ملک شام
شام کی اکثر آبادی عربی ہے، تھوڑی تعداد میں سیریانی، کرد، ترک اور دیگر آباد ہیں۔
لیبیا اور عراق کا دشمنوں نے کیا حال کیا ، شام بھی ان دجالیوں کے نرغے میں ہے ، مسلمانوں نے زندگی میں چراغ محبت بہت جلائے بجھائے وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے۔ جن لوگوں کو اپنے سپنوں میں موت نظر آتی ہے وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی جدوجہد کرتے ہیں ، جن کی مثالیں موجود ہیں۔ عجیب ہے داستان کہاں شروع کہاں ختم وہ سمجھ سکے نہ ہم روشنی کے ساتھ دھواں کیوں اٹھتا ہے شاید اب جاگ چکے ہیں ہم۔ کبھی جس جگہ خواب دیکھے تھے وہیں اڑتی ہوئی خاک دیکھ رہا ہوں۔
شام کے دارالحکومت دمشق میں چھوٹے بڑے سب ہی لوگوں سے ملا، ان تمام کی زبان پر ایک ہی بات مسلمانوں سے خائف ہماری آبادیوں، ہمارے ملکوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایک صاحب بول اٹھے ''تیسری جنگ عظیم کا یہ پیش خیمہ ہے ، آج نہیں تو کل اس نے ہونا ہے اور تمام مسلمان پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔'' بہرحال یہ وہاں کے لوگوں کے احساسات وجذبات ہیں۔ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے دشمن یہاں کے لوگوں کو خرید کر ہنگامے کرواتے ہیں ، ہم نے اپنی حسرتوں کے داغ چاہت ، الفت و ایثار میں دھو لیے۔ ہم پر ستم ڈھائے جاتے ہیں ، سہہ لیتے ہیں لیکن ایک دن یہ آتش فشاں پھٹے گا ، ان سب کو جلا کر راکھ کردے گا۔
ملک شام کے شمال میں ترکی ، مغرب میں بحیرہ روم اور لبنان ، جنوب میں اسرائیل اور اردن جب کہ مشرق میں عراق ہے۔ شام کا کل رقبہ ایک لاکھ پچیاسی ہزار ایک سو اسی مربع کلومیٹر ہے جب کہ مجموعی آبادی 2 کروڑ ہے۔ تاریخی اعتبار سے شام ایک قدیم تہذیبی و ثقافتی ملک رہا ہے۔ اپنی زر خیزی کے باعث یہ سرزمین لٹیرے بدوؤں کے لیے پرکشش رہی۔ دوسری صدی قبل مسیح کے آغاز میں عرب بدوؤں نے ریاست قائم کی ، پانچویں صدی عیسوی میں شام کی سرحدوں کی حفاظت کا کام لسانی سرداروں پر تھا جو کہ نسبتاً عرب ، مذہب کے لحاظ سے عیسائی تھے۔ 636 ء میں مسلمان شام کے قدیم شہر دمشق میں داخل ہوئے اور فتح یاب ہوئے۔
750ء تک عموی سلطنت قائم رہی۔ اسی سال عباسیوں نے عموی سلطنت ختم کر کے شام کا مرکز دمشق سے بغداد منتقل کر دیا۔ انیسویں صدی کے شروع تک زیادہ تر عثمانیہ سلطنت کے ماتحت رہا۔ 1918ء میں فرانسیسیوں اور برطانوی گٹھ جوڑ سے حکومت قائم ہوئی بعد میں یہ فرانس کے قبضے میں آ گیا۔ اسی سال فیصل بن حسین نے دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کی جس کے تحت شام کے کچھ علاقے لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے شامل تھے۔
1921ء میں شام چھ ریاستوں میں تقسیم ہوا ، اسی اثنا شام دیگر تحریکوں کی مزاحمت کا شکار رہا۔ جس میں فرانس شام کو طویل مصنوعی آزادی کا دھوکہ دیتا رہا۔ 1932ء میں پہلی دفعہ شام میں آزادی کا اعلان ہوا لیکن فرانس کی جنگی حکمت عملی اور ہٹ دھرمی شام کی آزادی میں رکاوٹ بنی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس، برطانیہ و دیگر یورپی ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے ان تمام ممالک نے محسوس کیا جن پر ہم قابض ہیں ان کو چلانا مشکل ہے۔ ابھی معاشی بدحال ہوئے ہیں بعد میں مزید بدحالی ہمارے قدم چومے گی۔ فرانس نے بھی یہی سوچا کہ اب وہ شام پر مزید حکومت کرنے سے قاصر ہے تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ ان ممالک نے اپنے قابض ممالک کو آزادی دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ جان چھڑائی خود اپنے اوپر احسان کیا۔
17 اپریل 1948ء شام ایک علیحدہ مملکت بن گیا۔ شام میں نظام حکومت صدارتی اور جمہوری طرز کا ہے۔ 1958ء میں مصر اور شام کے اتحاد کے نتیجے میں ''متحدہ عرب جمہوریہ'' کا قیام عمل میں آیا۔ 3 ستمبر 1961ء کو فوج نے بغاوت کر دی، فوج نے عرب جمہوریہ اتحاد سے قطع تعلق کر لیا۔ 1966ء کو فوجی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں شام نے اسرائیل سے شکست کھائی۔ یہودیوں نے شام کے جنوب مغرب میں واقع جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔
1971ء میں جنرل حافظ الاسد صدر بنے انھوں نے 2000ء تک اپنی صدارت کو قائم رکھا۔ 10 جون 2000ء میں یہ فوت ہو گئے۔ ان کے بیٹے بشار الاسد کو صدر بنا دیا گیا ان کا تختہ الٹنے کے لیے دشمنوں نے کئی بار کوشش کی شام کی فوج نے تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔
آج تک شام کے صدر بشار الاسد ہیں۔ دریائے دجلہ اور دریائے فرات سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ عراق سے تنازع کا سبب بنا، عراق اور شام کے درمیان پانی کا اہم مسئلہ رہا جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک میں کئی بار حالات خراب رہے۔ 2001ء میں شام اور عراق دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے پانی کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ 2000ء میں شام نے چھ سو کلومیٹر تک مارکرنے والے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ جس پر اسرائیل نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔ 2004ء میں امریکا نے ملک شام پر اقتصادی پابندی عائد کی اور شام کے اثاثے منجمد کر دیے۔ بشار الاسد کو ہٹانے کے احتجاج شروع کرائے گئے ، مارچ 2011ء میں مظاہروں میں شدت ہوئی لیکن دشمنوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔
شام میں آل رسولؐ کے مزارات ہیں ہر قدم پر نشان موجود ہیں، داستان کربلا سینوں میں موجود ہے۔ لبنان، یمن و دیگر ممالک سے عوام شام میں مزارات کی زیارت کو آتے ہیں۔ مسلمان دشمن اسرائیل کی حمایت میں مسلمانوں کو لڑانا چاہتے ہیں ہنگامہ، احتجاج کرواتے ہیں۔ شام میں فساد صدر کا بہانہ لے کر شروع کروایا آپس میں لڑوایا شام میں خانہ جنگی پیدا کی گئی لیکن شام کی فوج نے کامیاب ہونے نہ دیا۔ صیہونی طاقتیں شب و روز کوشاں ہیں خونریزی کرانے، معاشی بدحالی کا شکار بنانے ، اسلحہ تقسیم کیا جاتا رہا تا کہ آپس میں لڑتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن مسلم ممالک کو تیل کی دولت و زر سے نوازا ہے انھی ممالک کے حالات خراب ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد سے شام میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، لاکھوں شدید زخمی اپاہج ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
دمشق دنیا کا قدیم شہر شمارکیا جاتا ہے، اسی سرزمین پر حضرت آدمؑ نے رہائش اختیارکی تھی دنیا کا پہلا قتل ہوا۔ حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا۔ دمشق سے 45 کلو میٹر کے فاصلے پر وادی درہ ہے جہاں حضرت ہابیل کا روضہ بھی ہے ۔ شام کی سر زمین اپنے دامن میں اسلام کے مقدس اور نایاب موتی سمیٹے ہوئے ہے۔ دمشق شہر کو دنیا سے عجائبات کا اعزاز حاصل ہے ، شام میں دنیا کے چھ عجائب موجود ہیں۔
شام کے حلف شہر کو 2006ء میں مرکزی اسلامی تہذیب کا خطاب دیا گیا تھا۔ حلف میں تیار کردہ شیشہ سازی آرائش و تزئین کا سامان دنیا بھر میں مشہور ہے۔ شام اسٹیل کی پیداوار کی وجہ سے بہت مشہور ہے یہاں کا اسٹیل دنیا کے دیگر اسٹیل سے اعلیٰ درجے کا ہے۔ شام میں شاؤٹنگ علاقہ جہاں شام، لبنان، اردن اور اسرائیل کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس جگہ کا نام شاؤٹنگ اس لیے پڑا کہ یہاں کے لوگ زور زور سے چلا کر سرحد کی دوسری طرف موجود اپنے پیاروں سے بات چیت کرتے ہیں۔ شام کے موجودہ خراب حالات کی وجہ سے سیاحت میں 75 فیصد کمی آئی ہے۔ یہاں بے روزگاری 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔ شام نے کھیلوں کی تاریخ میں ایک سونے، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کیا ہے۔ شام کے پرچم میں موجود ستارے شام اور مصر کی عظیم دوستی کی عکاسی کرتے ہیں۔ شام کی کرنسی سیرین پونڈ کہلاتی ہے۔
شام کی اکثر آبادی عربی ہے، تھوڑی تعداد میں سیریانی، کرد، ترک اور دیگر آباد ہیں۔ مجھے محسوس ہوا یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی یادیں بھٹکنے لگی ہیں کھنڈرات کچھ کہہ رہے ہیں، نہ جانے کیسی کیسی داستانیں سامنے آ رہی ہیں محفل سجی خیالوں کی۔ سینے میں کچھ لمحات کتابوں میں یوں درج ہو جاتے ہیں لاکھ مٹانا چاہیں نہیں مٹا سکتے۔ داستانوں سے دامن چھڑانا چاہیں وہ بھی ممکن نہیں۔ ضروری نہیں یادوں کی خوشبو سے دل کا آنگن ہو مہکا۔ تار بجتے ہوئے میٹھا سُر یاد ضرور آیا ہو گا۔ زندگی میں آنے والی گھڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو بڑی بھاری گزرتی ہیں جن سے آنکھ موندنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی سچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چند سوالات لبوں پہ آ جاتے ہیں وہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جواب آسانی سے نہیں ملتے۔ یہی حال ملک شام کا ہے جس کو جمہوریہ سائبیریا بھی کہا جاتا ہے۔ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق 85.5 فیصد مسلم آبادی بقیہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہیں۔