اپنی سوچ کو بدلیں
ابھی کل ہی تو بات ہو رہی تھی کہ چند سال پہلے تک ملک میں امن و امان کی صورت حال کیسی اچھی تھی۔
ابھی کل ہی تو بات ہو رہی تھی کہ چند سال پہلے تک ملک میں امن و امان کی صورت حال کیسی اچھی تھی... بچے دن بھر گھر سے باہر بھی کھیلتے رہتے تو یہ فکر نہ ہوتی کہ کوئی انھیں اغوا کر لے گا، کسی معصوم بچی کو کوئی زیادتی کا نشانہ بنا دے گا یا کسی معصوم لڑکے کو بھی ... (اکا دکا واقعات ضرور ہو جاتے ہوں گے) ہمسائے ایک دوسرے کے دکھ اور خوشی کے شریک ماں جائیوں کی طرح ہوتے تھے۔ کسی گھر سے کھانے کی خوشبو باہر نکلنے سے قبل آس پڑوس میں جانے کے لیے پلیٹیں نکلتیں ... ہر کسی کی بہو بیٹی سانجھی ہوتی، اگر پیار کرنے کو ہر بچہ ایک جیسا ہوتا تو ہر کوئی بچے کو کسی غلط کام پر ٹوک بھی دیتا تھا۔ کوئی بیمار پڑتا تو محلہ اکٹھا ہو جاتا، اس کی تیمارداری سے بڑھ کر اس کے لیے دوا دارو کرنا اور اس کے بال بچوں کا خیال رکھنا، ان کی ضروریات پوری کرنا...
اب تو گویا کسی نے اس ملک کا، اس کے شہروں اور شہریوں کا پانسا ہی پلٹ دیا ہے... حالات بالکل اس کے مخالف ہو گئے ہیں۔ ہم مائیں بچوں کو مرغیوں کے طرح اپنے پروں تلے چھپا کر بیٹھ گئی ہیں، ہمیں علم ہے کہ کسی بچے کی جان محفوظ ہے نہ عزت، اور اس پر مستزاد خبروں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا میڈیا!!! کسی کی دلجوئی تو درکنار... اب تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کون آباد ہے اسی لیے آئے دن علم ہوتا ہے کہ دہشت گرد عین ہمارے بیچ آ کر آباد ہو کر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
کچھ ہوس اور اپنے پیٹ کی آگ بڑھ گئی ہے... کچھ مہنگائی نے مار ڈالا ہے کہ وہ گھر گھر سوغاتوں کے طور پر جاتی پلیٹیں ناپید ہو گئی ہیں۔ نوجوانوں میں تو احترام اتنا کم ہو گیا ہے کہ راہ چلتے کسی بزرگ کو سلام کرنے کی رسم بھی ختم ہو گئی ہے۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں کو اپنی بہو بیٹیاں سمجھنا دور کی بات، اب تو اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی اپنی بیٹیوں کو بچاتے پھرتے ہیں۔ شرم و حیا رخصت ہوئی، کردار کی اہمیت نہیں رہی۔ پہلے جہاں کسی راشی سے پورا محلہ قطع تعلق کر لیتا تھا، اس کے گھر کا کھانا پینا اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا، اب جہاں پیسہ زیادہ ہے اسی کی توقیر ہے... کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔
کسی کے دروازے کے آگے ایمبولینس بھی کھڑی ہو گی تو کوئی رک کر نہیں پوچھتا، اگر کوئی پوچھ بھی لے تو شاید وہی کہہ دیں کہ آپ کو اس سے کیا غرض ہے؟ دن دیہاڑے لوگ ہمارے پڑوس میں سے ان کا سارا گھر کا سامان ہماری نظروں کے سامنے ٹرک میں بھر کر لے جاتے ہیں اور ہمیں علم تک نہیں ہوتا کہ واردات ہو رہی ہے... ہم سمجھتے رہ جاتے ہیں کہ پڑوسی کہیں اور منتقل ہو رہے ہوں گے، نہ ہمیں ان کی آمد کا علم ہوتا ہے نہ رفت کا۔ کہاں کسی کے بچے کو بھی ڈانٹ لیا جاتا تھا، غلط بات پر ٹوک دیا جاتا تھا، اب تو آپ کسی اور کے کیا اپنے بچے تک کو کچھ کہہ کر دیکھیں... عمر بھر کے لیے پچھتاوے آپ کا مقدر بن سکتے ہیں۔
بات سے بات چل نکلی تو ذکر ماہ محرم الحرام کا ہوا... ہمیں تو یاد پڑتا ہے کہ ہمیں عمر کے پہلے بیس برسوں تک بھی علم نہ تھا کہ فرقہ بندی کیا ہوتی ہے... ہر فرقے کے لوگ ایک ہی محلے میں دیوار سے جڑی دیوار اور چھت سے جڑی چھت کے ساتھ رہتے تھے۔ آپسیں شادیاں نہ ہوتی تھیں مگر ہم نے آج تک اپنے بزرگوں کی ''پگ بدل'' اور ''دوپٹہ بدل'' بہنوں کی رشتہ داریاں نبھائی ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ایک بزرگ انکل کا انتقال ہوا، والد صاحب اور بھائی وغیرہ خصوصا لاہور گئے...اپنی کم علمی کے باعث والد صاحب سے استفسار کیا تو علم ہوا کہ مرحوم سے ہماری کوئی خونی رشتہ داری نہ تھی بلکہ وہ میری دادی مرحومہ کی ایک دوپٹہ بدل بہن کے بھائی تھے۔ ان کی بہن ابا جی کے محلہ میں رہتی تھیں اور مرحوم جب بھی لاہور سے گجرات آتے تو میری دادی مرحومہ کے لیے بھی وہی سوغاتیں ہمراہ لے کر آتے تھے جیسی اپنی بہن کے لیے لاتے تھے۔ ہاہ... ہمیں تو عمر بھر علم ہی نہ ہوا کہ ہمارے اور ان کے فرقے اتنے مختلف ہیں جن میں اب ہر کوئی ایک دوسرے کے لہو کا پیاسا ہو رہا ہے۔
بچپن میں محرم کے مہینے میں حلیم، کھچڑے اور ہریسے کا ہمیں بھی انتظار رہتا تھا، ہمارے گھر میں بھی عاشورہ کے روزوں کا اہتمام ہوتا تھا اور ہر طرح کی موسیقی بند رہتی تھی۔ شادی بیاہ کے سمیت کوئی بھی سعد کام نہ ہوتا اور ہر طرف سوگ کی فضا ہوتی... پھر ربیع الاول آتا تو بھی ہم سب یکجا ہوتے۔ جتنے اہتمام سے سب لوگ اکٹھے ہو کر مرکزی بازار میں عاشورے کا جلوس دیکھنے جاتے تھے اتنے ہی اہتمام سے سب تیار ہو کر عید میلاد النبی کا جلوس دیکھنے کو جاتے تھے، کھیر اور میٹھے کی پلیٹیں گھر گھر بھیجی جاتیں...
اب کیاہو گیا ہے؟ اس ملک کاکیا حشر کر دیا ہے ہم نے، مذہب کا چہرہ کیسے مسخ کر دیا ہے ہم نے... اور کس کے کہنے پر!!!! سننے میں آتا ہے کہ اس فرقے کو فلاں ملک اور اس فرقے کو دوسرا فلاں ملک sponsor کر رہا ہے... یہ ممالک ہم سب کو آپس میں لڑا کر اپنی اپنی دکانیں چمکائے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ مدرسے بن رہے ہیں، ہر مدرسہ ایک علیحدہ فرقے کا ہے اور ان سب فرقوں کے علیحدہ علیحدہ رہنما ہیں اور انھیں مختلف ممالک فنڈز دیتے ہیں۔ ہم نے اپنے محلے کی مسجد میں سب کو اکٹھے نماز پڑھتے دیکھا ہے، اب کیا تبدیلی احکامات اسلام میں آ گئی ہے؟ ہمارے اپنے دماغ ہیں، ہم نے انھیں دوسروں کے پاس کیوں گروی رکھ دیا ہے؟ کیوں ہم کتاب اللہ کی بجائے دوسرے ممالک سے عقائد چرا رہے ہیں۔ انھیں ہم سے کیا غرض ہو گی اگر ہم خود متحد ہوں گے... کس نے وہ کہانی نہیں سنی جس میں لکڑ ہارا اپنے بچوں کو لکڑیوں کے گٹھے سے سبق سکھاتا ہے کہ متحد ہونا کتنی بڑی طاقت ہے۔
امن وا مان کی صورت حال کے بگڑنے کا خطرہ درپیش رہتا ہے اور حکومت وقت کو بھی ان خطروں کی بابت علم ہوتا ہے... امن قائم کرنے والے سب کے سب ادارے ان جلسوں اور جلوسوں کی نگرانی اور حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو کر رہتا ہے۔ پہلے سے آگاہ بھی کر دیا جاتا ہے کہ فلاں شہر میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ کچھ شہروں میں باقاعدہ کرفیو کا نفاذ کر دیا جاتا ہے، دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹیلی فونوں کی ساری سروس منقطع کر دی جاتی ہے... ایک نہیں، تین تین دن کے لیے!!! کیا ٹیلی فون صرف دہشت گرد ہی استعمال کرتے ہیں؟ کیا عام آدمی کی ضروریات ختم ہو جاتی ہیں؟ کیا عام آدمی کے لیے بیماری، موت، تکلیف اور حادثات کو معطل کر دیا جاتا ہے کہ اسے کسی سے کسی ہنگامی حالت میں رابطے کی ضرورت نہ رہے؟
خدارا... اپنی سوچ کو بدلیں!!! حکومت اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے بھی اگر اس بات کا یقین کر لیں کہ دہشت گرد ان موبائل ٹیلی فونوں کے محتاج نہیں ہیں تو عام آدمی کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ بقول شخصے... کسی جرم کی تفتیش کرنا ہے تو مجرم کی طرح سوچو!
عاشورہ کے دن مجموعی طور پر امن وا مان سے گزر گئے تا وقتیکہ... اختتامی اوقات میں راولپنڈی میں ناخوشگوار واقعہ رونما ہو گیا۔ اب بھی ہم ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں گے، کوئی اس کے تدارک کے لیے یہ نہیں سوچے گا کہ دشمن ہماری صفوں میں موجود ہیں، چھپے ہوئے بھی نہیں، سر عام ہمیں بھڑکاتے، اپنے الفاظ سے آگ لگاتے اور ہمیں دوسروں کے خلاف انسانی بم بناتے ہوئے... دل سے خواہش ابھرتی ہے، کاش ہمیں ہمارا پہلا سا پیارا ملک واپس مل جائے، جہاں شاید اتنی مادی ترقی نہ تھی، پیسہ تھا نہ ایسی سہولتیں (جو اب ہمارے لیے سانس سے اہم بن گئی ہیں) مگر اس ملک میں پیار تھا، امن تھا، اتفاق تھا، بھائی چارہ تھا، اتحاد تھا، سادگی تھی، ایک دوسرے کے رشتوں اور فرقوں کے لیے احترام تھا... مہنگائی نہ تھی، ایک دوسرے سے نفرت نہ تھی، منافقت نہ تھی اور دہشت گردی نہ تھی!!!!!
اب تو گویا کسی نے اس ملک کا، اس کے شہروں اور شہریوں کا پانسا ہی پلٹ دیا ہے... حالات بالکل اس کے مخالف ہو گئے ہیں۔ ہم مائیں بچوں کو مرغیوں کے طرح اپنے پروں تلے چھپا کر بیٹھ گئی ہیں، ہمیں علم ہے کہ کسی بچے کی جان محفوظ ہے نہ عزت، اور اس پر مستزاد خبروں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا میڈیا!!! کسی کی دلجوئی تو درکنار... اب تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کون آباد ہے اسی لیے آئے دن علم ہوتا ہے کہ دہشت گرد عین ہمارے بیچ آ کر آباد ہو کر اپنی کارروائیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
کچھ ہوس اور اپنے پیٹ کی آگ بڑھ گئی ہے... کچھ مہنگائی نے مار ڈالا ہے کہ وہ گھر گھر سوغاتوں کے طور پر جاتی پلیٹیں ناپید ہو گئی ہیں۔ نوجوانوں میں تو احترام اتنا کم ہو گیا ہے کہ راہ چلتے کسی بزرگ کو سلام کرنے کی رسم بھی ختم ہو گئی ہے۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں کو اپنی بہو بیٹیاں سمجھنا دور کی بات، اب تو اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی اپنی بیٹیوں کو بچاتے پھرتے ہیں۔ شرم و حیا رخصت ہوئی، کردار کی اہمیت نہیں رہی۔ پہلے جہاں کسی راشی سے پورا محلہ قطع تعلق کر لیتا تھا، اس کے گھر کا کھانا پینا اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا، اب جہاں پیسہ زیادہ ہے اسی کی توقیر ہے... کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔
کسی کے دروازے کے آگے ایمبولینس بھی کھڑی ہو گی تو کوئی رک کر نہیں پوچھتا، اگر کوئی پوچھ بھی لے تو شاید وہی کہہ دیں کہ آپ کو اس سے کیا غرض ہے؟ دن دیہاڑے لوگ ہمارے پڑوس میں سے ان کا سارا گھر کا سامان ہماری نظروں کے سامنے ٹرک میں بھر کر لے جاتے ہیں اور ہمیں علم تک نہیں ہوتا کہ واردات ہو رہی ہے... ہم سمجھتے رہ جاتے ہیں کہ پڑوسی کہیں اور منتقل ہو رہے ہوں گے، نہ ہمیں ان کی آمد کا علم ہوتا ہے نہ رفت کا۔ کہاں کسی کے بچے کو بھی ڈانٹ لیا جاتا تھا، غلط بات پر ٹوک دیا جاتا تھا، اب تو آپ کسی اور کے کیا اپنے بچے تک کو کچھ کہہ کر دیکھیں... عمر بھر کے لیے پچھتاوے آپ کا مقدر بن سکتے ہیں۔
بات سے بات چل نکلی تو ذکر ماہ محرم الحرام کا ہوا... ہمیں تو یاد پڑتا ہے کہ ہمیں عمر کے پہلے بیس برسوں تک بھی علم نہ تھا کہ فرقہ بندی کیا ہوتی ہے... ہر فرقے کے لوگ ایک ہی محلے میں دیوار سے جڑی دیوار اور چھت سے جڑی چھت کے ساتھ رہتے تھے۔ آپسیں شادیاں نہ ہوتی تھیں مگر ہم نے آج تک اپنے بزرگوں کی ''پگ بدل'' اور ''دوپٹہ بدل'' بہنوں کی رشتہ داریاں نبھائی ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ایک بزرگ انکل کا انتقال ہوا، والد صاحب اور بھائی وغیرہ خصوصا لاہور گئے...اپنی کم علمی کے باعث والد صاحب سے استفسار کیا تو علم ہوا کہ مرحوم سے ہماری کوئی خونی رشتہ داری نہ تھی بلکہ وہ میری دادی مرحومہ کی ایک دوپٹہ بدل بہن کے بھائی تھے۔ ان کی بہن ابا جی کے محلہ میں رہتی تھیں اور مرحوم جب بھی لاہور سے گجرات آتے تو میری دادی مرحومہ کے لیے بھی وہی سوغاتیں ہمراہ لے کر آتے تھے جیسی اپنی بہن کے لیے لاتے تھے۔ ہاہ... ہمیں تو عمر بھر علم ہی نہ ہوا کہ ہمارے اور ان کے فرقے اتنے مختلف ہیں جن میں اب ہر کوئی ایک دوسرے کے لہو کا پیاسا ہو رہا ہے۔
بچپن میں محرم کے مہینے میں حلیم، کھچڑے اور ہریسے کا ہمیں بھی انتظار رہتا تھا، ہمارے گھر میں بھی عاشورہ کے روزوں کا اہتمام ہوتا تھا اور ہر طرح کی موسیقی بند رہتی تھی۔ شادی بیاہ کے سمیت کوئی بھی سعد کام نہ ہوتا اور ہر طرف سوگ کی فضا ہوتی... پھر ربیع الاول آتا تو بھی ہم سب یکجا ہوتے۔ جتنے اہتمام سے سب لوگ اکٹھے ہو کر مرکزی بازار میں عاشورے کا جلوس دیکھنے جاتے تھے اتنے ہی اہتمام سے سب تیار ہو کر عید میلاد النبی کا جلوس دیکھنے کو جاتے تھے، کھیر اور میٹھے کی پلیٹیں گھر گھر بھیجی جاتیں...
اب کیاہو گیا ہے؟ اس ملک کاکیا حشر کر دیا ہے ہم نے، مذہب کا چہرہ کیسے مسخ کر دیا ہے ہم نے... اور کس کے کہنے پر!!!! سننے میں آتا ہے کہ اس فرقے کو فلاں ملک اور اس فرقے کو دوسرا فلاں ملک sponsor کر رہا ہے... یہ ممالک ہم سب کو آپس میں لڑا کر اپنی اپنی دکانیں چمکائے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ مدرسے بن رہے ہیں، ہر مدرسہ ایک علیحدہ فرقے کا ہے اور ان سب فرقوں کے علیحدہ علیحدہ رہنما ہیں اور انھیں مختلف ممالک فنڈز دیتے ہیں۔ ہم نے اپنے محلے کی مسجد میں سب کو اکٹھے نماز پڑھتے دیکھا ہے، اب کیا تبدیلی احکامات اسلام میں آ گئی ہے؟ ہمارے اپنے دماغ ہیں، ہم نے انھیں دوسروں کے پاس کیوں گروی رکھ دیا ہے؟ کیوں ہم کتاب اللہ کی بجائے دوسرے ممالک سے عقائد چرا رہے ہیں۔ انھیں ہم سے کیا غرض ہو گی اگر ہم خود متحد ہوں گے... کس نے وہ کہانی نہیں سنی جس میں لکڑ ہارا اپنے بچوں کو لکڑیوں کے گٹھے سے سبق سکھاتا ہے کہ متحد ہونا کتنی بڑی طاقت ہے۔
امن وا مان کی صورت حال کے بگڑنے کا خطرہ درپیش رہتا ہے اور حکومت وقت کو بھی ان خطروں کی بابت علم ہوتا ہے... امن قائم کرنے والے سب کے سب ادارے ان جلسوں اور جلوسوں کی نگرانی اور حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو کر رہتا ہے۔ پہلے سے آگاہ بھی کر دیا جاتا ہے کہ فلاں شہر میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ کچھ شہروں میں باقاعدہ کرفیو کا نفاذ کر دیا جاتا ہے، دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹیلی فونوں کی ساری سروس منقطع کر دی جاتی ہے... ایک نہیں، تین تین دن کے لیے!!! کیا ٹیلی فون صرف دہشت گرد ہی استعمال کرتے ہیں؟ کیا عام آدمی کی ضروریات ختم ہو جاتی ہیں؟ کیا عام آدمی کے لیے بیماری، موت، تکلیف اور حادثات کو معطل کر دیا جاتا ہے کہ اسے کسی سے کسی ہنگامی حالت میں رابطے کی ضرورت نہ رہے؟
خدارا... اپنی سوچ کو بدلیں!!! حکومت اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے بھی اگر اس بات کا یقین کر لیں کہ دہشت گرد ان موبائل ٹیلی فونوں کے محتاج نہیں ہیں تو عام آدمی کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ بقول شخصے... کسی جرم کی تفتیش کرنا ہے تو مجرم کی طرح سوچو!
عاشورہ کے دن مجموعی طور پر امن وا مان سے گزر گئے تا وقتیکہ... اختتامی اوقات میں راولپنڈی میں ناخوشگوار واقعہ رونما ہو گیا۔ اب بھی ہم ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں گے، کوئی اس کے تدارک کے لیے یہ نہیں سوچے گا کہ دشمن ہماری صفوں میں موجود ہیں، چھپے ہوئے بھی نہیں، سر عام ہمیں بھڑکاتے، اپنے الفاظ سے آگ لگاتے اور ہمیں دوسروں کے خلاف انسانی بم بناتے ہوئے... دل سے خواہش ابھرتی ہے، کاش ہمیں ہمارا پہلا سا پیارا ملک واپس مل جائے، جہاں شاید اتنی مادی ترقی نہ تھی، پیسہ تھا نہ ایسی سہولتیں (جو اب ہمارے لیے سانس سے اہم بن گئی ہیں) مگر اس ملک میں پیار تھا، امن تھا، اتفاق تھا، بھائی چارہ تھا، اتحاد تھا، سادگی تھی، ایک دوسرے کے رشتوں اور فرقوں کے لیے احترام تھا... مہنگائی نہ تھی، ایک دوسرے سے نفرت نہ تھی، منافقت نہ تھی اور دہشت گردی نہ تھی!!!!!