو وہ اس سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ووہان وائرس کے بارے میں عالمی میڈیا (پاکستان سمیت) اتنی بھیانک اور خوفناک خبریں کیوں دے رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عالمی میڈیا میں چینی حکومت کے اقدامات پر کم باتیں ہورہی ہیں جبکہ اس سے پھیلنے والی ''ممکنہ عالمی تباہی'' کے ''امکانات'' کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مثال کے ذریعے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
مغربی میڈیا کو ہم اتنا زیادہ معتبر سمجھتے ہیں کہ سی این این اور بی بی سی پر چلنے والی خبروں کو، نعوذ باللہ، آسمانی صحیفے کی طرح من و عن قبول کرلیتے ہیں اور ان پر ایمان بھی لے آتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں صحافیوں کی اکثریت بھی اسی ذہنی غلامی کا شکار ہے کہ جو کچھ، اور جیسا کچھ ''مغرب کے مشہور'' ذرائع ابلاغ سے آیا ہے، بس وہی درست ہے، باقی سب غلط ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ہمارے بیشتر میڈیا ہاؤسز، خاص کر مین اسٹریم میڈیا ہاؤسز، عملاً مغربی میڈیا کے ''غیراعلانیہ ماؤتھ پیس'' بنے ہوئے ہیں۔
جب سے ووہان وائرس کا ظہور ہوا ہے، مغربی میڈیا مسلسل چین میں ''لاک ڈاؤن'' (Lockdown) کا تذکرہ کررہا ہے؛ اور ''لاک ڈاؤن'' کے استعمال کی دوڑ میں لگ بھگ تمام امریکی اور برطانوی نشریاتی ادارے برابر کے شریک ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پاکستانی میڈیا بھی ''چین میں لاک ڈاؤن'' کا راگ الاپنے میں لگا ہوا ہے، کیونکہ ''سی این این اور بی بی سی یہی لفظ استعمال کررہے ہیں۔ کیا وہ غلط ہوسکتے ہیں؟'' حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان شہروں کو ''قرنطینہ'' (Quarantine) کیا گیا ہے۔ اگر آپ حیران ہورہے ہیں کہ قرنطینہ کس بلا کا نام ہے اور یہ ہمارے جانے پہچانے لاک ڈاؤن سے کیونکر مختلف ہے؟ تو اس بارے میں بھی مختصراً بتائے دیتا ہوں۔
لاک ڈاؤن: یہ کسی علاقے یا جگہ کی ایسی بندش ہے جہاں امن و امان کی صورتِ حال قابو سے باہر ہوچکی ہو یا پھر بڑے پیمانے پر احتجاج، ہنگامہ آرائی، بغاوت اور بدامنی کا خطرہ ہو۔ لاک ڈاؤن کے تحت کسی علاقے میں بڑے پیمانے پر کرفیو جیسی صورتِ حال ہوتی ہے اور (جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے) بنیادی انسانی حقوق تک معطل کردیئے جاتے ہیں۔ حالات کو ریاست/ حکومت کے حق میں رکھنے کےلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرمعمولی طور پر زیادہ اختیار دے دیئے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ ''لاک ڈاؤن'' کیے گئے علاقوں میں چوبیس گھنٹے فوجی گشت تک جاری رہتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ''لاک ڈاؤن'' خالصتاً ایک سیاسی اصطلاح ہے جسے ہم ''بڑی تعداد میں انسانوں کی جبری نظربندی'' سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔
قرنطینہ: یہ ایک طبّی اصطلاح ہے، جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر کسی علاقے میں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے اور یہ خطرہ ہو کہ وہ مرض دوسرے علاقوں تک پھیل کر زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا، تو ایسے میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے اس علاقے کو دیگر علاقوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ نہ تو وہاں رہنے والے لوگ کسی دوسری جگہ جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسری جگہ سے آنے والوں کو (سوائے خصوصی انتظامات و مستثنیات کے) اس علاقے میں داخل ہونے دیا جاتا ہے؛ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ ان میں اس مرض کے جراثیم یا وائرس، ظاہری علامات کے بغیر، موجود ہوں، جو بڑی خاموشی سے دوسرے مقامات تک منتقل ہوجائیں اور اس وبائی مرض کے دائرے اور شدت، دونوں میں اضافہ کردیں۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دوسرے شہر سے آیا ہوا مہمان، اس بیماری سے متاثر ہوجائے اور اپنے ملک/ شہر واپس جاکر یہ بیماری وہاں تک پھیلا دے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ اگرچہ بڑے پیمانے پر قرنطینہ کے اقدامات کسی ریاست/ حکومت ہی کی جانب سے کیے جاتے ہیں لیکن وہ ''میڈیکل ایمرجنسی'' کے پیشِ نظر کیے گئے حفاظتی اقدامات ہوتے ہیں، ان کا مقصد کسی کو جبراً قید و بند یا حراست میں رکھنا نہیں ہوتا۔
اب آپ خود سوچیے کہ ہر چیز کو ''درست'' اور ''ٹھیک ٹھیک'' بیان کرنے پر زور دینے والا مغربی میڈیا، ووہان وائرس کے معاملے میں ایک غلط لفظ بار بار کیوں استعمال کررہا ہے؟
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد آپ کو میری تحریر میں چین کے خلاف ''انفارمیشن وارفیئر'' کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہوگئی ہوں گی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں چینی ووہان وائرس کی تباہی اور ہلاکت خیزی کے چرچے ہیں۔ اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ چین سمیت، دنیا بھر میں ووہان وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد سات ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس سے ہلاکتوں کی تعداد بھی 200 کے قریب ہے، شبہ ہے کہ ووہان میں رہنے والے چار پاکستانی طالب علم بھی اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن اب تک چین سے باہر اس وائرس سے ایک موت بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اب ذرا رُخ بدلتے ہیں اور امریکا کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہاں پر کیا چل رہا ہے...
ووہان وائرس کے آنے سے پہلے ہی امریکا میں انفلوئنزا وائرس (فلُو وائرس) کی وبا پھیل چکی تھی۔ امریکی سرکاری ادارے ''سی ڈی سی'' (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن) کی اپنی جاری کردہ، تازہ رپورٹ کے مطابق، اندازہ ہے کہ امریکا میں اس وقت انفلوئنزا کی تازہ وبا سے وہاں مجموعی طور پر 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) افراد متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 140,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار) افراد کو اسپتالوں میں داخل کرایا جاچکا ہے؛ جبکہ 8,200 افراد اسی انفلوئنزا کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ اعداد و شمار صرف حالیہ ''فلُو سیزن'' سے تعلق رکھتے ہیں جو 2019 کے اختتامی دنوں میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
کتنی عجیب بات ہے، امریکی میڈیا نے اپنے ملک میں انفلوئنزا سے 8,200 اموات پر تو مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن اس میڈیا کو چین میں ووہان وائرس سے مرنے والے 200 افراد بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔ باقی کے اعداد و شمار بھی آپ کے سامنے ہیں، آپ خود موازنہ کرسکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، یہ تو اور بھی اچھا ہوگا۔
کہیں امریکی میڈیا کی یہ حکمتِ عملی اس لیے تو نہیں کہ چین میں وائرس کا اتنا شور مچایا جائے کہ لوگوں کو امریکا میں اندرونی طور پر جاری، شدید طبّی بحران کی طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہ مل پائے اور سب لوگ ''ووہان وائرس'' کے پیچھے لگے رہیں؟
میں اس سوال کا جواب خود نہیں دوں گا بلکہ آپ کو دعوت دوں گا کہ خود اس بارے میں تحقیق کیجیے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش بھی کیجیے۔
یادش بخیر! آنجہانی ماہرِ مستقبلیات ایلون ٹوفلر نے 1990 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ''پاور شفٹ'' میں لکھا تھا کہ طاقت (پاور) کبھی کسی ایک ملک یا بلاک میں جمع نہیں رہتی بلکہ یہ ''شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال'' کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ اپنے اس دعوے کو جہاں انہوں نے تاریخی مثالوں سے ثابت کیا، وہیں یہ بھی کہا کہ اس وقت سیاسی، معاشی اور عسکری طاقت اُن ممالک میں مرکوز ہے جو (دنیا کے نقشے پر) شمال کی طرف واقع ہیں۔ لیکن یہ طاقت زیادہ عرصے تک شمال میں برقرار نہیں رہے گی بلکہ جنوب کی سمت اس کی منتقلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ٹوفلر کا اشارہ چین، برصغیر، مشرق بعید، مشرقِ وسطی اور مشرقی ایشیا میں واقع ممالک کی طرف تھا... اور اتفاق سے اب وہی سب کچھ ہورہا ہے جیسی ٹوفلر نے پیش گوئی کی تھی۔
مغربی ممالک، بالخصوص امریکا اور برطانیہ کو اپنی سیاسی، معاشی اور عسکری بالادستی خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے... ایشیا میں چین صرف اکیلا ہی ایک نئی سپر پاور کے طور پر نہیں ابھر رہا، بلکہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے انہیں بھی آگے بڑھنے میں مدد دے رہا ہے۔ اس تبدیلی کے راستے میں مغربی ممالک خاموشی کے ساتھ شدید رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان کے ذرائع ابلاغ میں چین سے متعلق چھوٹی چھوٹی خبروں کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر، اور نمک مرچ لگا کر، بیان کرنا بہت عام سی بات ہے۔ اس کے برعکس، چین کے بارے میں بڑی بڑی مثبت خبریں مغربی میڈیا پر یا تو پیش ہی نہیں کی جاتیں یا پھر مثبت خبر میں پوشیدہ ممکنہ منفی پہلو کو اجاگر کرنے پر سارا زور لگا دیا جاتا ہے۔
امید ہے کہ اب آپ چین کے بارے میں مغربی میڈیا کی منفی رپورٹنگ کے ''اغراض و مقاصد'' سے بخوبی واقف ہوچکے ہوں گے۔
آج سے صرف ساٹھ ستر سال پہلے تک چینیوں کو ''افیمچی قوم'' کہا جاتا تھا۔ لیکن اس ایک ملک نے جس طرح اپنے آپ کو بدلا اور آج کے ترقی یافتہ ممالک تک کو پیچھے چھوڑا، یہ بات اپنے آپ میں نہ صرف حیرت انگیز بلکہ غور طلب بھی ہے۔ خیر، یہ الگ بحث ہے لیکن یہاں اس خوف کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو مغربی دنیا میں چینی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔
پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم ''سی پیک'' کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن نسبتاً کم لوگ ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو) سے واقف ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سڑکوں، شاہراہوں، بندرگاہوں اور تجارتی سمندری راستوں کے ذریعے ایشیا کو یورپ اور افریقہ تک سے مربوط کردیا جائے گا جبکہ چالیس کے لگ بھگ ممالک کو غربت کی دلدل سے نکلنے کا موقع بھی ملے گا۔ ایک اندازے کے مطابق، چین کے صرف اس ایک منصوبے کی لاگت 8000 ارب ڈالر (8 ٹریلین ڈالر) ہے... اتنی بڑی لاگت والے منصوبوں کے بارے میں مغربی فکشن نگار صرف کہانیاں لکھ سکتے ہیں، ورنہ وہاں کی حکومتیں اتنے بڑے منصوبوں کے بارے میں سوچنے کی بھی ہمت نہیں رکھتیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے جن ملکوں کو فائدہ پہنچے گا (اور جو ممکنہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل بھی ہوسکیں گے) وہ تقریباً تمام کے تمام وہی ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی مغربی ملک کی ''نوآبادی'' (کالونی)، یعنی غلام ممالک رہ چکے ہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ جو مغربی ممالک آج بھی غیر اعلانیہ طور پر ہمارے ''آقا'' بنے ہوئے ہیں، وہ کس طرح ہمیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ جیسے اداروں کے شکنجے سے نکلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں؟ جبکہ یہ ادارے خود ان ہی مغربی ممالک کے آلہ کار اور ''معاشی غارت گر'' (Economic Hitmen) ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کو من پسند شرائط پر قرضے دے کر نہ صرف ان کی معیشت کو کھوکھلا کرتے ہیں بلکہ اپنے ''قیمتی مشوروں'' کے طفیل، قرض پر دی گئی اس رقم کو بے رحمی سے ضائع بھی کرواتے ہیں۔
بہ الفاظِ دیگر، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ صرف چین ہی نہیں بلکہ درجنوں دوسرے ممالک کی معیشت کو انقلاب سے ہمکنار کرنے اور طاقت کو ایک بار پھر شمال سے جنوب کی طرف منتقل کرنے کی غالباً سب سے غیرمعمولی کوشش ہے... اگر آج چین کو نہیں روکا گیا تو اس صدی کے وسط تک مشرق، اپنی مجموعی حیثیت میں، ایک بار پھر ترقی یافتہ ہوجائے گا۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ میں چین کے خلاف ''منفی رپورٹنگ'' کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا؛ اور ووہان وائرس سے تو گویا ان کی چاندی ہوگئی ہے۔ اس ایک وائرس کا شور مچا کر وہ چین کو دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے روک سکیں گے۔
راقم کیونکہ سائنسی صحافی ہے، اس لیے سائنسی تحقیق (سائنٹیفک ریسرچ) اور اس سے ہونے والے معاشی و معاشرتی فوائد پر بات کیے بغیر اپنی بات مکمل نہیں کرسکتا۔ ذیل میں آپ کی توجہ کےلیے صرف چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا:
دنیا کی بہترین جامعات (یونیورسٹیز) میں آج چین سے کئی جامعات کے نام بھی شامل ہوچکے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ چین نے اپنے یہاں اعلیٰ تعلیم کا معیار کس قدر بلند کرلیا ہے۔ علمی میدان میں چین کی یہ پیش رفت بھی مغربی ممالک کی بالادستی کےلیے خطرے کی گھنٹی سے کچھ کم نہیں۔
یونیورسٹیز، ریسرچ پیپرز اور عالمی رینکنگ سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوگا کہ چین میں ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی بہت وسیع ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین 2030 تک ہوا سے اتنی زیادہ بجلی بنا رہا ہوگا کہ اتنی ہوائی توانائی (وِنڈ انرجی)، جتنی تمام یورپی ممالک مل کر بھی پیدا نہیں کر رہے ہوں گے۔
سرد جنگ کے زمانے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ جس طرح فشن (fission) سے بجلی بنانے والے ''ایٹمی بجلی گھر'' بنالیے گئے ہیں، ٹھیک اسی طرح فیوژن (fusion) سے بجلی بنانے کے قابل ''تھرمونیوکلیئر بجلی گھر'' تیار کرلیے جائیں جو معاشی طور پر نفع بخش بھی ہوں۔ اس میدان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس اور دیگر کئی ممالک کی مشترکہ کوششیں بھی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں؛ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ تھرمو نیوکلیئر پاور ری ایکٹر بنانے کا یہ عالمگیر منصوبہ کب تک کامیاب ہوگا؟ اس کے برعکس، چین نے گزشتہ برس اعلان کردیا تھا کہ اس سال، یعنی 2020 میں، اس کا اپنے وسائل سے تیار کردہ تھرمونیوکلیئر بجلی گھر اپنا کام شروع کردے گا۔ اس کی تیاریاں تقریباً مکمل ہیں، صرف افتتاح کی حتمی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین کا ''زمینی سورج'' اس سال کام شروع کردے گا
موبائل انٹرنیٹ کے میدان میں جدید ترین ''فائیو جی ٹیکنالوجی'' کے چرچے جگہ جگہ ہورہے ہیں... اس ٹیکنالوجی کے فروغ میں بھی چین دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود، مختلف یورپی ممالک کو فائیو جی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں بھی اس وقت چین ہی سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
2018 میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی عالمی مارکیٹ (اس کے لانچ ہونے سے پہلے ہی) تقریباً 43 ارب ڈالر تھی۔ اندازہ ہے کہ 2025 تک اس میں 56.7 فیصد کا غیرمعمولی سالانہ مرکب اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی عالمی مارکیٹ کا حجم، آئندہ پانچ سال کے دوران، ایک ٹریلین (1000 ارب ڈالر) پر پہنچ چکا ہوگا، جس میں ممکنہ طور پر چین کا سب سے بڑا حصہ ہوگا۔
اب آپ خود ہی بتائیے کہ جن مغربی ممالک نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہو، وہ کیسے یہ برداشت کریں گے کہ بالادستی کا تاج ان کے سر سے اتار کر ایک ایسی قوم کے سر پر سجا دیا جائے جسے اہلِ مغرب انتہائی کم تر سمجھتے ہیں۔
امید ہے کہ چین کے خلاف (امریکی قیادت میں) ووہان وائرس کی آڑ میں جاری ''اطلاعاتی جنگ'' (انفارمیشن وارفیئر) کی غرض و غایت اب آپ کی سمجھ میں بخوبی آگئی ہوگی۔
ہوسکتا ہے کہ میرا یہ تجزیہ حرف بحرف غلط ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے اخذ کردہ نتائج میں اتنی زیادہ سچائی ہو کہ جس کا احساس خود مجھے بھی نہ ہو۔ میں اپنے درست ہونے کا دعویدار ہرگز نہیں، لیکن اتنا ضرور چاہوں گا کہ لگی بندھی میڈیا رپورٹوں، مخصوص تجزیوں اور سازشی نظریات سے ہٹ کر، معقولیت پسندانہ انداز میں کچھ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
عالمی سیاستِ دوراں کا یہ نظام بہت پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کےلیے ہمارے ذہنوں کو بھی پیچیدگی سے نبرد آزما ہونے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک خوفزدہ نظروں سے چین کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اگر انہیں اپنے ملک میں دُور سے بھی کوئی چینی (یا چینی جیسا دکھائی دینے والا) کوئی شخص نظر آجائے، تو وہ اس سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ووہان وائرس کے بارے میں عالمی میڈیا (پاکستان سمیت) اتنی بھیانک اور خوفناک خبریں کیوں دے رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عالمی میڈیا میں چینی حکومت کے اقدامات پر کم باتیں ہورہی ہیں جبکہ اس سے پھیلنے والی ''ممکنہ عالمی تباہی'' کے ''امکانات'' کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مثال کے ذریعے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
چین میں لاک ڈاؤن ہے یا قرنطینہ؟
مغربی میڈیا کو ہم اتنا زیادہ معتبر سمجھتے ہیں کہ سی این این اور بی بی سی پر چلنے والی خبروں کو، نعوذ باللہ، آسمانی صحیفے کی طرح من و عن قبول کرلیتے ہیں اور ان پر ایمان بھی لے آتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں صحافیوں کی اکثریت بھی اسی ذہنی غلامی کا شکار ہے کہ جو کچھ، اور جیسا کچھ ''مغرب کے مشہور'' ذرائع ابلاغ سے آیا ہے، بس وہی درست ہے، باقی سب غلط ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ہمارے بیشتر میڈیا ہاؤسز، خاص کر مین اسٹریم میڈیا ہاؤسز، عملاً مغربی میڈیا کے ''غیراعلانیہ ماؤتھ پیس'' بنے ہوئے ہیں۔
جب سے ووہان وائرس کا ظہور ہوا ہے، مغربی میڈیا مسلسل چین میں ''لاک ڈاؤن'' (Lockdown) کا تذکرہ کررہا ہے؛ اور ''لاک ڈاؤن'' کے استعمال کی دوڑ میں لگ بھگ تمام امریکی اور برطانوی نشریاتی ادارے برابر کے شریک ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پاکستانی میڈیا بھی ''چین میں لاک ڈاؤن'' کا راگ الاپنے میں لگا ہوا ہے، کیونکہ ''سی این این اور بی بی سی یہی لفظ استعمال کررہے ہیں۔ کیا وہ غلط ہوسکتے ہیں؟'' حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان شہروں کو ''قرنطینہ'' (Quarantine) کیا گیا ہے۔ اگر آپ حیران ہورہے ہیں کہ قرنطینہ کس بلا کا نام ہے اور یہ ہمارے جانے پہچانے لاک ڈاؤن سے کیونکر مختلف ہے؟ تو اس بارے میں بھی مختصراً بتائے دیتا ہوں۔
لاک ڈاؤن: یہ کسی علاقے یا جگہ کی ایسی بندش ہے جہاں امن و امان کی صورتِ حال قابو سے باہر ہوچکی ہو یا پھر بڑے پیمانے پر احتجاج، ہنگامہ آرائی، بغاوت اور بدامنی کا خطرہ ہو۔ لاک ڈاؤن کے تحت کسی علاقے میں بڑے پیمانے پر کرفیو جیسی صورتِ حال ہوتی ہے اور (جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے) بنیادی انسانی حقوق تک معطل کردیئے جاتے ہیں۔ حالات کو ریاست/ حکومت کے حق میں رکھنے کےلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرمعمولی طور پر زیادہ اختیار دے دیئے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ ''لاک ڈاؤن'' کیے گئے علاقوں میں چوبیس گھنٹے فوجی گشت تک جاری رہتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ''لاک ڈاؤن'' خالصتاً ایک سیاسی اصطلاح ہے جسے ہم ''بڑی تعداد میں انسانوں کی جبری نظربندی'' سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔
قرنطینہ: یہ ایک طبّی اصطلاح ہے، جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر کسی علاقے میں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے اور یہ خطرہ ہو کہ وہ مرض دوسرے علاقوں تک پھیل کر زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا، تو ایسے میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے اس علاقے کو دیگر علاقوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ نہ تو وہاں رہنے والے لوگ کسی دوسری جگہ جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسری جگہ سے آنے والوں کو (سوائے خصوصی انتظامات و مستثنیات کے) اس علاقے میں داخل ہونے دیا جاتا ہے؛ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ ان میں اس مرض کے جراثیم یا وائرس، ظاہری علامات کے بغیر، موجود ہوں، جو بڑی خاموشی سے دوسرے مقامات تک منتقل ہوجائیں اور اس وبائی مرض کے دائرے اور شدت، دونوں میں اضافہ کردیں۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دوسرے شہر سے آیا ہوا مہمان، اس بیماری سے متاثر ہوجائے اور اپنے ملک/ شہر واپس جاکر یہ بیماری وہاں تک پھیلا دے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ اگرچہ بڑے پیمانے پر قرنطینہ کے اقدامات کسی ریاست/ حکومت ہی کی جانب سے کیے جاتے ہیں لیکن وہ ''میڈیکل ایمرجنسی'' کے پیشِ نظر کیے گئے حفاظتی اقدامات ہوتے ہیں، ان کا مقصد کسی کو جبراً قید و بند یا حراست میں رکھنا نہیں ہوتا۔
اب آپ خود سوچیے کہ ہر چیز کو ''درست'' اور ''ٹھیک ٹھیک'' بیان کرنے پر زور دینے والا مغربی میڈیا، ووہان وائرس کے معاملے میں ایک غلط لفظ بار بار کیوں استعمال کررہا ہے؟
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد آپ کو میری تحریر میں چین کے خلاف ''انفارمیشن وارفیئر'' کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہوگئی ہوں گی۔
چینی ''ووہان'' یا امریکی ''انفلوئنزا'' وائرس زیادہ ہلاکت خیز ہے؟
کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں چینی ووہان وائرس کی تباہی اور ہلاکت خیزی کے چرچے ہیں۔ اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ چین سمیت، دنیا بھر میں ووہان وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد سات ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس سے ہلاکتوں کی تعداد بھی 200 کے قریب ہے، شبہ ہے کہ ووہان میں رہنے والے چار پاکستانی طالب علم بھی اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن اب تک چین سے باہر اس وائرس سے ایک موت بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اب ذرا رُخ بدلتے ہیں اور امریکا کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہاں پر کیا چل رہا ہے...
ووہان وائرس کے آنے سے پہلے ہی امریکا میں انفلوئنزا وائرس (فلُو وائرس) کی وبا پھیل چکی تھی۔ امریکی سرکاری ادارے ''سی ڈی سی'' (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن) کی اپنی جاری کردہ، تازہ رپورٹ کے مطابق، اندازہ ہے کہ امریکا میں اس وقت انفلوئنزا کی تازہ وبا سے وہاں مجموعی طور پر 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) افراد متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 140,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار) افراد کو اسپتالوں میں داخل کرایا جاچکا ہے؛ جبکہ 8,200 افراد اسی انفلوئنزا کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ اعداد و شمار صرف حالیہ ''فلُو سیزن'' سے تعلق رکھتے ہیں جو 2019 کے اختتامی دنوں میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
کتنی عجیب بات ہے، امریکی میڈیا نے اپنے ملک میں انفلوئنزا سے 8,200 اموات پر تو مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن اس میڈیا کو چین میں ووہان وائرس سے مرنے والے 200 افراد بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔ باقی کے اعداد و شمار بھی آپ کے سامنے ہیں، آپ خود موازنہ کرسکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، یہ تو اور بھی اچھا ہوگا۔
کہیں امریکی میڈیا کی یہ حکمتِ عملی اس لیے تو نہیں کہ چین میں وائرس کا اتنا شور مچایا جائے کہ لوگوں کو امریکا میں اندرونی طور پر جاری، شدید طبّی بحران کی طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہ مل پائے اور سب لوگ ''ووہان وائرس'' کے پیچھے لگے رہیں؟
میں اس سوال کا جواب خود نہیں دوں گا بلکہ آپ کو دعوت دوں گا کہ خود اس بارے میں تحقیق کیجیے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش بھی کیجیے۔
چین: مغرب کےلیے ایک ناپسندیدہ ملک
یادش بخیر! آنجہانی ماہرِ مستقبلیات ایلون ٹوفلر نے 1990 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ''پاور شفٹ'' میں لکھا تھا کہ طاقت (پاور) کبھی کسی ایک ملک یا بلاک میں جمع نہیں رہتی بلکہ یہ ''شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال'' کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ اپنے اس دعوے کو جہاں انہوں نے تاریخی مثالوں سے ثابت کیا، وہیں یہ بھی کہا کہ اس وقت سیاسی، معاشی اور عسکری طاقت اُن ممالک میں مرکوز ہے جو (دنیا کے نقشے پر) شمال کی طرف واقع ہیں۔ لیکن یہ طاقت زیادہ عرصے تک شمال میں برقرار نہیں رہے گی بلکہ جنوب کی سمت اس کی منتقلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ٹوفلر کا اشارہ چین، برصغیر، مشرق بعید، مشرقِ وسطی اور مشرقی ایشیا میں واقع ممالک کی طرف تھا... اور اتفاق سے اب وہی سب کچھ ہورہا ہے جیسی ٹوفلر نے پیش گوئی کی تھی۔
مغربی ممالک، بالخصوص امریکا اور برطانیہ کو اپنی سیاسی، معاشی اور عسکری بالادستی خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے... ایشیا میں چین صرف اکیلا ہی ایک نئی سپر پاور کے طور پر نہیں ابھر رہا، بلکہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے انہیں بھی آگے بڑھنے میں مدد دے رہا ہے۔ اس تبدیلی کے راستے میں مغربی ممالک خاموشی کے ساتھ شدید رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان کے ذرائع ابلاغ میں چین سے متعلق چھوٹی چھوٹی خبروں کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر، اور نمک مرچ لگا کر، بیان کرنا بہت عام سی بات ہے۔ اس کے برعکس، چین کے بارے میں بڑی بڑی مثبت خبریں مغربی میڈیا پر یا تو پیش ہی نہیں کی جاتیں یا پھر مثبت خبر میں پوشیدہ ممکنہ منفی پہلو کو اجاگر کرنے پر سارا زور لگا دیا جاتا ہے۔
امید ہے کہ اب آپ چین کے بارے میں مغربی میڈیا کی منفی رپورٹنگ کے ''اغراض و مقاصد'' سے بخوبی واقف ہوچکے ہوں گے۔
چینی ترقی یا مغرب کا ڈراؤنا خواب؟
آج سے صرف ساٹھ ستر سال پہلے تک چینیوں کو ''افیمچی قوم'' کہا جاتا تھا۔ لیکن اس ایک ملک نے جس طرح اپنے آپ کو بدلا اور آج کے ترقی یافتہ ممالک تک کو پیچھے چھوڑا، یہ بات اپنے آپ میں نہ صرف حیرت انگیز بلکہ غور طلب بھی ہے۔ خیر، یہ الگ بحث ہے لیکن یہاں اس خوف کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو مغربی دنیا میں چینی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔
پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم ''سی پیک'' کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن نسبتاً کم لوگ ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو) سے واقف ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سڑکوں، شاہراہوں، بندرگاہوں اور تجارتی سمندری راستوں کے ذریعے ایشیا کو یورپ اور افریقہ تک سے مربوط کردیا جائے گا جبکہ چالیس کے لگ بھگ ممالک کو غربت کی دلدل سے نکلنے کا موقع بھی ملے گا۔ ایک اندازے کے مطابق، چین کے صرف اس ایک منصوبے کی لاگت 8000 ارب ڈالر (8 ٹریلین ڈالر) ہے... اتنی بڑی لاگت والے منصوبوں کے بارے میں مغربی فکشن نگار صرف کہانیاں لکھ سکتے ہیں، ورنہ وہاں کی حکومتیں اتنے بڑے منصوبوں کے بارے میں سوچنے کی بھی ہمت نہیں رکھتیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے جن ملکوں کو فائدہ پہنچے گا (اور جو ممکنہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل بھی ہوسکیں گے) وہ تقریباً تمام کے تمام وہی ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی مغربی ملک کی ''نوآبادی'' (کالونی)، یعنی غلام ممالک رہ چکے ہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ جو مغربی ممالک آج بھی غیر اعلانیہ طور پر ہمارے ''آقا'' بنے ہوئے ہیں، وہ کس طرح ہمیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ جیسے اداروں کے شکنجے سے نکلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں؟ جبکہ یہ ادارے خود ان ہی مغربی ممالک کے آلہ کار اور ''معاشی غارت گر'' (Economic Hitmen) ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کو من پسند شرائط پر قرضے دے کر نہ صرف ان کی معیشت کو کھوکھلا کرتے ہیں بلکہ اپنے ''قیمتی مشوروں'' کے طفیل، قرض پر دی گئی اس رقم کو بے رحمی سے ضائع بھی کرواتے ہیں۔
بہ الفاظِ دیگر، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ صرف چین ہی نہیں بلکہ درجنوں دوسرے ممالک کی معیشت کو انقلاب سے ہمکنار کرنے اور طاقت کو ایک بار پھر شمال سے جنوب کی طرف منتقل کرنے کی غالباً سب سے غیرمعمولی کوشش ہے... اگر آج چین کو نہیں روکا گیا تو اس صدی کے وسط تک مشرق، اپنی مجموعی حیثیت میں، ایک بار پھر ترقی یافتہ ہوجائے گا۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ میں چین کے خلاف ''منفی رپورٹنگ'' کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا؛ اور ووہان وائرس سے تو گویا ان کی چاندی ہوگئی ہے۔ اس ایک وائرس کا شور مچا کر وہ چین کو دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے روک سکیں گے۔
کچھ سائنسی مثالیں
راقم کیونکہ سائنسی صحافی ہے، اس لیے سائنسی تحقیق (سائنٹیفک ریسرچ) اور اس سے ہونے والے معاشی و معاشرتی فوائد پر بات کیے بغیر اپنی بات مکمل نہیں کرسکتا۔ ذیل میں آپ کی توجہ کےلیے صرف چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا:
دنیا کی بہترین جامعات (یونیورسٹیز) میں آج چین سے کئی جامعات کے نام بھی شامل ہوچکے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ چین نے اپنے یہاں اعلیٰ تعلیم کا معیار کس قدر بلند کرلیا ہے۔ علمی میدان میں چین کی یہ پیش رفت بھی مغربی ممالک کی بالادستی کےلیے خطرے کی گھنٹی سے کچھ کم نہیں۔
یونیورسٹیز، ریسرچ پیپرز اور عالمی رینکنگ سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوگا کہ چین میں ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی بہت وسیع ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین 2030 تک ہوا سے اتنی زیادہ بجلی بنا رہا ہوگا کہ اتنی ہوائی توانائی (وِنڈ انرجی)، جتنی تمام یورپی ممالک مل کر بھی پیدا نہیں کر رہے ہوں گے۔
سرد جنگ کے زمانے سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس کوشش میں ہیں کہ جس طرح فشن (fission) سے بجلی بنانے والے ''ایٹمی بجلی گھر'' بنالیے گئے ہیں، ٹھیک اسی طرح فیوژن (fusion) سے بجلی بنانے کے قابل ''تھرمونیوکلیئر بجلی گھر'' تیار کرلیے جائیں جو معاشی طور پر نفع بخش بھی ہوں۔ اس میدان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس اور دیگر کئی ممالک کی مشترکہ کوششیں بھی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں؛ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ تھرمو نیوکلیئر پاور ری ایکٹر بنانے کا یہ عالمگیر منصوبہ کب تک کامیاب ہوگا؟ اس کے برعکس، چین نے گزشتہ برس اعلان کردیا تھا کہ اس سال، یعنی 2020 میں، اس کا اپنے وسائل سے تیار کردہ تھرمونیوکلیئر بجلی گھر اپنا کام شروع کردے گا۔ اس کی تیاریاں تقریباً مکمل ہیں، صرف افتتاح کی حتمی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین کا ''زمینی سورج'' اس سال کام شروع کردے گا
موبائل انٹرنیٹ کے میدان میں جدید ترین ''فائیو جی ٹیکنالوجی'' کے چرچے جگہ جگہ ہورہے ہیں... اس ٹیکنالوجی کے فروغ میں بھی چین دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود، مختلف یورپی ممالک کو فائیو جی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں بھی اس وقت چین ہی سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
2018 میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی عالمی مارکیٹ (اس کے لانچ ہونے سے پہلے ہی) تقریباً 43 ارب ڈالر تھی۔ اندازہ ہے کہ 2025 تک اس میں 56.7 فیصد کا غیرمعمولی سالانہ مرکب اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی عالمی مارکیٹ کا حجم، آئندہ پانچ سال کے دوران، ایک ٹریلین (1000 ارب ڈالر) پر پہنچ چکا ہوگا، جس میں ممکنہ طور پر چین کا سب سے بڑا حصہ ہوگا۔
اب آپ خود ہی بتائیے کہ جن مغربی ممالک نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہو، وہ کیسے یہ برداشت کریں گے کہ بالادستی کا تاج ان کے سر سے اتار کر ایک ایسی قوم کے سر پر سجا دیا جائے جسے اہلِ مغرب انتہائی کم تر سمجھتے ہیں۔
امید ہے کہ چین کے خلاف (امریکی قیادت میں) ووہان وائرس کی آڑ میں جاری ''اطلاعاتی جنگ'' (انفارمیشن وارفیئر) کی غرض و غایت اب آپ کی سمجھ میں بخوبی آگئی ہوگی۔
ہوسکتا ہے کہ میرا یہ تجزیہ حرف بحرف غلط ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے اخذ کردہ نتائج میں اتنی زیادہ سچائی ہو کہ جس کا احساس خود مجھے بھی نہ ہو۔ میں اپنے درست ہونے کا دعویدار ہرگز نہیں، لیکن اتنا ضرور چاہوں گا کہ لگی بندھی میڈیا رپورٹوں، مخصوص تجزیوں اور سازشی نظریات سے ہٹ کر، معقولیت پسندانہ انداز میں کچھ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
عالمی سیاستِ دوراں کا یہ نظام بہت پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کےلیے ہمارے ذہنوں کو بھی پیچیدگی سے نبرد آزما ہونے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔