حکومت متوجہ ہو

حکومتوں میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اُس کی نظروں سے اوجھل نہ بھی ہوں مگر مصلحت کے تحت دبا دی جاتی ہیں۔


علی احمد ڈھلوں January 31, 2020
[email protected]

حکومتوں میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اُس کی نظروں سے اوجھل نہ بھی ہوں مگر مصلحت کے تحت دبا دی جاتی ہیں ، یہی حال آج کل پاکستان میں عوام کو مقامی طور پر تیار کردہ ایسی گاڑیاں سڑکوں پر چلانے کے لیے فروخت کی جا رہی ہیں جو انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ سے بھی تیسرے درجے پر ہوتی ہیں۔

کوالٹی کے اعتبار سے یہ اس قدر Lowاسٹینڈرڈ ہوتی ہیں کہ آپ ایسی گاڑی کسی ترقی یافتہ ملک میں چلانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے پس پردہ کیا حقائق ہیں اس حوالے سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ عوام کو حکومت کی جانب سے پابند ضرور کیا جاتا ہے کہ آپ باہر سے گاڑی منگوانے کے بجائے مقامی گاڑیاں خریدیں۔

صرف دو سال قبل یعنی 2018تک حکومتِ پاکستان درآمد شدہ گاڑیوں سے حاصل ہونے والی ڈیوٹیز کی مد میں سو ارب روپے سالانہ کمارہی تھی جب کہ گاڑیوں کی یہ درآمدات حکومت کے سرکاری خزانے پر کسی طرح کا بوجھ بھی نہ تھیں کیونکہ اس کی اجازت حکومتِ پاکستان نے ان ستر لاکھ سے زائد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو دے رکھی تھی جو ملک کی معیشت میں سالانہ پچیس ارب ڈالر سے جان ڈالتے ہیں۔

حکومتی پالیسی کے تحت جو پاکستانی دو سال سے زائد پاکستان سے باہر گزار لے وہ ایک گاڑی بھاری بھرکم ڈیوٹی ادا کرکے پاکستان لا سکتا ہے۔ یہ پاکستانی اپنی لائی ہوئی گاڑیوں کی مد میں حکومت کو سالانہ سو ارب روپے ڈیوٹیز کی مد میں ادا کر رہے تھے لہٰذا حکومتی خزانے میں صرف ٹیکس آتا تھا، جاتا یہاں سے کچھ بھی نہ تھا۔ پھر سالانہ 35 ہزار گاڑیوں کی درآمد سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملنے لگا، عوام کو معلوم ہوا کہ معیاری گاڑی کیا ہوتی ہے، ایئر بیگ کس مرض کی دوا ہوتے ہیں، ایک لیٹر میں بیس سے پچیس کلومیٹر چلنے والی ہائبرڈ گاڑیوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا۔

جاپان سمیت کئی ممالک کی گاڑیاں ہائبرڈ اور بجلی سے چلنے کی بدولت اب بیس سے پچیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں جس سے ان ممالک میں پٹرول کا استعمال کافی کم ہو گیا ہے جب کہ ہلکی سی ٹکر کی صورت میں بھی گاڑیوں کے معیاری ایئر بیگز کار سواروں کی جان بچانے کے لیے جھٹ سے کھل جاتے ہیں، دوسری طرف پاکستان جیسے ملک میں جہاں پٹرول نایاب اور مہنگا ہونے کے سبب ملک کی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے یہاں آج تک مقامی اسمبلرز نئی ٹیکنالوجی پر چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں ۔

یمن جیسے ملک میں بھی گاڑی پر اتنے ٹیکسز نہیں جتنے یہاں ہیں۔ اگر یہ زائد ٹیکسز اور ظالمانہ ڈیوٹیز کم کی جائیں تو ایک تو متوسط طبقے کا بھلا ہو، دوسرا کار ڈیلنگ کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو ،خصوصاً اگر سیکنڈ ہینڈ امپورٹڈ گاڑیاں منگوانے میں حکومت نرمی اختیار کرے تو آٹو اندسٹری میں مقابلے کی فضا بنے گی جس سے گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوںگی اور عام آدمی کو یقیناً فائدہ ہو گا۔اب ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ گاڑی کی ابھی رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی کہ اسے زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے جب کہ گاڑی کا انٹیرئر رکشے سے بھی گیا گزرا ہوتا ہے۔ادھر 1992 میں گورنمنٹ اسکیم کے تحت جو گاڑیاں امپورٹ کی گئی تھیں ان کو ابھی بھی زنگ نہیں لگا۔

حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں 1974 ماڈل کی پرانی گاڑی چلنے پر پابندی نہیں مگر 2008 ماڈل کی گاڑی امپورٹ کرنے پر پابندی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ امپورٹڈ گاڑی کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ حفاظتی فیچرز بھی رکھتی ہے۔ایک اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر ہزار میں سے اٹھارہ افراد کے لیے ایک کار ہے۔ بھارت میں ہزار میں سے بائیس افراد گاڑی کے مالک ہیں۔

امریکا میں ہزار میں سے 979اور برطانیہ میں ہزار میں سے 850افراد گاڑی کے مالک ہیں۔میں اس وقت امریکا میں موجود ہوں یہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی گاڑی سیفٹی چیکنگ کے بغیر سڑک پر آہی نہیں سکتی، پھر ہر کمپنی کو مارکیٹ میں گاڑی دینے کے لیے سخت رولز اینڈ ریگولیشن فالو کرنا پڑتے ہیں ۔ یہاں اگر کسی نئی گاڑی کمپنی کا فالٹ ثابت ہو جائے تو دنیا بھر میں اُس کمپنی کی گاڑیاں جہاں جہاں سیل ہو چکی ہیں وہیں انھیں فالٹ ٹھیک کرنے کا پابند ٹھہرایا جاتا ہے، ورنہ کسٹمر لاء کے تحت گاڑی کمپنی کو واپس کر کے نئی حاصل کر سکتے ہیں۔

جب بھی کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں آٹو موبائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو حکومت اُسے خصوصی مراعات اِس شرط کے ساتھ دیتی ہے کہ وہ کمپنی پانچ سال کے اندر اندر گاڑی کی تمام مینوفیکچرنگ پاکستان میں منتقل کردے گی تاہم پاکستان میں تیس تیس سال سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی سو فیصد مینوفیکچرنگ تو کیا ساٹھ فیصد مینوفیکچرنگ بھی پاکستان میں منتقل نہیں ہوئی بلکہ پارٹس بیرون ملک سے ہی درآمد کرکے گاڑیاں اسمبل کی جارہی ہیں۔ جس کے لیے کئی ملین ڈالرز اُن پارٹس کی خریداری کی مد میں بیرون ملک بھیجے جا رہے ہیں ۔گزشتہ ایک سال میں گاڑیوں کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس فیصد تک اضافہ کردیا یعنی چھ سو ساٹھ سی سی گاڑی سے لے کر دو ہزار سی سی گاڑی تک کی قیمت میں چھ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے کی قیمت بڑھا دی ہے لیکن پاکستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو ان بیجا بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روک سکے۔

خیر چند ماہ قبل اس قسم کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی تھی جو اس معاملے کی نگرانی کرے گی کہ مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کے معیارات کیا ہیں؟ اور انھیں کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے مگر ابھی تک وہ کمیٹی ہی منظر عام سے غائب ہے۔ حالانکہ اس کمیٹی نے احکامات جاری کیے کہ وہ نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کریں گے ۔

لیکن ابھی تک کار خریدنے والے اس قسم کے اقدامات کے ثمرات سے محروم ہیں اور مینوفیچکرز کے اپنے مسائل تاحال موجود ہیں جو لگتا یہی ہے کہ وہ بھی حل نہیں ہورہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ آٹو پالیسی میں ترمیم کرے ۔ گاڑیوں کی ہوش ربا قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کرے اور مقامی پروڈکشن بڑھائے یا امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرے ۔مینوفیکچرز کی مشکلات اور ان کے ٹیکس کے مسائل بھی حل کیے جائیں تاکہ ان کی پیداواری لاگت کم ہوسکے اور وہ گاڑیوں کی قیمتوں میں توازن لانے کے قابل ہوسکیں مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کچھ تو کرے جو عوام کو نظر آئے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔