کیا سعودی عرب امریکا سے دور ہو رہا ہے

خطے میں امریکی مفادات کے ساتھ براہ راست اس کی معیشت کے کچھ معاملات بھی سعودی سردمہری کی زد میں آسکتے ہیں۔

مریکا کو آنکھیں دکھانے کے لیے بظاہر سعودیہ کو دنیا کی کسی بڑی طاقت کی بھی حمایت حاصل نہیں۔ فوٹو : فائل

عرب، اسرائیل تنازعے کے موقع پر سعودی فرماں روا شاہ فیصل نے جب تیل کو سیاسی ہتھیار بناکر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کو جھنجھوڑا تو اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر، شاہ فیصل سے ملنے ریاض آئے۔

شاہ فیصل نے انہیں دو دن انتظار کروایا اور تیسرے روز صحرا میں آراستہ خیمے میں ملاقات کی، جس کے پاس کھجور کے درخت تھے اور اونٹوں کا ریوڑ تھا۔ جب ہنری کسنجر نے ان سے تیل جاری رکھنے کی بات کی تو انہوں نے کہا عرب ماضی میں اونٹوں کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔ اونٹنیوں ہی کا دودھ اور کھجور کو غذا بناتے رہے ہیں۔ عرب اب بھی اپنے ماضی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ اگر تیل چاہیے تو مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی مسلمانوں کو آزاد ریاست دیں اور تیل لے لیں۔ ورنہ ہم عرب خود اپنے تیل کے کنویں آگ کی نذر کر دیں گے اور ہماری نسلیں آسانی سے کھجور اور اونٹنی کے دودھ پر گزارا کرلیں گی۔

ایک مسلمان حکم راں کا یہ جرأت مندانہ اقدام فقط چند عشرے قبل کا ہی ہے، کہ جب مسلمانان عالَم کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ اور قابل قدر کوشش کی گئی، لیکن عالمی بساط کے شاطر کھلاڑیوں نے ایسی جرأت دکھانے والے حاکم کو اپنے بھتیجے کے ہاتھوں ہی قتل کرا دیا اور پھر کوئی اس سطح کی ہمت کا مظاہرہ نہ کرسکا۔ شاہ فیصل کے بعد شاہ خالد، شاہ فہد اور ان کے بعد شاہ عبداﷲ برسراقتدار آئے، لیکن تاریخ پھر سعودی عرب کے ایسے جرأت مند ماضی کو نہ دیکھ سکی، البتہ حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی بار ملنے والی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کو ٹھکرائے جانے سے کچھ ماضی کی یاد آنے لگی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے اس اقدام کی وجہ سلامتی کونسل کا دُہرا معیار قرار دیا اور اصلاحات نہ ہونے تک اپنے اسی فیصلے پر کاربند رہنے کا عندیہ دیا۔



سعودی سرکاری بیان میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے شام کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکامی اور مشرق وسطی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں ناکامی کو بھی دُہرایا گیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی تقریر سے انکار کر چکا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اور فلسطین جیسے اہم اور پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کرتا، وہ جنرل اسمبلی کی بائیکاٹ کرتا رہے گا۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ شام کے معاملے پر امریکا بظاہر بشار الاسد کا مخالف ہے، لیکن درپردرہ اس کے مقاصد کچھ اور بھی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذریعے خاطر خواہ اقدام نہ ہوسکنا اور اس کے بعد ایران سے واشنگٹن کی بڑھتی پینگوں نے اس کے ان خدشات کو باوزن کردیا کہ شاید واشنگٹن، دمشق میں ایران کی مدد سے کوئی راہ نکالے گا، جس کا واضح طور پر مطلب شام میں ایرانی اثر رسوخ کا بڑھنا ہے یا کم سے کم سابقہ اثرات برقرار رہنا ہوگا۔ ایران کی جوہری قوت کے حوالے سے بھی سعودی عرب کو تشویش ہے، کیوں کہ یہ امر اسے عرب خطے میں تہران کی برتری کا ذریعہ نظر آرہا ہے، جب کہ دوسری طرف کوئی بھی عرب ملک اس صلاحیت کا حامل نہیں۔



خطے میں امریکی مفادات کے ساتھ براہ راست اس کی معیشت کے کچھ معاملات بھی سعودی سردمہری کی زد میں آسکتے ہیں اور فی الوقت اس کی معیشت میں بھی کچھ پیچیدگیاں حائل ہیں۔ اس لیے واشنگٹن کو ہر دو طرح کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ سعودی مرکزی ریزرو بینک کے تقریباً 690 بلین ڈالر امریکی بینکوں میں امریکی ٹریژری بانڈز کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر اس بڑے سرمائے کا انخلا ہوا تو امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر امریکا اس منتقلی کو رکوانا چاہے تو اسے سعودیہ پر پابندیوں کی راہ اختیار کرنا پڑے گی، جو بہرحال ایک طویل عمل ہوگا۔



دوسری طرف سعودی عرب اپنی دفاعی ضروریات کے لیے امریکا پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے۔ سعودی انٹیلی جنس سربراہ نے واضح طور پر اس اقدام کو امریکا کے لیے پیغام قرار دیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودیہ نے امریکا انحصار سے نکلنے کے لیے متبادل تیار کرلیا ہے؟ یا وہ نادانستگی میں کوئی بچگانہ اقدام کرنے جا رہا ہے، جس سے وہ خود امریکا کی طرف سے آزمایش سے دوچار ہو سکتا ہے، کیوں کہ امریکا کو آنکھیں دکھانے کے لیے بظاہر سعودیہ کو دنیا کی کسی بڑی طاقت کی بھی حمایت حاصل نہیں۔

خادم الحرمین شریفین شاہ عبداﷲ نے اگرچہ 2005ء میں زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد دیگر عالمی طاقتوں سے تعلقات بڑھانے کی خاطر خواہ کوششیں کیں، جس میں چین اور روس قابل ذکر ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم میں روس کو مبصر کا درجہ بھی دلایا گیا، لیکن شام کے معاملے پر روس سے معاملات اس نہج پر چلے گئے کہ اس نے سعودیہ پر حملے کی دھمکی دے ڈالی۔ امریکی مخالفین سے قربت کرتے ہوئے شاہ عبداﷲ نے ایرانی صدر کو بھی نہایت گرم جوشی سے اپنے ہاں خوش آمدید کہا تھا، مگر موجودہ منظر نامے میں اس حکمت عملی کا کوئی خاطر خواہ ثمر دکھائی نہیں دے رہا۔ شام کے معاملے پر برہمی اس نہج پر پہنچی کہ اس نے اس پیمانے پر اپنا ردعمل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے احتجاج کو زیادہ سے زیادہ موثر بنا سکے۔ ورنہ اقوام متحدہ فلسطین اور دیگر معاملات پر جو کردار ادا کر رہا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

سعودی اقدام کو انتہائی نوعیت کا اقدام کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ایک طرف عرب ممالک سلامتی کونسل میں اپنی نمایندگی کی چاہ رکھتے ہیں اور اب اس کی تکمیل کا وقت آیا تو احتجاجاً اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے عربوں کی عالمی سطح پر رسائی میں رکاوٹ ہوئی، کیوں کہ ''عرب لیگ'' کو بھی اس وقت اگر غیرفعال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جس کے اجلاسوں میں اکثر عرب سربراہان ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہے ہیں، جس میں خاص طور پر لیبیا کے کرنل معمرقذافی اور سعودی فرماں روا شاہ عبداﷲ کے درمیان ہونے والی جھڑپ قابل ذکر ہے۔ یوں سعودی اقدام خاصا شدید دکھائی دیتا ہے۔



تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب نہ مانا تو عرب دنیا کی نمایندگی کی خواہش سے فایدہ اٹھاتے ہوئے واشنگٹن عربوں میں سعودیہ کے بہ جائے متبادل اتحادی تیار کرسکتا ہے، لیکن دوسری طرف موجودہ منظر نامے میں کوئی بھی قد آور عرب راہ نما ایسا نظر نہیں آتا، جو کسی بھی طرح اس خلا کو پُر کرسکے۔

سعودی عرب کا یہ فیصلہ امریکا کے لیے بھی غیرمتوقع رہا اور عرب ممالک کی طرف سے بھی اس پر دبائو ڈلوایا گیا کہ وہ اپنی نمایندگی کی خاطر اسے راضی کریں کہ وہ سلامتی کونسل کی نشست مسترد نہ کرے، تاہم قطر نے سعودی اقدام کی حمایت کی ہے، لیکن سعودی عرب نے اپنے اس اقدام کے ذریعے انتباہ کردیا ہے کہ اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو پھر وہ بھی خود کو بھی اب مزید امریکا کے ہم راہ نہیں رکھ سکے گا اور یہ قدم آگے چل کر دونوں ممالک کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا بھی سکتا ہے۔


اس واضح اشارے کے بعد امریکا نے بھی سوچنا ہے کہ اس نے سعودی عرب کو راضی رکھنے کی حکمت عملی ہی رکھنی ہے یا پھر اب اس کی پروا نہیں کرنی۔ امریکی حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن کے قانون سازوں نے سعودی عرب کے مشرق وسطیٰ کے بارے میں تحفظات دور کرنے کا مشورہ دیا، اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سعودی عرب کا دورہ کر کے دوریاں کم کرنے کی سعی کی۔ جان کیری نے دورہ سعودی عرب کے دوران عرب ممالک کے دفاع کی یقین دہانی کراکے ریاض کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

سعودی عرب جیسے ملک کی جانب سے عالمی ادارے پر عدم اعتماد کا اظہار عالمی سیاست کے ساہوکاروں کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ اب پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آیا سعودی عرب اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا ہے یا تبدیل کرلیتا ہے اور اس کے بعد یہ کہ سعودی عرب اس اقدام کے ذریعے اپنے مقاصدمیں کس قدر کام یابی حاصل کرتا ہے۔

آیا اس کا یہ قدم واقعتاً خود انحصاری اور متبادل اتحادی ڈھونڈنے کی غرض سے ہے یا یہ محض خطے کی صورت حال پر مجبوراً اٹھایا جانے والا ایک عارضی قدم ہے، جو صرف خطے میں شام اور ایران کے معاملے پر امریکی حکمت عملی تبدیل کرانے کے لیے ہے۔ اگر سعودی عرب واقعی امریکا سے تعلقات کی نوعیت تبدیل کر رہا ہے تو بظاہر کسی متبادل قوت سے قربت نہ ہونے کے باعث اس کے پاس صرف اپنے ہم سائے عرب ریاستوں کے اتحاد اور تعاون کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

سعودی عرب تاریخ اور جغرافیہ
اکثر عرب ممالک کی سرحدیں 1920ء کی دہائی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعے قائم ہوئیں۔ سعودی عرب جزیرہ نما عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں عُمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہیں، جب کہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے، کیوں کہ یہاں مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی راہ نما محمد بن سعود ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعدازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔



1926ء تک الاحسا، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ اور مدینہ شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ 1932ء میں مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگیا۔

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکم رانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے۔ کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ انتخابات ہوتے ہیں، البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔

بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علما اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔ قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلا عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔

اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کے لیے عمل میں آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی ''لیگ آف نیشنز'' کی ناکامی دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی صورت میں سامنے آئی تو ایک نئی انجمن کی طرح ڈالنے کی سعی کی گئی اور 25 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کی بنیاد 51 ممالک کی رکنیت سے پڑی اور اس وقت دنیا کے 193 ممالک اس عظیم تنظیم کے رکن ہیں۔ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم ذیلی ادارہ ہے، جس کی پہلی باضابطہ نشست 17 جنوری 1946ء کو لندن کے ویسٹ منسٹر کے چرچ ہاؤس میں ہوئی۔

سلامتی کونسل میں پانچ ر کن ممالک کو مستقل رکنیت کی حیثیت دی گئی اور اقوام متحدہ کے منشور کے خالقوں نے ان پانچ ارکان کو کسی بھی تجویز کو ویٹو کرنے کا خصوصی اختیاردیا گیا جس پر آج تک تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل اراکین دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہرسال جنرل اسمبلی پانچ غیرمستقل ممبران کو منتخب کرتی ہے جو دنیا کے مختلف خطوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔



سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کی منظوری کے لیے کسی بھی تجویز کو 9 ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ان پندرہ مستقل وغیرمستقل ممبران کے ووٹ پر مشتمل ہے، لیکن اسے رد کرنے کے لیے پانچ مستقل اراکین میں سے کسی ایک کا ویٹو کر دینا کافی ہے۔ اب تک روس نے 123مرتبہ، جب کہ امریکا 89، برطانیہ 32، فرانس18، اور چین 6مرتبہ اپنے اس ویٹو کے اختیار کو استعمال کر چکا ہے۔

سلامتی کونسل میں اس بار آذربائیجان، گوئٹے مالا، مراکش، ٹوگو اور پاکستان کی مدت ختم ہوئی اور چاڈ، چلی، لیتھونیا، نائجیر یا سعودی عرب کا انتخاب کیا گیا چنا گیا ہے۔ نئے ارکان یکم جنوری 2014ء سے اپنی نشست سنبھالیں گے۔ ان اراکین کو صرف ان فیصلوں میں اہمیت حاصل ہوتی ہے، جن کی پانچ بڑے ممالک مخالفت نہ کریں۔ پانچ نومنتخب ارکان میں سے تین ممالک چاڈ، سعودی عرب اور لیتھوانیا اس سے پہلے کبھی سلامتی کونسل کے رکن نہیں بنے، جب کہ نائجیریا اور چلی ماضی میں چار چار مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں۔
Load Next Story