عزیزم مفادم
حکمران اور اپوزیشن پھر سے ’’کیلے کے چھلکے‘‘ کے پاس پہنچ چکے، دھماکوں پر آہ و فغاں فنا ہوچکا۔
لیجیے سب کچھ بھول بھال اور چھوڑ چھاڑ کر حکمران اور اپوزیشن پھر سے ''کیلے کے چھلکے'' کے پاس پہنچ چکے، دھماکوں پر آہ و فغاں فنا ہوچکا، مذاکرات کو مذاق کے قلب میں ڈھالنے کی خبر عوام کے کانوں تک پہنچ چکی۔ حکمران اور اپوزیشن اپنی اسی پرانی ڈگر پر چیں بہ جبیں ہیں، جسے حرف عام میں مفاد اور عوامی زبان میں ''وسیع تر قومی مفاد'' کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنے سیاسی اماموں کے طرز عمل کو دیکھ کر اب ''ذاتی مفاد'' بہت چھوٹا اور بے معنی سا لفظ لگتا ہے۔
بھلے وقتوں میں جب سیاست میں کچھ شرافت کا عنصر موجود تھا، اگرچہ اس وقت بھی سیاست دانوں کی سیاست کی سوئی کی ''ٹک ٹک'' مفاد سے اسٹارٹ ہوکر مفاد پر ہی آکر رکا کرتی لیکن خال خال مواقعوں پر ارباب سیاست اور ارباب طاقت کے درمیاں عوامی مفاد نام کی چیز پر ایکا ہوجایا کرتا اور ان نہایت ہی ''خال خال'' مواقعوں پر اہل سیاست اپنے مفادات کی قربانی دے دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ قربانی ''طوعاً و کرھاً'' دی جاتی مگر عہد حاضر کی سیاست میں تو مفاد ترقی کرتے کرتے ''عزیزم'' کے مقام پر فائز ہوگیا۔ عوام جس حال میں بھی ہوں، عوام کی چمڑی جتنی پتلی ہو، ملک کی حالت چاہے خستہ حالی کی مسافت طے کر رہی ہو، اہل سیاست اور اہل حکومت نے بس ہر قدم پر اپنے ''عزیزم مفادم'' کو مقدس اور مقدم رکھنا ہے۔
طالبان کے مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کا کھیل ''آنکھ مچولی'' کی طرح کھیلا جارہا ہے۔ طالبان کا مسئلہ ''مسئلہ شہادت'' میں کہیں دفن ہو کر رہ گیا ہے۔ زوروں پر ملک میں جو مسئلہ اس وقت زیر بحث ہے وہ کون شہید اور کون نہیں ہے، کا ہے۔ دین حنیف کے پیروکار ہوکر اور ایک ذات پاک کے ماننے والے ہو کر ہر کوئی اپنی اپنی من مانی قائم اور دائم رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ کوئی مادیت پرستی کی پرستش میں نام کمانا اور اپنے دام کھرے کرنے کی جستجو میں ہے، کسی کو اپنے اقتدار کی طوالت کا غم عزیز ہے، کوئی اپنے عہدے کو دائمیت دینے کے لیے ہلکان ہورہا ہے۔
کچھ دن قبل کے قومی سطح پر ملک کو افسردہ کرنے والے سانحات اور المیہ واقعات پر کچھ وقت کی دھول بیٹھ چکی اور ان پرکچھ دھول قوم کے ٹھیکیدار جمانے کی کوششوں میں ہیں۔ دہشت گردی قوم کے گلے کا طوق ہے لیکن اس کے حل کے لیے ''گل محمد نہ جنبد'' کا کلیہ استعمال کیا جارہا ہے۔ گیس اور بجلی کی ناپیدی پر نہ حکومت ''ہلکان'' ہے اور نہ اپوزیشن پریشان۔
مہنگائی کا عذاب ہے، لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ قوم کے حقیقی مسائل بڑی ہٹ دھرمی سے نہ صرف اپنی جگہ پر قائم ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انھیں سیاست دانوں کی ''عزیزم'' پالیسی کی بنا پر دوام حاصل ہوتا جارہا ہے۔ عوامی مسائل کے حل کی دعوے دار حکومت اور عوام کی چہیتی اپوزیشن ''اعداد و شمار'' پر اپنے مفادات اور مشہوری کا کھیل کھیلتے رہے۔ عوام کا سرکس پندار میں پھنسا ہے؟ اس سے نہ حکومت کو دلچسپی ہے اور نہ اپوزیشن کو کوئی سروکار۔ بس ہر کسی کو فکر لاحق ہے تو اپنے ''نام'' کی، اپنے کام کی، اپنی انا کی، اپنی سیاسی دکانداری کی۔ جو اقتدار کی ''چمک'' سے دور ہے، وہ اپنی سیاست کی چمک کے لیے ''نمبرز'' بنارہا ہے۔
قوم مہنگائی کے ہاتھوں مرتی مرے، دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ اہل سیاست کو صرف اور صرف اپنی سیاست چمکانے کی فکر دامن گیر ہے، جمہوریت کے تخت پر بیٹھ کر ''سیاست، سیاست'' کا کھیل کھیلنے والے شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اسی ''جمہور'' کے بل پر طرم خاں ہیں۔ جمہور آسان ہوگی تو جمہوریت ہوگی اور جمہوریت ہوگی تو سیاست کے شاہ سواروں کے کندھوں پر سیاست اور اقتدار کے ''کرائون'' چمکیں گے۔ معلوم نہیں ان حقائق سے حکومت اور اپوزیشن کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں؟ تخت کے ''شاہ'' سے مہنگی بجلی کے بارے سوال کیا گیا۔ فرمایا ہمیں بجلی مہنگی کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ جناب! اگر شوق نہیں تو پھر بجلی کی قیمتیں آئے روز کیوں بڑھا رہے ہیں؟ ''سیب کھائو'' قسم کے جوابات تو سابقہ تخت نشین بھی دیتے رہے، بھلا آپ اور ان میں کس بات کا فرق ہوا؟ کیا کرسیاں بدلنے اور چہرے بدلنے کو جمہوریت کہتے ہیں؟ جمہوریت کے جو ''فیوض'' ہوا کرتے ہیں، پاکستانی جمہور کو وہ عطا کیجیے، ورنہ ایسے سیاسی اور حکومتی کارناموں سے ہی جمہوریت کی کشتی میں سوراخ ہوا کرتے ہیں۔ اعتبار نہیں تو کم از کم اپنے پچھلے ادوار حکومت کا ریکارڈ نکالیے، کہ آپ کے سابق اور موجودہ دور حکومت کی پالیسیوں میں صرف ''گردش ایام'' کے سوا کچھ فرق نہیں۔
مانا کہ اہل سیاست نے فن حکمرانی میں ''کمال'' کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، مگر اب عوام بھی زیادہ نہیں تو کسی حد تک ''سیانے'' ہوچکے ہیں کہ جس عوام کا سال ہا سال گونگا رہنا ''وصف'' تھا، اب وہ چند ماہ کے بعد ہی بولنا شروع ہوگئے ہیں۔