اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

SHANKIARI:
''ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی، کئی سال سے جی کڑا کیے رکھا۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا۔ میری بات چھوڑیے، البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی۔'' (زہرہ علمدار حسین، والدہ حسن ناصر)

یہ بات کوئی اور کہے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک ماں کے الفاظ بڑے معنی خیز ہیں۔ ایسی عظیم مائیں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں جو اپنے لخت جگر کو نظریے سے جوڑ دیتی ہیں۔ رعنا سید حسن ناصر شہید 1948 میں آندھرا پردیش ہندوستان سے کراچی آئے، اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔ وہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار محسن الملک کے نواسے تھے۔ جب کراچی آئے تو ان کے ماموں نے انھیں کیمبرج یونیورسٹی میں داخلے کے لیے لندن بھیجنا چاہا، جس پر حسن ناصر نے انھیں جواب دیا کہ ''میں محنت کشوں کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کروں گا''۔ پھر وہ کراچی میں رہ لیے اور مزدور بستیوں سائٹ اور لانڈھی کورنگی میں اپنا ڈیرہ جمایا۔ انھوں نے لانڈھی ہڈی مل اور ماچس فیکٹری میں یونین سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی سرگرمیوں کے دوران ایک بار گرفتار ہوئے اور ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا مگر بعدازاں رہا کردیے گئے۔ یہ 1952 کی بات ہے۔ اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری تھے۔ لائٹ ہاؤس کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں جھاڑو دینے سے لے کر دفتری کام سب انجام دیتے تھے۔ یہاں ایک خاتون رہنما کامریڈ شانتا ہوا کرتی تھیں، جنھوں نے دفتری کمیون تشکیل دے رکھا تھا۔

دو آنے میں دال چاول کھلایا کرتی تھیں اور رات کو رہائش بھی اختیار کی جاسکتی تھی۔ وہ احمد آباد صنعتی علاقے ہندوستان سے آئی تھیں، ان کے شوہر سید جمال الدین بخاری کمیونسٹ پارٹی کے پرانے کارکن تھے۔ آج کل کامریڈ شانتا لاڑکانہ میں قیام پذیر ہیں اور 90 سال سے زیادہ عمر ہوگی۔ حسن ناصر جب کراچی سینٹرل جیل میں ایک بار مقید تھے تو سابق جسٹس اور الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی ابراہیم بھی ان سے جیل میں 1/2 بار ملاقاتیں کرنے گئے تھے۔ حسن ناصر شہید کا کمیونسٹ انقلاب پر غیر متزلزل یقین تھا۔ 1960 میں حسن ناصر پھر ایک بار ایوبی مارشل لا کے دور میں کراچی سے گرفتار ہوئے، اس وقت وہ 31 سال کے ہوگئے تھے۔ بعدازاں انھیں لاہور مغل فورٹ (لاہور شاہی قلعہ) کے تہہ خانے میں قید کرکے شدید جسمانی اذیت دی جانے لگی۔ اس دور میں کوئی بھی ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہ تھا۔ آخر کار کامریڈ میجر اسحاق جوکہ 1957 میں ہی وکالت پڑھ کر فارغ ہوئے تھے مقدمے کی پیروی کرنے لگے۔

13نومبر 1960 کو حسن ناصر کو جسمانی اذیت دیتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بڑی بہادری اور جرأت مندی سے مقدمہ لڑتے رہے۔ انجام وہی ہونا تھا جو ہوتا آیا تھا یا اب ہو رہا ہے۔ کامریڈ میجر اسحاق کی کتاب ''حسن ناصر کی شہادت'' میں ایک مقام پر کمیونسٹ پارٹی کے کارکن اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کہتے ہیں کہ ''دو تین برس اور گزر گئے'' ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مارشل لا نافذ ہوا۔ ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھر دیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زندان کا منہ دیکھا۔ چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی۔ ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈر ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے۔ اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا۔ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے دردناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے اس کی تفصیل ان کی کتاب میں موجود ہے۔

حسن ناصر پر سرکاری جھوٹے گواہوں میں سے ایک گواہ کا جھوٹ جس طرح بے نقاب ہوتا ہے، آپ خود پڑھیں۔ 13 نومبر 1960 گواہی نمبر 5، شبیر حسن خان اے ایس آئی لائنز افسر سی آئی ڈی حلقہ اردو بازار لاہور۔ ''مقامی پولیس کو میں نے اطلاع دی، متوفی کو آج میں نے 9 بجے صبح اپنے کمرے میں ٹہلتا پایا پھر تقریباً 12 بجنے میں 10 منٹ ہوئے ہوں گے کہ میں خود اپنے کمرے میں حجامت بنوا رہا تھا جو متوفی کے کمرے کے قریب ہے، کہ بکھا کے شور کرتے بھاگے آنے پر معلوم ہونے پر کہ نمبر 13 کے حراستی نے خودکشی کرلی۔ میں کمرہ نمبر 13 میں بھاگا گیا۔ وہاں طفیل سپاہی متوفی کے جسم کو سہارا دے رہا تھا اور متوفی غسل خانے کی دیوار جنوبی پر ایک ڈھائی انچ سیخ میں گلے میں جامہ لپیٹے ازار بند سے لٹک رہا تھا۔ میری مدد سے طفیل نے نعش کو سیخ سے اتارا۔ اتارتے وقت سیخ بھی اتر آئی جو موجود ہے۔ میں نے پاجامہ اور ازار بند اس کے گلے سے نکالا۔ یہ دونوں اس قدر گیلے تھے کہ پانی ان سے ٹپک رہا تھا۔ ناک سے معمولی تار کی سی مائع نکلی ہوئی تھی۔ میں نے متوفی کو مصنوعی طور پر سانس دینے کی کوشش کی اور تلے وغیرہ ملوائے۔ جمعدار کو ڈاکٹر کو بلوانے کے لیے بھیجا۔ پھر خود چلا گیا۔ لیکن معلوم ہوا کہ PAR کا ڈاکٹر بوجہ اتوار کی چھٹی پر ہے۔ میں نے ایس پی اور ڈی ایس پی صاحب کو اطلاع بذریعہ فون اور ایس پی صاحب بمعہ ڈاکٹر صاحب اور اے ڈی آئی جی صاحب تشریف لائے''۔


مزے کی بات ہے کہ کھونٹی 5 فٹ کی اونچائی پر تھی جب کہ حسن ناصر 6 فٹ کے تھے۔ ایسے واقعات راہ وفا میں جان دینے والے نذیر عباسی، ڈاکٹر تاج کے ساتھ بھی ہوئے اور ان کے قاتل پکڑے گئے اور نہ کوئی سزا ہوئی۔ اور پھر ایسے واقعات صرف پاکستان میں نہیں ہوئے چیکو سلواکیہ کے جیولس فیوجک، ارجنٹینا کے چی گویرا، برصغیر کے بھگت سنگھ، راج گورو، کھودی رام، چلی کے پابلو نرودا، شکاگو کے شہیدوں، افغانستان کے نورمحمد ترکئی، حفیظ اﷲ امین اور ڈاکٹر نجیب اﷲ جیسے عظیم رہنمائوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس موقع پر فیض احمد فیض کے اشعار یاد آتے ہیں:

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے قلم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

اب یہ فاصلہ بہت مختصر ہوچکا ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے حوالے سے نیویارک سے ٹوکیو تک، ایتھینز سے ڈھاکا تک، جوہانسبرگ سے استنبول تک عوام کا سمندر سڑکوں پر امنڈ آتا ہے۔ جس طرح حسن ناصر کی شہادت کی خبر سنتے ہی لاہور، پشاور، ڈھاکا، چٹاگانگ، پٹنہ، کولکتہ، دہلی، حیدر آباد (آندھرا) اور احمد آباد سمیت برصغیر کے متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ وہ مر کے بھی برصغیر کے محنت کشوں کو جوڑ گیا۔ آج حسن ناصر کا قافلہ ظلم، جبر، بھوک، افلاس، بے روزگاری، مہنگائی، خودکشیاں، بیماریاں اور جہالت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ آج بھی برازیل، جنوبی افریقہ، ترکی، تیونس، پرتگال، یونان، اسپین، ہندوستان اور پاکستان میں محنت کش جبری ریاست اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کی گروتھ ریٹ 9 فیصد سے گھٹ کر 2 فیصد پر آگئی ہے۔ 7 ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس لیے ہر جگہ عوام ردعمل کر رہے ہیں۔ لہٰذا سرمایہ داری کا متبادل ایک امداد باہمی کا سماج ہی عوام کے مسائل حل کرسکتا ہے۔
Load Next Story