کینسر کا علاج دریافت ہو گیا

برطانوی ماہرین نے تقریباً ہر قسم کا کینسر ختم کرنے والے ٹی خلیوں کی نئی قسم ڈھونڈ نکالی…خصوصی رپورٹ

برطانوی ماہرین نے تقریباً ہر قسم کا کینسر ختم کرنے والے ٹی خلیوں کی نئی قسم ڈھونڈ نکالی…خصوصی رپورٹ

اللہ تعالیٰ نے اگر انسان کا امتحان لینے کی خاطر بیماریاں پیدا فرمائی ہیں تو ان کا توڑ بھی انسان کو عطا کیا گیا۔ یہی وجہ ہے، انسان طبی تحقیق و تجربات سے موذی امراض کے علاج بھی دریافت کرلیتا ہے۔ تاہم کینسر یا سرطان ان گنے چنے امراض میں سرفہرست ہے جن کا شافی توڑ فی الحال سامنے نہیں آسکا۔ مگر اب صورتحال بدل سکتی ہے جو یقیناً کینسر میں مبتلا مریضوں کے لیے سب سے بڑی خوش خبری ہے۔

برطانوی ماہرین طب نے ہر قسم کے کینسر کا علاج کرنے والا طریق کار دریافت کرنے کی نوید سنائی ہے۔ اس علاج کا تعلق ہمارے ٹی خلیوں(T cells) سے ہے۔انسانی جسم کا حفاظتی یا مدافعتی نظام (Immune system)مخصوص خلیے رکھتا ہے۔ جب کسی بیماری کے جراثیم یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہوں تو سب سے پہلے یہی مدافعتی خلیے انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان خلیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ٹی خلیے وہ خصوصی مدافعتی خلیے ہیں جو کینسر کے خلیوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیت انہیں دیگر مدافعتی خلیوں سے ممتاز کردیتی ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی جرثومہ یا وائرس انسانی جسم کے کسی خلیے پر قبضہ کرلے تو متاثرہ خلیہ مخصوص پروٹین کے سالمات (Molecules) خارج کرتا ہے۔ یہی پروٹینی سالمے ٹی خلیوں میں مدافعتی نظام چالو کردیتے ہیں۔ ٹی خلیوں کی سطح پر بھی مخصوص پروٹینی سالمے پائے جاتے ہیں۔ اب جرثومے یا وائرس کی نوعیت و ہیئت کے مطابق ٹی خلیوں کی کوئی قسم متاثرہ خلیوں پر حملہ کردیتی ہے۔ حملہ یوں ہوتا ہے کہ ٹی خلیوں کے پروٹینی سالمات متاثرہ یا بیمار خلیے کی سطح پر چمٹ جاتے ہیں۔ یوں ٹی خلیوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بیمار خلیے کا تیا پانچہ کر ڈالیں۔

کینسر کا وائرس بیماریوں کی دنیا میں سپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے۔اکثر اوقات لاکھوں ٹی خلیے بھی اس وائرس سے متاثرہ خلیوں کو تباہ نہیں کرپاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وائرس کا نظام ان کے حملے بے اثر بنا دیتا ہے۔رفتہ رفتہ مگر تحقیق و تجربات سے عیاں ہوا کہ بعض انسانوں میں کینسر پنپ نہیں پاتا اور وہ شفایاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ان میں کینسر سے نبرد آزما خلیوں میں کوئی خاص بات تھی جس نے کینسر جیسے موذی بیماری کے وائرس کو پلنے بڑھنے نہیں دیا اور آخر مار ڈالا۔ چناں چہ طبی سائنس داں ٹی خلیوں پر تحقیق کرنے لگے۔

ایک عشرہ قبل انکشاف ہوا کہ جس انسان میں ایک پروٹینی مادہ،ایچ ایل اے (human leukocyte antigen) رکھنے والے ٹی خلیے زیادہ ہوں تو وہ خصوصاً خون کے کینسر میں مبتلا نہیں ہوتا۔یہ ایک اہم انکشاف تھا۔ بعدازں جنیاتی (جینیٹک) انجینئرنگ نے اس انکشاف کو علاج کی شکل دے ڈالی۔ یہ علاج CAR-T کہلاتا ہے۔اس علاج میں طریق کار یہ ہے کہ جب کوئی انسان خون کے کینسر میں مبتلا ہو، تو CAR-T اپناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا خون نکالا جاتا ہے۔

جس میں ٹی خلیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ یوں وہ خون کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں محو حرکت رہتے ہیں۔ پھر جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے نکالے گئے خون کے زیادہ سے زیادہ ٹی خلیوں میں ایچ ایل اے پروٹینی مادہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خون پھر مریض کے جسم میں جاپہنچتا ہے۔ یہ عمل کئی بار انجام پاتا ہے۔ اس طرح مریض کے جسم میں ایچ ایل اے رکھنے والے ٹی خلیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ یوں مریض تندرست ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایچ ایل اے پروٹینی مادے کی خامی یہ ہے کہ وہ عموماً کینسری رسولی سے چمٹ نہیں پاتا۔ اسی لیے جس انسان میں کینسر سے رسولی بن جائے، اس میں CAR-T کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم بعض طبی سائنس دانوں کو یقین تھا کہ ممکن ہے، ٹی خلیوں کی دیگر اقسام میں ایسے پروٹینی مادے پائے جاتے ہوں جن کی کثرت کینسری رسولیوں کا بھی خاتمہ کرسکے۔ پچھلے چند برس سے امریکا، برطانیہ اور جاپان کے طبی مراکز میں یہی جاننے کی خاطر تحقیق و تجربے جاری تھے۔ ان میں کارڈف یونیورسٹی کا سکول آف میڈیسن بھی شامل تھا۔

کارڈف یونیورسٹی برطانیہ کی معروف سرکاری درس گاہ ہے۔ کارڈف شہر میں واقع ہے۔ اس کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر اینڈریو سیول اپنی ٹیم کی مدد سے ٹی خلیوں پر تحقیق کررہے تھے۔ پچھلے سال انہوں نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ ٹیم نے کینسری خلیوں کے درمیان مختلف اقسام کے ٹی خلیے چھوڑ دئیے۔ ماہرین دیکھنا چاہتے تھے کہ کس قسم کے ٹی خلیے زیادہ سے زیادہ کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ لیبارٹری میں یہ تجربہ کئی بار کیا گیا۔

درج بالا تحقیق ہی سے کینسر پر حملہ کرنے والا نیا پروٹینی مادہ دریافت ہوگیا جو ایم آر 1 (MR1) کہلاتا ہے۔ یہ مادہ ٹی خلیوں کی مخصوص قسم،MC.7.G5 میں پایا جاتا ہے۔ ایم آر 1 بھی ایچ آر اے کی طرح کینسری خلیے کی سطح سے چمٹ جاتا ہے۔ یوں ٹی خلیہ اس سے جڑ کر اسے تباہ کرنے لگتا ہے۔ایچ آر اے اور ایم آر 1 میں مگر ایک بنیادی فرق ہے۔ جانوروں اور انسانوں میں بھی ہر ذی حس میں ایچ آر اے مختلف ہئیت رکھتا ہے۔ اسی لیے CAR-T طریق علاج میں پہلے ہر انسان کے ایچ آر اے کا مطالعہ کرکے اس کے مطابق بذریعہ جنیاتی انجینئرنگ نقول تیار ہوتی ہیں۔ اسی پیچیدگی کے باعث CAR-T ایک مشکل اور مہنگا علاج ہے۔ مگر ایم آر 1 تمام انسانوں میں ایک ہی صورت شکل رکھتا ہے۔

گویا اسے بطور علاج اپنانا زیادہ آسان اور سستا عمل ہے۔تجربات سے ایم آر 1 کی ایک اور انقلابی خصوصیت سامنے آئی... یہ کہ نیا پروٹینی مادہ کینسر کی رسولیوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ دوران تجربات طبی ماہرین نے پھیپھڑوں، جلد، خون، آنتوں، سینے، ہڈی، پروسٹیٹ، گردوں، بیض دانہ (Ovarian) اور کرولیکل پر حملہ آور کینسر کے خلیے لیے اور ان میں ایم آر1 والے ٹی خلیے چھوڑ دیئے۔ ٹی خلیوں نے کینسر کی درج بالا سبھی اقسام سے متاثر سبھی خلیوں کو مار ڈالا۔ اس بات نے طبی ماہرین کو نہ صرف حیران کر ڈالا بلکہ وہ جوش میں بھی آگئے۔


دراصل انہیں احساس ہوگیا کہ ایم آر 1 کی بدولت اب وہ کینسر کی بیشتر اقسام کا علاج ہوسکتا ہے۔ وجہ یہی کہ اول یہ پروٹینی مادہ تقریباً تمام انسانوں میں یکساں صورت و ہئیت رکھتا ہے۔ دوسرے ایم آر1 کینسری رسولیاں ختم کرنے کی بھی صلاحیت کا حامل ہے۔ گویا پروفیسر اینڈریو سیول کی زیر قیادت کارڈف یونیورسٹی کی ٹیم نے کینسر کا ایک نیا اور موثر طریق علاج دریافت کرلیا جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

پروفیسر اینڈریو کا پروگرام ہے کہ اسی سال یہ نیا طریق کار کینسر کے ان مریضوں پر آزمایا جائے جو مرض کی آخری سٹیج پہ ہیں۔یوں نئے طریقہ علاج کی خوبیاں اور خامیاں واضح طور پر سامنے آ سکیں گی۔نیز یہ بھی پتا چل سکے گا کہ انسانوں میں یہ طریقہ کتنا کارگر ثابت ہو گا۔دلچسپ بات یہ کہ طبی سائنس کی محیر العقول ترقی کے باوجود سائنس داں اب تک نہیں جان سکے، ٹی خلیے حیوانی جسم میں وائرس زدہ خلیوں سے کیونکر چمٹتے ہیں۔ان کے پروٹینی مادے کو وائرس زدہ خلیوں میں ایسا کیا نظر آتا ہے کہ وہ ان سے چمٹ جاتے ہیں، جبکہ بدن کے تندرست خلیوں کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔یہ راز جاننے کی خاطر بہرحال طبی ماہرین تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔اس بابت معلوم ہو جائے تو ٹی خلیوں پہ مبنی علاج زیادہ کارگر ہو جائے گا۔

نیا تباہ کن وبائی وائرس

ایک طرف دنیا بھر میں سائنس داں ناقابل علاج بیماریوں کو شکست دینے کی خاطر نت نئے علاج دریافت کر رہے ہیں تو دوسری سمت وائرس ،جراثیم اور زندگی کو نقصان پہنچانے والے دیگر نامیے بھی بہت سرگرم ہیں۔یہ نئے سے نئے امراض پیدا کر رہے ہیں۔کچھ عرصے سے ایک نئے موزی،کرونا وائرس نے چین کے شہر،ووہان میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔تادم تحریر یہ وائرس 80 انسانوں کو نمونیے میں مبتلا کر ان کی جانیں لے چکا۔ پوری دنیا میں تین ہزار مردوزن اس سے متاثر ہو چکے۔اس کا کوئی علاج فی الوقت موجود نہیں۔

نوول کرونا وائرس چھوتی (Infectious) وائرسوں اور جراثیم کے ایک ذیلی گروہ،وبائی(contagious) سے تعلق رکھتا ہے۔ وبائی وائرسوں،جراثیم اور دیگر موذیوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ماحول میں پھیل کر ایک انسان یا جانور سے دوسرے انسانوں اور جانوروں کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ان وبائی وائرسوں اور جراثیم کے بارے میں بعض بنیادی باتیں ہر بچے،جوان اور بوڑھے کو معلوم ہونی چاہیں تاکہ وہ ان سے محفوظ رہ کر تندرست کی دولت پائے رکھیں۔وبائی امراض ''قابل منتقلی'' (Transmissible) بھی کہلاتے ہیں۔وجہ یہ کہ وہ کسی نہ کسی ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایڈز، کالی کھانسی (Whooping cough)،چھوتی اسہال (Gastroenteritis)،عام بخار(کامن کولڈ)، ہیپاٹائٹس، نمونیہ، دق، انفلوئنزا، ملیریا، ڈینگی بخار، خسرہ، کن پیڑے (mumps) وغیرہ نمایاں وبائی یا چھوتی بیماریاں ہیں۔

یہ بات یاد رکھیے کہ کسی بھی وبائی مرض کا شکار انسان کے جسم سے جو بھی مادہ نکلے، اس میں بیماری کے وائرس اور جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ان مادوں میں تھوک کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔وجہ یہ کہ یہی مادہ بدن سے زیادہ نکلتا ہے۔تاہم مریض کے فضلے اور مادہ حیات میں بھی وائرس اور جراثیم وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب مریض کھانستا، چھینک مارتا، تھوکتا یا رال ٹپکاتا ہے تو آلودہ تھوک باہر آ جاتی ہے۔ کھانسنے یا چھینکنے سے اس کے منہ سے تھوک آبی بخارات بن کر بھی خارج ہوتی ہے۔یہ آبی بخارات ہوا میں شامل ہو کر تین فٹ دور تک جا سکتے ہیں۔یہ آبی بخارات جب بھی تندرست انسان میں داخل ہوں تو وہ بھی چھوت کا نشانہ بن سکتا ہے۔



ایک سے دوسرے انسان کو وبائی مرض کی منتقلی دو طرح سے ممکن ہے۔اول براہ راست(ڈائرکٹ)۔وہ یوں کہ دونوں افراد بہت قریب رہیں اور اکثر ایک دوسرے کو چھوتے رہیں۔ قربت کے لمحات بھی آ جائیں۔دوم غیر براہ راست (ان ڈائرکٹ)طریقے سے۔اس منتقلی کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کا کتا پہلے کسی وبائی مرض میں گرفتار ہوا۔چونکہ آپ کتے کے قریب رہتے ہیں لہذا جلد یا بدیر وہ آپ کو بھی وبائی بیماری کا وائرس یا جرثومہ منتقل کر دے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ فضا میں مریض کی چھینک سے تھوک کے آبی بخارات پھیل جائیں۔وہ پھر کسی بھی ذی حس کو نشانہ بنا لیں گے۔

بیرونی فضا یا کھلے ماحول میں ہر چھوتی یا وبائی مرض کے وائرس، جراثیم، فنگی(Fungi)اور دیگر مضر صحت نامیے و طفیلیے(Parasites) مختلف عرصہ زندہ رہتے ہیں۔جب کوئی وبا پھیل جائے تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کا وائرس وغیرہ کھلی ہوا میں کتنا عرصہ زندہ رہتا ہے۔اس طرح وبائی بیماری سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ماہرین طب کا کہنا کہ مریض سے نکلے آبی بخارات کچھ دیر ہوا میں گردش کرنے کے بعد بالاآخر کسی جگہ ٹک جاتے ہیں۔اگر اس جگہ تندرست آدمی نے ہاتھ لگا دیا تو وبائی وائرس یا جراثیم انگلیوں سے چمٹ جائیں گے۔اب آدمی نے انگلی ،کان ،ناک یا منہ میں ڈال لی تو تب وبائی وائرس وغیرہ اس کے جسم میں بھی داخل ہو اسے بیمار کر ڈالیں گے۔

یہ وبائی بیماری پھیلنے کا معروف طریق کار ہے۔بعض اوقات مریض کی جلد سے بھی وبائی وائرس چپکے ہوتے ہیں۔لہذا انھیں چھونے سے بھی وہ چمٹ سکتے ہیں۔تاہم وبائی وائرسوں اور جراثیم وغیرہ کی اکثریت جلد پر دس سے تیس منٹ تک زندہ رہتی ہے۔لیکن یہ موزی سخت اور نم مقام پہ کئی دن زندہ رہ سکتے ہیں۔اسی لیے وہ زیادہ خطرناک بن جاتے ہیںکہ کسی بھی وقت صحت مند انسان سے چمٹ کر اسے بھی بستر سے لگا دیتے ہیں۔

ماہرین کی رو سے فلو کے وائرس گھر کی اندرونی فضا میں سات دن زندہ رہتے ہیں۔مگر ایک دن بعد ان کی قوت میں کمی آنے لگتی ہے۔جتنا زیادہ عرصہ گذرے،وہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔فلو پیدا کرنے والے وائرس بھی سخت جگہ پر ایک دن زندہ پائے گئے۔تاہم ہاتھوں پر پانچ دس منٹ بعد ہی ان کی قوت کم ہو جاتی ہے۔وبائی وائرسوں،جراثیم وغیرہ سے بچنا کافی مشکل ہے لیکن بچاؤ کے طریقے اپنا لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔مثلاً وبا پھیلنے والے علاقے میں منہ ماسک سے ڈھانپ کر رکھیے۔دن میں بار بار ہاتھ منہ دھوئیں تاکہ انگلیوں ،ناک اور منہ پہ کوئی وائرس بسنے نہ پائے۔خاص طور پر پاخانے جانے کے بعد صابن سے ہاتھ ضرور دھویے۔کپڑے اور رہنے بسنے کی جگہ بھی صاف رکھیے۔
Load Next Story