راوی چین لکھتا ہے…

ہمارے حکمرانوں کو ان کے مشیران باتدبیر صبح شام، راوی چین ہی چین لکھتا ہے، کی لوریاں سناکر سلادیتے ہیں۔


ظفرالحق میمن November 17, 2013

ہمارے حکمرانوں کو ان کے مشیران باتدبیر صبح شام، راوی چین ہی چین لکھتا ہے، کی لوریاں سناکر سلادیتے ہیں۔ ایک گیسو سنوار یا کوئی اور سا نام ، جو مرحوم اسلام سلمانی نے دریافت فرمایا تھا، ایک بادشاہ کی شیو بناتا تھا۔ بادشاہ اس سے ملک کے حالات دریافت کرتا تھا اور وہ کہتا تھا، راوی چین لکھتا ہے ، ملک میں بڑا امن امان ہے ، شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں اورجب بکری پانی پی کر سیر ہو جاتی ہے ، تو شیر اس کی بلائیں بھی لیتا ہے۔ وزیر بادشاہ کو رپورٹ کرتا تھا کہ ملک میں بد امنی بڑھتی جارہی ہے اور حالات دگرگوں ہو گئے ہیں،اور اس بدامنی کے پیچھے آپ کے کچھ عزیزواقارب کا ہاتھ ہے ، لیکن بادشاہ اس کی بات سنتا ہی نہیں تھا۔

اس زمانے میں صرف ایک ہی وزیر ہوتا تھا، وزیروں، مشیروں، نائبانِ خاص اور وزراء رابطہ اور پتہ نہیں کیا کیا عہدے داروں (جن عہدوں کے نام آج تک کسی لغت میں ہی نہیں ہیں)، کی فوج ظفر موج نہیں ہوتی تھی۔ وزیر کو معلوم ہوگیا کہ ہو نا ہو، یہ گیسو سنوار ہی بادشاہ کے کانوں کے بال کاٹتے کاٹتے اس کے کان بھی بھرتا ہے کہ وزیر غلط بیانی سے کام لے رہا ہے ۔ ایک دن وزیر نے اپنے کسی خاص آدمی سے اس کے گھر سے کچھ چوری کروا لیا۔ دوسرے دن گیسو سنوار بڑا پریشان تھا ، بادشاہ کی شیو بنانے میں اس کا ہاتھ صحیح طرح سے نہیں چل رہا تھا۔ آخر کار بادشاہ نے پوچھ ہی لیا۔ وہ زاروقطار رونے،دہائیاں دینے لگا اور آخر اپنے گھر سے چوری کا ماجرا کہہ سنایا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے بتایا کہ پورے ملک میں بھتہ خوری، چوریاں، ڈکیتیاں، ٹارگٹ کلنگ،گینگ وار، فرقہ پرستی، زبان کے نام پر ایک دوسرے سے نفرتیں، موبائل چھیننے ، اغوا برائے تاوان، بسوں کے اندر مسافروں سے رقومات اور موبائل چھیننے کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔

بلکہ اس نے تو یہ بھی بتایا کہ نہ صرف جعلی دوائیاں، بلکہ ان کی قیمتیں بھی جب چاہے بڑھا دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ زندگی بچانے والی دوائیوں کی بلیک ایک طرف، ان کے صحیح ہونے کا بھی کوئی یقین نہیں ہوتا۔ پہلے دو نمبر کی دوائیاں آتی تھیں، اب تو تین نمبر کی بھی آگئی ہیں۔حفظان صحت کی طرف کوئی بھی توجہ نہیں ہے ۔ پانی تک صاف نہیں ملتا۔ ٹینکیوں میں کلورین کے نام سے پیسے تو لے لیے جاتے ہیں، لیکن وہ دوا ڈالی نہیں جاتی ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ ڈینگی بخار جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سیکڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں جھاڑو تک نہیں دیا جاتا ہے،کیونکہ سرکاری خاکروب صاحب لوگوں کے گھروں پر کام کررہے ہوتے ہیں ۔اور تو اور ٹریفک کے صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں جانوں کا ضیاع ہوتا رہتا ہے ۔ پولیس کا عملہ پروٹوکول ڈیوٹیوں پر ہوتا ہے ، شاذونادر ہی اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں۔ اور اگر ہوتے بھی ہیں تو غلط یا تیز رفتاری پر مک مکا کرلیتے ہیں۔ وی آئی پی اور وی وی آئی پی کی آمدورفت پر لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں، یہاں تک کہ انتہائی بیمار لوگ بھی اسپتالوں میں نہیں پہنچ پاتے اور بہت سارے تو راستے میں ہی دم توڑدیتے ہیں۔

بادشاہ یہ سب سن کر انگشت بدنداں ر ہ گیا، بلکہ اس کی آدھی انگلی دانتوں کے اندر کی طرف اور آدھی باہر، یعنی نیم دروں، نیم بروں رہ گئیں۔ اور وہ حیران رہ گئے اور کہا، اوہ یہ سب کچھ میرے ملک میں ہو رہا ہے اور مجھے کانوں کان خبر نہیں ہے ۔ چراغ تلے ایسا اندھیرا! میرے ہوتے ہوئے ایسی دہشت گردی اور لوٹ مار۔

پرائمری اسکول میں میرے ایک استاد محترم تھے ، جو ہمارے شہر کی ترقی کے لیے صدور، وزراء اعظم، وزراء اعلیٰ، وزراء، ضلعی حکام، مطلب یہ کہ ہر ارباب اختیار کو لکھتے رہتے تھے اور خامیاں بھی۔تقریباً ان کی پوری تنخواہ اس کام پر خرچ ہو جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ میرا خواب ہے کہ میرا شہر اچھا ہو۔ ٹیلی فون ان کی کوششوں سے آیا، لیکن وہ اپنے گھر پر نہیں لگواسکے ، کیونکہ نہ تو انھیں اس کی ضرورت تھی اور نہ ہی وہ اس کا خرچہ برداشت کر سکتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا یہ شغل پاکستان بننے سے پہلے سے ہے ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اْس زمانے میں میرے دلچسپ گنگا جمنی انگریزی میں لکھے گئے خطوط کے جوابات باقاعدگی سے ملتے تھے ، جب کہ اب کوئی بھی جواب نہیں دیتا۔ بلکہ وہ انگریزی میں لہک لہک کرکہتے تھے ۔

British government, good government, apply, quick reply. Pakistan government, bad government, apply, apply, no reply.

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اخبار پڑھتے تھے، لیکن وہ ازخود نوٹس نہیں لیتے تھے ۔ ہم نے یہ بھی نہیں سنا کہ انھوں نے اپنے کسی نائب کی معرفت کسی بات کا نوٹس لیا ہو، ورنہ ان کے سنہری دور میں نواب پور (پنجاب) کے ایک نواب اور ان کے کارندوں نے ایک خاتون کو گاؤں میں برہنہ گشت کروایا اور انھوں نے اخبار میں پڑھا بھی، بعد میں اس واقعہ سے ملتا جلتا ٹی وی ڈرامہ بھی شاید دیکھا، لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، ٹی وی پر لاہور کی ان ماؤں کو سسکیاں بھرتے دیکھ رہا ہوں، جن کی بچیوں اور بچوں کے گلے پتنگوں کی ڈور سے کٹ گئے ۔ کٹنا تو اس گلے سڑے سسٹم کی شہ رگ کو تھا مگر ۔۔۔۔۔پتہ نہیں ہماری یہ عیاشی اب تک کتنی گودیں اجاڑ چکی ہے ۔

یاد آیا کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلتا تھا تو وہ اور اس کے حواری جانوروں کے تعاقب میں تیر پھینکتے تھے یا فائرنگ کرتے تھے ، اس سے لوگ زخمی ہوجاتے یا مر جاتے تھے ۔ کسی نے شکار کے انچارج سے کہا کہ بھئی! کچھ احتیاط کریں، تاکہ جانیں ضایع نہ ہوں۔ اس نے کہا، بادشاہوں کے شکار میں تولوگ مریں گے ہی۔ ایک دن شکار کے دوران اس کا بیٹا مر گیا۔ لوگوں نے جب آکر بتایا تو وہ شکار چھوڑکر دوڑا آیا اور ہائے ہائے کرتا دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ کسی نے اس کے سامنے وہی الفاظ دہرائے جو وہ دوسروں کے مرنے پر کہا کرتا تھا۔ سنا ہے لاہور کے ایک صاحب فرماتے ہیں، بسنت میں پتنگ اڑانے پر پابندی لگانے سے پہلے میری لاش پر سے گذرنا ہوگا۔کاش یہ ڈور کبھی اس کے اپنے یا کسی بچے کی گردن پر گھوم جائے ۔

بہرحال بادشاہ نے گیسو سنوار سے کہا ،تم ہی بتاؤ کہ اب کیا کِیا جائے ۔اس ان پڑھ نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت، کم از کم روزانہ کوئی بھی ایک اخبار پڑھ لیا کریں اور اس میں اندرون ِملک کی خبریں اور قارئین کے خطوط یا مراسلات کے کالم ضرور پڑھیں، تو آپ کو سب کچھ معلوم ہوجائے گا اور آپ کا کوئی بھی خیر خواہ آپ سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں