جمہوریت کے ڈھنگ سراب کے رنگ
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ تو حکومتی پالیسی سے نالاں ہے۔
دنیا بھر میں جمہور کو انتخابی جال میں پھانسنے کے لیے نت نئے انوکھے وعدے کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ملک کے تھنک ٹینک بھی استعمال ہوتے ہیں اگر آپ کو یاد ہو تو امریکی انتخابات میں مسٹر ٹرمپ نے دنیا میں امن و آشتی کے وعدے کیے تھے۔ مگر ملک کی سب سے بڑی معاشی استحکام پہنچانے والی اسلحہ جات کی مشینری کا پیٹ بھرا گیا اور اربوں روپے کے اسلحہ جات کی شرق اوسط میں ڈیل کی گئی۔ مگر اس ڈیل سے امریکی عوام کا کوئی نقصان نہ تھا بلکہ معیشت کا پہیہ اور تیزی سے گھومنے لگا۔ملک کی تمام دولت ادھار لیے گئے پیسوں کی اقساط میں چلی جا رہی ہے۔
ٹیکس اور فیول جیسی ضروریات زندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فیول کی قیمت میں اضافہ خصوصاً کراچی کے بجلی کے نرخ میں اضافی بوجھ نے فیکٹری مالکان اور گھریلو صارفین کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ جب انتخابات کا بگل بجا تھا۔ تو درمیانی درجہ کی آمدنی والے لوگ اور کم آمدنی والے حضرات نے موجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے کی سر توڑ کوشش کی اور بالآخر جمہور نے جمہوریت کے نام پر پی ٹی آئی کو ملک کا سربراہ بنادیا۔ آرزوؤں اور امیدوں کے چراغ فتح پر روشن کیے گئے کہ تھوڑے دنوں میں تو مشکلات کا دور ختم ہو گا۔ اور وہ لوٹے گئے سرمائے کو واپس آتے دیکھیں گے۔
مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ دل کے عارضوں میں مبتلا لوگوں نے ملکی سرمائے میں کوئی اضافہ نہ کیا اور عوام کورٹ سے امیدیں لگائے گرانی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کو تو یقینا عوام کی آواز تصور کیا جاتا ہے مگر جب جمہوریت کے لیڈران جمہور سے دور ہوتے چلے جائیں اور ان کی تمام توانائی قرض خواہی میں خرچ ہونے لگے اور ملک کی صنعتی اور کاروباری ترقی کو دوسرے درجے پر کھڑا کردیا جائے تو پھر خدانخواستہ آنے والے وقتوں میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ ان اقساط کا بروقت بندوبست نہ ہوسکے، تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ وزیر اعظم کی خامی ہے جب کہ ملک کے اوپر قرض کا اتنا بوجھ ہے کہ ملک کی تمام توانائی اس راہ میں خرچ ہو رہی ہے۔ اور اس بات کے آثار پیدا ہوگئے ہیں کہ صنعتی پیداوار مزید زوال پذیر ہونے کی راہ پر ہے۔ کیونکہ ملک کا سرمایہ کار طبقہ موجودہ معاشی پالیسی سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں سرمایہ دار طبقے نے دوسرے ملکوں کا رخ کرلیا ہے۔ مگر ابھی ان کی تعداد کا علم نہیں۔ یہاں یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں قوم پرست سرمایہ دار طبقہ پیدا ہی نہیں ہوا وہ اپنی فلاح کی بنیاد سرمائے کو سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے بچپن میں ہی سرمائے کی گود میں آنکھ کھولی ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ تو حکومتی پالیسی سے نالاں ہے۔ مگر غریب طبقہ جس کو ملک میں ہی رہنا ہے اور اسی سرزمین میں دفن ہونا ہے وہ بھی معاشی دباؤ کا شکار ہے اور اس سے نجات کا اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ ملک سے مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرے اور ملک کی حفاظت میں جان قربان کردے۔ یہاں دونوں طبقات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تمام دولت مندوں کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کے سب راہ فرار کی تلاش میں ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو عشرت اور عسرت میں ملک کے شیدائی ہیں مگر ہمارے سامنے کچھ تاریخی اسباق ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ لیبیا کے سرمایہ دار طبقے نے کرنل قذافی کے ساتھ دشمنی روا رکھی اور محض اپنی دولت بچانے کی خاطر غیر ملکی حکومتوں کے آلہ کار بنے۔ یہاں تک کہ لیبیا کی حکومت کا مغربی ممالک کے ساتھ مل کر تختہ الٹنے میں ساتھ دیا اور ساتھ میں نام نہاد اسلام پسندوں نے بھی قذافی کی حکومت ہٹانے کا فیصلہ کیا جو آج بھی قتل و غارت میں مصروف ہے اور ترقی نے اپنی فوجوں کو امن و امان کی صورت بہتر بنانے کے لیے طرابلس بھیج دیا۔
لہٰذا میں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ کرنل قذافی جو حضرت ابوذر غفاری کا اسلامی سوشلزم تیس سال سے زیادہ عرصے سے چلا رہے تھے امرا کی سازشوں سے ہلاک کردیے گئے۔ سرمائے کو جیسا کہ شہ سرخی میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی ایک سرمایہ داروں کے نزدیک جمہوریت کا صرف ایک ہی رنگ ہے۔ وہ سرمایہ کی حدت اور لذت اس کے عوض سرمایہ داروں کا بیش تر طبقہ صرف سرمائے سے ہی محبت کرتا ہے۔ لہٰذا ملک کی موجودہ صورتحال دونوں جانب سے تشویش ناک ہے۔ ایک تو سایہ دار طبقے کا موجودہ معاشی پالیسیوں سے اختلاف رائے۔ جب کہ غریب طبقہ پریشانی سے نجات کے راستے تلاش کر رہا ہے۔
شہری علاقے خصوصاً کراچی مانا کہ ملک کی دولت کا بیش تر حصہ یہیں سے جا رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح ہے کہ اس سرزمین پر نہ کھیت ہیں نہ کھلیان ہیں صرف ہر کام روپے کی حرکت سے ہوتا ہے لہٰذا ٹیکسوں کا اضافی بوجھ اور فیول چارجز میں حکومت کے انتہا پسندانہ اقدام صبر کی حدیں توڑ سکتے ہیں اور یہاں ایسی کڑی آزمائش کا دن آ سکتا ہے جس سے حکومت بھی ہل سکتی ہے لہٰذا حکومت وقت کے رہنما عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ملک میں خصوصاً کراچی میں اپنی تنظیم نو کا آغاز کریں اور حساس، متوسط اور غریب طبقات میں رکن سازی کے علاوہ کارنر میٹنگوں کا آغاز کریں اور عوام کو بتائیں کہ ان کی تکالیف کے دن مزید کتنے باقی ہیں۔
اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ کے خاتمے کے بعد کسی نئی اسکیم کا آغاز بھی ضروری ہے جس میں غریب طبقات کی شمولیت ترجیحی بنیادوں پر رکھی جائے نہ کہ سیاسی بنیادوں پر۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو غریب اور متوسط بستیوں میں راشن شاپ کی دکانوں کا آغاز کیا جائے یا یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے اسپیشل کوپن سسٹم بنائے جائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس نجی محاذ پر غور و فکر کا وقت بہت کم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کام کو وزیر اعظم بہ نفس نفیس خود کریں بلکہ اپنے قریبی احباب کے سپرد فوری طور پر کریں تاکہ عوام میں جو فی الوقت دھیمی آنچ میں لاوا پک رہا ہے اس کا مداوا ہوسکے۔ اسی مہنگائی کے دور میں آٹے کے نرخ میں اضافہ غریبوں کے اوپر برق گرانے سے کم نہیں۔ یہ وزیر اعظم کی عوام میں عزت و ناموس ہے۔
جس کی وجہ سے گلی کوچوں میں اب تک خاموشی ہے مگر اجناس کے دام میں اضافہ وزیر اعظم کے خلاف ایک سازش سے کم نہیں جس کا اظہار وہ خود کرچکے ہیں مگر وہ اس کا علاج کیونکر کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس جو ٹیم ہے وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی ٹیم ہے جس میں جفاکشی، دماغ سوزی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں۔ وزیر اعظم کی ساری توجہ خزانے پر مرکوز ہے تاکہ اقساط کا دباؤ کم کیا جاسکے اور گرے لسٹ سے نکل کر بہتر روشن پر ملک چل پڑے۔ لیکن بقیہ ٹیم کے پاس تو منصوبہ بندی اور ہنرمندی کے اوقات موجود ہیں۔
ان کو عوام کی فلاح کے لیے اگر رقوم سے پیٹ نہیں بھر سکتے تو کم ازکم امید کا چراغ تو جلا سکتے ہیں کہ اجناس کے بھاؤ کی فہرست جاری کریں اس کے علاوہ روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش اور سبزیوں پر کنٹرول کرنے کے طریقے پر فوری عملدرآمد کیا جائے تاکہ عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ سکے۔ روزمرہ محض حکمران طبقہ بیانات کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے جب کہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کے لیے جامع منصوبہ بندی، کراچی کے لیے ٹرانسپورٹ سسٹم کا احیا نہایت ضروری ہے کیونکہ آفس ٹائم میں لوگوں کی اکثریت بسوں کی چھتوں پر اور دروازوں پر لٹک کر سفر کر رہی ہے جب کہ اسی ملک کے دوسرے صوبوں کا اتنا برا سفر کا سسٹم نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مقامی حکومت نے عوامی مشکلات کی جانب سے خاصی چشم پوشی برت رکھی ہے۔ مقامی رہنماؤں کو عوام کی مشکلات نظر آنے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ جس کے نتیجے میں ہر شخص ذاتی ٹرانسپورٹ کی خریداری پر توجہ دے رہا ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری ٹریفک میں اضافہ کراچی کا شیوہ بن گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی باقی ماندہ پارٹی ان کی عدم موجودگی میں بے فیض ہوچکی ہے اور مرکز سے امیدیں لگا رکھی ہیں جب کہ مرکز کے پاس وافر مقدار میں زر موجود نہیں۔ لیکن پھر بھی اس قدر کمی بھی نہیں کہ غیر ممالک سے رابطہ کرکے کراچی کے حالات کو درست کیا جاسکے۔
آخر تو جمہور کی قوت اور جمہوریت کے نام پر موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے۔ اور اپنی تمام صلاحیت غیر ملکی قرضوں کی اقساط پر ہی روا رکھی ہے ایسے موقع پر کسی زرعی انقلاب کا بگل بجائے بغیر ملک کے معاشی حالات صرف غیر ملکی امداد کے بل پر مضبوط نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایکسپورٹ میں زبردست کمی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ملک کی صنعت کو نرم رویے کی ضرورت ہے تاکہ ویلیو ایڈڈ آئٹمز کی ایکسپورٹ سے ملک اپنے بل پر کھڑا ہوسکے۔ ورنہ جمہوریت کا راستہ بدنظمی کا شکار ہو سکتا ہے اور غیر ممالک سے امداد کی ہمہ وقت توقع ہمیشہ پوری نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ غیر ممالک کی اپنی سیاسی مصلحتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ کبھی بھی یہ انبار آڑے آسکتے ہیں۔ لہٰذا امدادی رقوم کو معاشی سراب سے ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے اس پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔
ٹیکس اور فیول جیسی ضروریات زندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فیول کی قیمت میں اضافہ خصوصاً کراچی کے بجلی کے نرخ میں اضافی بوجھ نے فیکٹری مالکان اور گھریلو صارفین کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ جب انتخابات کا بگل بجا تھا۔ تو درمیانی درجہ کی آمدنی والے لوگ اور کم آمدنی والے حضرات نے موجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے کی سر توڑ کوشش کی اور بالآخر جمہور نے جمہوریت کے نام پر پی ٹی آئی کو ملک کا سربراہ بنادیا۔ آرزوؤں اور امیدوں کے چراغ فتح پر روشن کیے گئے کہ تھوڑے دنوں میں تو مشکلات کا دور ختم ہو گا۔ اور وہ لوٹے گئے سرمائے کو واپس آتے دیکھیں گے۔
مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ دل کے عارضوں میں مبتلا لوگوں نے ملکی سرمائے میں کوئی اضافہ نہ کیا اور عوام کورٹ سے امیدیں لگائے گرانی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کو تو یقینا عوام کی آواز تصور کیا جاتا ہے مگر جب جمہوریت کے لیڈران جمہور سے دور ہوتے چلے جائیں اور ان کی تمام توانائی قرض خواہی میں خرچ ہونے لگے اور ملک کی صنعتی اور کاروباری ترقی کو دوسرے درجے پر کھڑا کردیا جائے تو پھر خدانخواستہ آنے والے وقتوں میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ ان اقساط کا بروقت بندوبست نہ ہوسکے، تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ وزیر اعظم کی خامی ہے جب کہ ملک کے اوپر قرض کا اتنا بوجھ ہے کہ ملک کی تمام توانائی اس راہ میں خرچ ہو رہی ہے۔ اور اس بات کے آثار پیدا ہوگئے ہیں کہ صنعتی پیداوار مزید زوال پذیر ہونے کی راہ پر ہے۔ کیونکہ ملک کا سرمایہ کار طبقہ موجودہ معاشی پالیسی سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں سرمایہ دار طبقے نے دوسرے ملکوں کا رخ کرلیا ہے۔ مگر ابھی ان کی تعداد کا علم نہیں۔ یہاں یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں قوم پرست سرمایہ دار طبقہ پیدا ہی نہیں ہوا وہ اپنی فلاح کی بنیاد سرمائے کو سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے بچپن میں ہی سرمائے کی گود میں آنکھ کھولی ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ تو حکومتی پالیسی سے نالاں ہے۔ مگر غریب طبقہ جس کو ملک میں ہی رہنا ہے اور اسی سرزمین میں دفن ہونا ہے وہ بھی معاشی دباؤ کا شکار ہے اور اس سے نجات کا اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ ملک سے مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرے اور ملک کی حفاظت میں جان قربان کردے۔ یہاں دونوں طبقات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تمام دولت مندوں کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کے سب راہ فرار کی تلاش میں ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو عشرت اور عسرت میں ملک کے شیدائی ہیں مگر ہمارے سامنے کچھ تاریخی اسباق ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ لیبیا کے سرمایہ دار طبقے نے کرنل قذافی کے ساتھ دشمنی روا رکھی اور محض اپنی دولت بچانے کی خاطر غیر ملکی حکومتوں کے آلہ کار بنے۔ یہاں تک کہ لیبیا کی حکومت کا مغربی ممالک کے ساتھ مل کر تختہ الٹنے میں ساتھ دیا اور ساتھ میں نام نہاد اسلام پسندوں نے بھی قذافی کی حکومت ہٹانے کا فیصلہ کیا جو آج بھی قتل و غارت میں مصروف ہے اور ترقی نے اپنی فوجوں کو امن و امان کی صورت بہتر بنانے کے لیے طرابلس بھیج دیا۔
لہٰذا میں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ کرنل قذافی جو حضرت ابوذر غفاری کا اسلامی سوشلزم تیس سال سے زیادہ عرصے سے چلا رہے تھے امرا کی سازشوں سے ہلاک کردیے گئے۔ سرمائے کو جیسا کہ شہ سرخی میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی ایک سرمایہ داروں کے نزدیک جمہوریت کا صرف ایک ہی رنگ ہے۔ وہ سرمایہ کی حدت اور لذت اس کے عوض سرمایہ داروں کا بیش تر طبقہ صرف سرمائے سے ہی محبت کرتا ہے۔ لہٰذا ملک کی موجودہ صورتحال دونوں جانب سے تشویش ناک ہے۔ ایک تو سایہ دار طبقے کا موجودہ معاشی پالیسیوں سے اختلاف رائے۔ جب کہ غریب طبقہ پریشانی سے نجات کے راستے تلاش کر رہا ہے۔
شہری علاقے خصوصاً کراچی مانا کہ ملک کی دولت کا بیش تر حصہ یہیں سے جا رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح ہے کہ اس سرزمین پر نہ کھیت ہیں نہ کھلیان ہیں صرف ہر کام روپے کی حرکت سے ہوتا ہے لہٰذا ٹیکسوں کا اضافی بوجھ اور فیول چارجز میں حکومت کے انتہا پسندانہ اقدام صبر کی حدیں توڑ سکتے ہیں اور یہاں ایسی کڑی آزمائش کا دن آ سکتا ہے جس سے حکومت بھی ہل سکتی ہے لہٰذا حکومت وقت کے رہنما عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ملک میں خصوصاً کراچی میں اپنی تنظیم نو کا آغاز کریں اور حساس، متوسط اور غریب طبقات میں رکن سازی کے علاوہ کارنر میٹنگوں کا آغاز کریں اور عوام کو بتائیں کہ ان کی تکالیف کے دن مزید کتنے باقی ہیں۔
اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ کے خاتمے کے بعد کسی نئی اسکیم کا آغاز بھی ضروری ہے جس میں غریب طبقات کی شمولیت ترجیحی بنیادوں پر رکھی جائے نہ کہ سیاسی بنیادوں پر۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو غریب اور متوسط بستیوں میں راشن شاپ کی دکانوں کا آغاز کیا جائے یا یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے اسپیشل کوپن سسٹم بنائے جائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس نجی محاذ پر غور و فکر کا وقت بہت کم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کام کو وزیر اعظم بہ نفس نفیس خود کریں بلکہ اپنے قریبی احباب کے سپرد فوری طور پر کریں تاکہ عوام میں جو فی الوقت دھیمی آنچ میں لاوا پک رہا ہے اس کا مداوا ہوسکے۔ اسی مہنگائی کے دور میں آٹے کے نرخ میں اضافہ غریبوں کے اوپر برق گرانے سے کم نہیں۔ یہ وزیر اعظم کی عوام میں عزت و ناموس ہے۔
جس کی وجہ سے گلی کوچوں میں اب تک خاموشی ہے مگر اجناس کے دام میں اضافہ وزیر اعظم کے خلاف ایک سازش سے کم نہیں جس کا اظہار وہ خود کرچکے ہیں مگر وہ اس کا علاج کیونکر کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس جو ٹیم ہے وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی ٹیم ہے جس میں جفاکشی، دماغ سوزی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں۔ وزیر اعظم کی ساری توجہ خزانے پر مرکوز ہے تاکہ اقساط کا دباؤ کم کیا جاسکے اور گرے لسٹ سے نکل کر بہتر روشن پر ملک چل پڑے۔ لیکن بقیہ ٹیم کے پاس تو منصوبہ بندی اور ہنرمندی کے اوقات موجود ہیں۔
ان کو عوام کی فلاح کے لیے اگر رقوم سے پیٹ نہیں بھر سکتے تو کم ازکم امید کا چراغ تو جلا سکتے ہیں کہ اجناس کے بھاؤ کی فہرست جاری کریں اس کے علاوہ روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش اور سبزیوں پر کنٹرول کرنے کے طریقے پر فوری عملدرآمد کیا جائے تاکہ عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ سکے۔ روزمرہ محض حکمران طبقہ بیانات کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے جب کہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کے لیے جامع منصوبہ بندی، کراچی کے لیے ٹرانسپورٹ سسٹم کا احیا نہایت ضروری ہے کیونکہ آفس ٹائم میں لوگوں کی اکثریت بسوں کی چھتوں پر اور دروازوں پر لٹک کر سفر کر رہی ہے جب کہ اسی ملک کے دوسرے صوبوں کا اتنا برا سفر کا سسٹم نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مقامی حکومت نے عوامی مشکلات کی جانب سے خاصی چشم پوشی برت رکھی ہے۔ مقامی رہنماؤں کو عوام کی مشکلات نظر آنے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ جس کے نتیجے میں ہر شخص ذاتی ٹرانسپورٹ کی خریداری پر توجہ دے رہا ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری ٹریفک میں اضافہ کراچی کا شیوہ بن گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی باقی ماندہ پارٹی ان کی عدم موجودگی میں بے فیض ہوچکی ہے اور مرکز سے امیدیں لگا رکھی ہیں جب کہ مرکز کے پاس وافر مقدار میں زر موجود نہیں۔ لیکن پھر بھی اس قدر کمی بھی نہیں کہ غیر ممالک سے رابطہ کرکے کراچی کے حالات کو درست کیا جاسکے۔
آخر تو جمہور کی قوت اور جمہوریت کے نام پر موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے۔ اور اپنی تمام صلاحیت غیر ملکی قرضوں کی اقساط پر ہی روا رکھی ہے ایسے موقع پر کسی زرعی انقلاب کا بگل بجائے بغیر ملک کے معاشی حالات صرف غیر ملکی امداد کے بل پر مضبوط نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایکسپورٹ میں زبردست کمی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ملک کی صنعت کو نرم رویے کی ضرورت ہے تاکہ ویلیو ایڈڈ آئٹمز کی ایکسپورٹ سے ملک اپنے بل پر کھڑا ہوسکے۔ ورنہ جمہوریت کا راستہ بدنظمی کا شکار ہو سکتا ہے اور غیر ممالک سے امداد کی ہمہ وقت توقع ہمیشہ پوری نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ غیر ممالک کی اپنی سیاسی مصلحتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ کبھی بھی یہ انبار آڑے آسکتے ہیں۔ لہٰذا امدادی رقوم کو معاشی سراب سے ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے اس پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔