بادل نخواستہ
تاریخ عالم اور تاریخ اسلام کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا تو اس تصویر کے کئی اور پہلو بھی سامنے آئے۔
مولا کریم کا بے حد احسان ہے کہ اس نے مجھے فطری طور پر چیزوں کے روشن پہلوؤں کو دیکھنے اور ان پر اعتماد کرنے کی توفیق عطا کی اور اپنی کتاب مقدس میں دلیلیں دے دے کر بتلایا کہ غار چاہے کتنی بھی طویل اور تاریک ہو اس کا کوئی نہ کوئی سرا روشنی کی طرف ضرور کُھلتا ہے تاریخ عالم اور تاریخ اسلام کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا تو اس تصویر کے کئی اور پہلو بھی سامنے آئے جن کا لُب لُباب یہ تھا کہ استثنائی صورتوں سے قطع نظر یہ روشن سرا خود بخود کہیں سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس کی طرف رخ کر کے آگے بڑھنا اور اسے تلاش کرنا پڑتا ہے اور یہ کہ جمود کی حالت زوال سے بھی زیادہ خطرناک ہے یہ موقع اس کی تفصیل میں جانے کا نہیں اشارے اور استعارے کی خاطر غالبؔ کے اس شعر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
لیکن اپنی تمام تر رجائیت اور امید پرستی کے باوجود آج بادل نخواستہ مجھے تاریخ عالم کے تناظر میں ان 350 برسوں کی گرد کو چھاننا ہے جو ہم پر بیت تو گئے مگر ہم نے گزارے نہیں اس کیفیت کے اظہار کے لیے بھی غالبؔ ہی کے ایک شاگرد خاص مولانا الطاف حسین حالیؔ یاد آ رہے ہیں جنھوں نے اس کی وفات میں کلاس روم میں استاد کے بجائے دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھنے والوں کی نقشہ کشی کچھ اس طرح سے کی ہے کہ:
مدرسے میں دہر کے روبر قضا بیٹھے تھے ہم
بس اٹھے ویسے ہی کورے' جیسے جا بیٹھے تھے ہم
جب کہ یہی مضمون استاد کے یہاں ایک مختلف حوالے سے کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے کہ
اہل بینش کو ہے طوفانِ حوادث' مکتب
لطمۂ موج کم از سیلیِٔ استاد نہیں
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کچھ احباب نے ایک فرانسیسی ڈاکٹر فرانسس برنیر کے حوالے سے قرون وسطیٰ میں گزرنے والے ان 350 برسوں کا نوحہ کیا ہے جن کی وجہ سے ہم مسلمان بحیثیت قوم پہلے سے دوسرے اور پھر مسلسل نیچے کے درجوں پر گرتے چلے گئے یہ سب کچھ کیسے ہوا اس کا تکلیف دہ حال بادل نخواستہ نقل کر رہا ہوں کہ سورج کی طرف چشمت کرنے سے سورج کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ متعلقہ لوگوں کے وجود ضرور سایوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ یہ شخص 1658ء سے 1670ء تک بارہ برس ہندوستان میں رہا۔ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے نہ صرف اس کی رسائی مغل دربار' شاہی خاندان' حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں تک براہِ راست ہو گئی بلکہ اس نے اس دور کے عوام کی زندگی' سوچ اور مسائل کو بھی قریب سے دیکھا۔ اس کی معلومات اور تبصروں سے جزوی اختلاف تو ممکن ہے لیکن یہ تصویر یقینا چشم کشا بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ اس کا سفرنامہ 1671ء میں فرانس میں شائع ہوا جو بعدازاں انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد آؤٹ آف پرنٹ ہو گیا۔ آیئے اب اس کے بیان کا خلاصہ دیکھتے ہیں۔
فرانسس برینر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں ملک میں امراء ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ۔ امراء محلوں میں رہتے ہیں۔ ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں' فوارے بھی' سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے۔ بادشاہ سلامت' وزراء' گورنر اور سرکاری اہلکار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں۔ دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں' بقراط' ارسطوئے زماں اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامات کرامات کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ آپ کو ایک دکان سے پشمینہ' کمخواب' زری اور ریشم کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل' گھی' آٹا اور شکر بک رہی ہو گی۔ آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی ... شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپ کو دکانوں پر گندگی' مکھیاں' مچھر' بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔
آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا۔ قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو گدھ اور کتے کا گوشت بھی کھلا دیتے ہیں... ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں۔ شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام بکتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے، مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ملک بھر میں جوتشیوں کی بھر مار ہے، یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھرا ڈال لیتے ہیں۔ ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا' ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے۔ ہندوستان کی زمینیں زیاد تر بنجر پڑی ہیں۔ لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے۔ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا کر لے جاتا ہے، لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔
لوگ کاری گر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہٰذا فنکار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں... ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں۔ عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں۔ بھوکے مر جائینگے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائینگے۔ ملک کا نظام تعلیم انتہائی ناقص ہے۔ یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے اور ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا۔ خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا ''میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضایع کر دیا'' ملک میں رشوت عام ہے۔ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں خزانچی بھی' وکیل بھی' جج بھی' پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی... سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں ... یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار ... ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرأ اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں ... بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرأ عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں گرد غبار' گندگی' بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہے اور جرائم عام ہیں' مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ احوال 1670ء کا ہے لیکن اگر ایک منٹ کے لیے کیلنڈر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے ''آج'' پر نظر ڈالی جائے تو چہروں' ناموں اور طریقہ کار کی جزوی تبدیلی سے قطع نظر اس Flash Back اور ہمارے اردگرد رواں منظر نامے میں شاید ہی کچھ فرق پڑا ہو۔ فرانسس برینر نے جو تصویر سترھویں صدی کے ہندوستان کی بیان کی ہے ممکن ہے اس سے ملتی جلتی حالت اس کے ملک یا یورپ میں بھی رہی ہو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کے معاشروں نے دین اور علوم کے ضمن میں اصلاحی تحریکوں کے باعث ان تمام برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی جب کہ ہم نے انھیں تقریر' روایت' تہذیب اور کلچر کی خود ساختہ چار دیواریوں میں نہ صرف قائم رکھا بلکہ ان کی آبیاری بھی کرتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ قوالی کے انداز میں ''جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں'' کا الاپ بھی جاری رکھا۔
دیکھا جائے تو ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے جو قرآن مجید میں کچھ اس طرح سے سمجھایا گیا ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنی حالت خود بدلنے کا چارا نہیں کرتی رب کریم بھی اس کی طرف نظر التفات نہیں کرتا سو یہ منظر نامہ جو میں نے بادل نخواستہ پیش کیا ہے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اس آیت مبارکہ کی طرف رجوع کریں تا کہ ہماری قوم بھی عالمی برادری میں سر اٹھا کر جی سکے۔ مرض بھی سامنے ہے اور دوا بھی' مسئلہ اگر ہے تو صرف مریض کی نیت اور کوشش کا ہے۔