ایک تیر دو شکار
الیکشن کے بعد سے اب تک اگر کسی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تو مولانا ہی ہیں۔
یار لوگ بضد تھے کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان لاکھوں افراد پر مشتمل لانگ مارچ اسلام آباد لے کر آئے اور خالی ہاتھ واپس چلے گئے۔
ہم اس وقت بھی یہ عرض کر رہے تھے کہ یہ خام خیالی ہے ، مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل سیاست کا سب سے اہم پتہ کھیلا ، وہ اتنے کچے کھلاڑی تونہیں کہ بغیر کسی مقصد کے اسلام آباد کی جانب چل پڑے اور بغیر کسی یقین دہانی کے خالی ہاتھ لوٹ آئے۔آج کے سیاسی و معاشی حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ مولانا لاکھوں کارکنوں کا دھرنا ختم کرکے شہر اقتدار سے خالی نہیں لوٹ گئے بلکہ وہ میلا لُوٹ کر نکلے تھے۔
مولانا نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020 انتخابات کا سال ہے اور حالات اسی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تبدیلی کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، جن مصنوعی سہاروں پر اسے سمندر میں اتار گیا تھا وہ ساتھ چھوڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں، ایک طرف ایم کیو ایم خفا ہے تو دوسری طرف ق لیگ، ایک طرف مینگل صاحب منہ بنائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف اپنی ہی جماعت میں علم بغاوت بلند کرنے والے سامنے آگئے ہیں۔ تبدیلی سرکار پندرہ ماہ میں وہ تبدیلی تو نہ لاسکی جس کے دعوئے اور وعدے کیے گئے تھے البتہ آج خود تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
کیوں نہ پہنچے؟ تبدیلی کا بھوت سرچڑھ کر بول رہا ہے اور 22کروڑ عوام کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے۔ جو اس تبدیلی کے مخالف تھے ان کی بات تو چھوڑ دیں ، جو اس کے حامی اور ہمدرد تھے آج سب سے زیادہ وہی نوحہ کناں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستانی سیاست کی پیچیدگی،مالی مفادات کی لڑائی میں باہم بر سر پیکار ریاست و حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے باہمی تضادات کو سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم پاکستان کی سیاست کو اس کی معیشت کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے۔
پاکستانی معیشت کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک طرف تو ہمیں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے پلندے میں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کرنا پڑے گا تو دوسری طرف معاشی اعداد وشمار کو ایک باہم جدلیاتی ربط میں لاتے ہوئے طبقاتی نقطۂ نظر سے ان کی تشریح کرنا پڑے گی تاکہ یہ پتا لگ سکے کہ بلند آہنگ حکومتی دعوؤں اور اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کا محنت کش طبقے کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے لیکن اعداد وشمار کی ان باتوں سے عوام کو کیا سروکار ؟ یہ باتیں تو ماہرین اقتصادیات جانیں یا بڑے بڑے کاروباری گروپوں کے اعلیٰ عہدیدار۔ عام آدمی کا مسئلہ صرف دو وقت کی روٹی ہے، جو موجودہ حکومت کی ہوائی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چھنتی جارہی ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے گراف جس تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لوگ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل ہونے والے اضافے، آٹے اور چینی کی عدم دستیابی پر دہائیاں دے رہے ہیں اور حکمران طبقہ ان مجبور و بے بس عوام کی امیدوں کے مزار پر دھما چوکڑی مچا رہاہے۔ یا تو انھیں حالات کا ادراک نہیں ہے یا پھر اپنے ''اہداف'' پورے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ثانی الذکر اندازہ قریب ترین لگتا ہے،کیونکہ ان معاملات میں بار بارترین صاحب کا نام جو آرہا ہے۔
حکومتی وزراء کے رویوں پر گزشتہ کالموں میں بھی گفتگو ہوئی لیکن یقین جانیے ایسی ایسی باکمال شخصیات کابینہ میں بیٹھی ہیں جن کا جتنا تذکرہ کیا جائے کم لگتا ہے۔ بعض وزراء کے رویوں کو دیکھ کرتو محمد شاہ رنگیلا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ رنگیلا حکمران ایک تاریخی کردار ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
موصوف اپنی رنگین مزاجی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہوئے ا ور آج تک ہیں۔اس کی رنگین مزاجی اور رنگ رلیوں پر تو پھر کبھی بات کریں گے ،اگر اس جانب کالم کا رخ پھیر لیا تو حریم شاہ کی مارکیٹ ویلیو ہی ماند نہ پڑ جائے۔ فی الوقت اس کی ایک اور ادا پر بات کرتے ہیں جسے آج بھی بہت سے ''لوگ''اپنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ یہ وہی محمد شاہ رنگیلاہے جس کا دربار لگاہوتا تھا تو درباری خوشامد میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگے رہتے تھے اوربادشاہ سلامت کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں جتے ہوتے تھے۔
خوشامدی ٹولہ کے حصار میں رہنے والا رنگیلا بادشاہ اپنی تعریف سن کر پھولا نہیں سماتا تھا ،اپنی جھوٹی تعریفیں سن کر وہ اپنی اکڑی ہوئی گردن کو کبھی دائیں جانب موڑنے کی کوشش کرے تو کبھی بائیں ،تعریفی کلمات سنتے ہی شاہی خزانچی کو فرمان جاری ہوجاتا کہ معترف کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے۔ بادشاہت کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ بادشاہ سلامت جس کا چاہے منہ موتیوں سے بھر دیں ، بھلے وہ نا اہل ،نکمّے اور نکھٹوؤں کو سرکاری محکموں کی سربراہی سونپ دے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں، جو جتنا لمبا فرشی سلام بجا لائے گا اسے اتنا ہی زیادہ نوازا جائے گا۔
وہ اقتدار کی رنگینیوں میں اس قدر کھو گیا تھا کہ اسے کچھ خبر نہ رہی کہ اس کی سلطنت میں کیا ہورہا ہے، رعایا کس حال میں ہے، اندرونی و بیرونی خطرات کیا ہیں، وہ مست الست اقتدار رہا اور درباری اپنی خوشامد اور چکنی چوپڑی باتوں سے اسے ہر وقت آسمان پر اٹھائے رکھتے تھے۔ پھر کیا ہوا اس پر تاریخ اپنی ایک داستانِ غم رکھتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ توبس ایک محمد شاہ رنگیلے کی رنگین داستان لیے بیٹھی ہے جب کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ رنگیلے حکمرانوںاور ان کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، ایک رنگیلا جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے، ان کے درباروں میں خوشامدیوں کی کوئی کمی ہے نہ انھیں نوازنے کے لیے وسائل کی۔یہ رنگیلے حکمران ایک مخصوص'' ایلیٹ کلب ''ممبران پر مشتمل ہے، جن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے لیکن جب بھی انھیں موقع ملتا ہے یہ آٹے کو ہی عوام کی پہنچ سے دور لے جاتے ہیں۔
گزشتہ پندرہ ماہ سے خوشحالی کے منتظر عوام کے ہاتھ سے آٹے کے بعد چینی بھی نکل رہی ہے اور کے پی کے حکومت کے ایک وزیر فرماتے ہیں کہ آٹا مہنگا ضرور ہواہے لیکن ہم تندور والوں کو روٹی کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے، وہ بیشک روٹی کا وزن کم کر لیں۔ اس قدر پریشان کن صورتحال میں اتنا ''عمدہ ''حل پی ٹی آئی سرکار کے وزیر ہی دے سکتے تھے۔ تبدیلی سرکار کی ناتجربہ کاری کی بدولت ملک بند گلی میں جاپہنچا ہے، عوام کا اضطراب بڑھتا چلا جارہا ہے، ان کی آنکھیں کسی ایسے مسیحا کی منتظر ہیں جو ان کے حقیقی مسائل پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجائے، جو انھیں روٹی ، کپڑا ، مکان اور انصاف دلائے، جو ان کے گھروں کے چولہے بجھنے سے بچائے ، جو انھیں بے روزگاری کی دلدل سے نکالے، جو ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے کر چلے۔
جب حکمرانوں سے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے تو پھر عوام کی نگاہیں اپوزیشن پر پڑتی ہے لیکن یہ کیا ؟ پاکستان میں تو اپوزیشن محض اسمبلی کے فلور پر اچھل کود کرتی دکھائی دیتی ہے ملک کی دو بڑی پارٹیوں کی قیادت تو مصلحتوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑی نظر آرہی ہے، ایک نے لندن میں قیام کو عافیت جانا تو دوسرے نے کراچی کی معتدل ہواؤں میں جا بسیرا کیا اور زبان کو تالے ڈال لیے۔ وہ عملاً عوامی مسائل سے ناصرف لاتعلق ہیں بلکہ ان کا رویہ بتا رہا ہے کہ انھیں عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ آ جا کے نظر مولانا فضل الرحمن پر ٹکتی ہے۔
الیکشن کے بعد سے اب تک اگر کسی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تو مولانا ہی ہیں۔ مولانا کا ہاتھ آج بھی عوام کی نبض پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پورے ملک میں ملین مارچ کیے اور پھر تاریخ ساز آزادی مارچ پلس دھرنا دے کر اپنی عوامی طاقت کا برملا اظہار کیااور اب اگلے مرحلے میں انھوں نے حکومت مخالف ملک گیر جلسوں کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا جلسہ 19 مارچ کو لاہور میں ہونے جارہا ہے،جے یو آئی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امجد خان جن کا تعلق لاہور سے ہے، وہ اس جلسے کے انتظامات اور تیاریوں میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
لاہورسے شروع ہونے والی سیاسی تحریکوںکی اپنی ایک درخشندہ تاریخ ہے، امید ہے لاہور مولانا کو بھی مایوس نہیں کرے گا۔ مولانا مروجہ سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں وہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے احتجاجی تحریک کے لیے پنجاب کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے پنجاب میں اپنے قدم جمارہے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں مولانا کی جماعت ایک مضبوط سیاسی قوت ہے۔
سندھ ، خاص طور پر اندرون سندھ میں بھی ان کا خاصا ووٹ بینک موجود ہے، ناقدین ہمیشہ انھیں پنجاب کا طعنہ دیتے رہے لیکن ملین مارچ میں انھیں پنجاب سے جو پذیرائی ملی ، اس نے مستقبل کے سیاسی نقشے کی لکیریں کھینچ دی تھیں، اب مولانا ان لکیروں میں رنگ بھرنے کے لیے پوری طرح تیار دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے بیشتر کارکن اپنے قیادتوں کے رویے اور مصلحت پسندیوں سے تنگ ہیں، اس لیے وہ بھی مولانا کو فالو کر رہے ہیں۔
حکومت مخالف جلسوں میں وہ مولانا کے ساتھ پیش پیش نظر آئیں گے۔ مولانا ایک تیر سے دو شکار کرنے جارہے ہیں، حکومت مخالف تحریک کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب کی سیاست میں اپنا آپ منوانے جارہے ہیں۔قوی امکان ہے کہ آئندہ الیکشن میں مولانا کی جماعت نمایاں نظر آئے گی۔
ہم اس وقت بھی یہ عرض کر رہے تھے کہ یہ خام خیالی ہے ، مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل سیاست کا سب سے اہم پتہ کھیلا ، وہ اتنے کچے کھلاڑی تونہیں کہ بغیر کسی مقصد کے اسلام آباد کی جانب چل پڑے اور بغیر کسی یقین دہانی کے خالی ہاتھ لوٹ آئے۔آج کے سیاسی و معاشی حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ مولانا لاکھوں کارکنوں کا دھرنا ختم کرکے شہر اقتدار سے خالی نہیں لوٹ گئے بلکہ وہ میلا لُوٹ کر نکلے تھے۔
مولانا نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020 انتخابات کا سال ہے اور حالات اسی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تبدیلی کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، جن مصنوعی سہاروں پر اسے سمندر میں اتار گیا تھا وہ ساتھ چھوڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں، ایک طرف ایم کیو ایم خفا ہے تو دوسری طرف ق لیگ، ایک طرف مینگل صاحب منہ بنائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف اپنی ہی جماعت میں علم بغاوت بلند کرنے والے سامنے آگئے ہیں۔ تبدیلی سرکار پندرہ ماہ میں وہ تبدیلی تو نہ لاسکی جس کے دعوئے اور وعدے کیے گئے تھے البتہ آج خود تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
کیوں نہ پہنچے؟ تبدیلی کا بھوت سرچڑھ کر بول رہا ہے اور 22کروڑ عوام کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے۔ جو اس تبدیلی کے مخالف تھے ان کی بات تو چھوڑ دیں ، جو اس کے حامی اور ہمدرد تھے آج سب سے زیادہ وہی نوحہ کناں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستانی سیاست کی پیچیدگی،مالی مفادات کی لڑائی میں باہم بر سر پیکار ریاست و حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے باہمی تضادات کو سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم پاکستان کی سیاست کو اس کی معیشت کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے۔
پاکستانی معیشت کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک طرف تو ہمیں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے پلندے میں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کرنا پڑے گا تو دوسری طرف معاشی اعداد وشمار کو ایک باہم جدلیاتی ربط میں لاتے ہوئے طبقاتی نقطۂ نظر سے ان کی تشریح کرنا پڑے گی تاکہ یہ پتا لگ سکے کہ بلند آہنگ حکومتی دعوؤں اور اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کا محنت کش طبقے کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے لیکن اعداد وشمار کی ان باتوں سے عوام کو کیا سروکار ؟ یہ باتیں تو ماہرین اقتصادیات جانیں یا بڑے بڑے کاروباری گروپوں کے اعلیٰ عہدیدار۔ عام آدمی کا مسئلہ صرف دو وقت کی روٹی ہے، جو موجودہ حکومت کی ہوائی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چھنتی جارہی ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے گراف جس تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لوگ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل ہونے والے اضافے، آٹے اور چینی کی عدم دستیابی پر دہائیاں دے رہے ہیں اور حکمران طبقہ ان مجبور و بے بس عوام کی امیدوں کے مزار پر دھما چوکڑی مچا رہاہے۔ یا تو انھیں حالات کا ادراک نہیں ہے یا پھر اپنے ''اہداف'' پورے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ثانی الذکر اندازہ قریب ترین لگتا ہے،کیونکہ ان معاملات میں بار بارترین صاحب کا نام جو آرہا ہے۔
حکومتی وزراء کے رویوں پر گزشتہ کالموں میں بھی گفتگو ہوئی لیکن یقین جانیے ایسی ایسی باکمال شخصیات کابینہ میں بیٹھی ہیں جن کا جتنا تذکرہ کیا جائے کم لگتا ہے۔ بعض وزراء کے رویوں کو دیکھ کرتو محمد شاہ رنگیلا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ رنگیلا حکمران ایک تاریخی کردار ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
موصوف اپنی رنگین مزاجی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہوئے ا ور آج تک ہیں۔اس کی رنگین مزاجی اور رنگ رلیوں پر تو پھر کبھی بات کریں گے ،اگر اس جانب کالم کا رخ پھیر لیا تو حریم شاہ کی مارکیٹ ویلیو ہی ماند نہ پڑ جائے۔ فی الوقت اس کی ایک اور ادا پر بات کرتے ہیں جسے آج بھی بہت سے ''لوگ''اپنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ یہ وہی محمد شاہ رنگیلاہے جس کا دربار لگاہوتا تھا تو درباری خوشامد میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگے رہتے تھے اوربادشاہ سلامت کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں جتے ہوتے تھے۔
خوشامدی ٹولہ کے حصار میں رہنے والا رنگیلا بادشاہ اپنی تعریف سن کر پھولا نہیں سماتا تھا ،اپنی جھوٹی تعریفیں سن کر وہ اپنی اکڑی ہوئی گردن کو کبھی دائیں جانب موڑنے کی کوشش کرے تو کبھی بائیں ،تعریفی کلمات سنتے ہی شاہی خزانچی کو فرمان جاری ہوجاتا کہ معترف کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے۔ بادشاہت کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ بادشاہ سلامت جس کا چاہے منہ موتیوں سے بھر دیں ، بھلے وہ نا اہل ،نکمّے اور نکھٹوؤں کو سرکاری محکموں کی سربراہی سونپ دے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں، جو جتنا لمبا فرشی سلام بجا لائے گا اسے اتنا ہی زیادہ نوازا جائے گا۔
وہ اقتدار کی رنگینیوں میں اس قدر کھو گیا تھا کہ اسے کچھ خبر نہ رہی کہ اس کی سلطنت میں کیا ہورہا ہے، رعایا کس حال میں ہے، اندرونی و بیرونی خطرات کیا ہیں، وہ مست الست اقتدار رہا اور درباری اپنی خوشامد اور چکنی چوپڑی باتوں سے اسے ہر وقت آسمان پر اٹھائے رکھتے تھے۔ پھر کیا ہوا اس پر تاریخ اپنی ایک داستانِ غم رکھتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ توبس ایک محمد شاہ رنگیلے کی رنگین داستان لیے بیٹھی ہے جب کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ رنگیلے حکمرانوںاور ان کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، ایک رنگیلا جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے، ان کے درباروں میں خوشامدیوں کی کوئی کمی ہے نہ انھیں نوازنے کے لیے وسائل کی۔یہ رنگیلے حکمران ایک مخصوص'' ایلیٹ کلب ''ممبران پر مشتمل ہے، جن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے لیکن جب بھی انھیں موقع ملتا ہے یہ آٹے کو ہی عوام کی پہنچ سے دور لے جاتے ہیں۔
گزشتہ پندرہ ماہ سے خوشحالی کے منتظر عوام کے ہاتھ سے آٹے کے بعد چینی بھی نکل رہی ہے اور کے پی کے حکومت کے ایک وزیر فرماتے ہیں کہ آٹا مہنگا ضرور ہواہے لیکن ہم تندور والوں کو روٹی کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے، وہ بیشک روٹی کا وزن کم کر لیں۔ اس قدر پریشان کن صورتحال میں اتنا ''عمدہ ''حل پی ٹی آئی سرکار کے وزیر ہی دے سکتے تھے۔ تبدیلی سرکار کی ناتجربہ کاری کی بدولت ملک بند گلی میں جاپہنچا ہے، عوام کا اضطراب بڑھتا چلا جارہا ہے، ان کی آنکھیں کسی ایسے مسیحا کی منتظر ہیں جو ان کے حقیقی مسائل پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجائے، جو انھیں روٹی ، کپڑا ، مکان اور انصاف دلائے، جو ان کے گھروں کے چولہے بجھنے سے بچائے ، جو انھیں بے روزگاری کی دلدل سے نکالے، جو ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے کر چلے۔
جب حکمرانوں سے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے تو پھر عوام کی نگاہیں اپوزیشن پر پڑتی ہے لیکن یہ کیا ؟ پاکستان میں تو اپوزیشن محض اسمبلی کے فلور پر اچھل کود کرتی دکھائی دیتی ہے ملک کی دو بڑی پارٹیوں کی قیادت تو مصلحتوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑی نظر آرہی ہے، ایک نے لندن میں قیام کو عافیت جانا تو دوسرے نے کراچی کی معتدل ہواؤں میں جا بسیرا کیا اور زبان کو تالے ڈال لیے۔ وہ عملاً عوامی مسائل سے ناصرف لاتعلق ہیں بلکہ ان کا رویہ بتا رہا ہے کہ انھیں عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ آ جا کے نظر مولانا فضل الرحمن پر ٹکتی ہے۔
الیکشن کے بعد سے اب تک اگر کسی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تو مولانا ہی ہیں۔ مولانا کا ہاتھ آج بھی عوام کی نبض پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پورے ملک میں ملین مارچ کیے اور پھر تاریخ ساز آزادی مارچ پلس دھرنا دے کر اپنی عوامی طاقت کا برملا اظہار کیااور اب اگلے مرحلے میں انھوں نے حکومت مخالف ملک گیر جلسوں کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا جلسہ 19 مارچ کو لاہور میں ہونے جارہا ہے،جے یو آئی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امجد خان جن کا تعلق لاہور سے ہے، وہ اس جلسے کے انتظامات اور تیاریوں میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
لاہورسے شروع ہونے والی سیاسی تحریکوںکی اپنی ایک درخشندہ تاریخ ہے، امید ہے لاہور مولانا کو بھی مایوس نہیں کرے گا۔ مولانا مروجہ سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں وہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے احتجاجی تحریک کے لیے پنجاب کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے پنجاب میں اپنے قدم جمارہے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں مولانا کی جماعت ایک مضبوط سیاسی قوت ہے۔
سندھ ، خاص طور پر اندرون سندھ میں بھی ان کا خاصا ووٹ بینک موجود ہے، ناقدین ہمیشہ انھیں پنجاب کا طعنہ دیتے رہے لیکن ملین مارچ میں انھیں پنجاب سے جو پذیرائی ملی ، اس نے مستقبل کے سیاسی نقشے کی لکیریں کھینچ دی تھیں، اب مولانا ان لکیروں میں رنگ بھرنے کے لیے پوری طرح تیار دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے بیشتر کارکن اپنے قیادتوں کے رویے اور مصلحت پسندیوں سے تنگ ہیں، اس لیے وہ بھی مولانا کو فالو کر رہے ہیں۔
حکومت مخالف جلسوں میں وہ مولانا کے ساتھ پیش پیش نظر آئیں گے۔ مولانا ایک تیر سے دو شکار کرنے جارہے ہیں، حکومت مخالف تحریک کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب کی سیاست میں اپنا آپ منوانے جارہے ہیں۔قوی امکان ہے کہ آئندہ الیکشن میں مولانا کی جماعت نمایاں نظر آئے گی۔