ہم پاکستانی۔۔۔
معلومات کے جدید ترین ذرائع تو مغرب میں ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔
معلومات کے جدید ترین ذرائع تو مغرب میں ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ یہ سب ان ہی کی ایجادیں ہیں۔ اور ان کا سلیقے سے استعمال بھی ان ہی کو آتا ہے۔ موبائل فونز سے لے کر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور دیگر ذرائع سب ہی ان یہود و نصاریٰ کی ایجاد ہیں، جنھیں برا بھلا کہنے اور ان پر تبّرا بھیجنے میں ہمارے قابل احترام مولوی حضرات پیش پیش ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی نت نئی ایجادات کے باوجود یورپ اور امریکا میں مطالعے کا رجحان کم نہیں ہوا۔ وہاں سے آنے والے اور وہاں رہنے والے پاکستانی اور انڈین دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہاں ہر شخص اپنا اخبار خود خریدتا ہے۔ رسالے کتابیں اور بچوں کے میگزین بھی ہر گھر کا لازمی جزو ہیں۔ یہ لوگ ان کو پڑھنے کے بعد گھر کے باہر احتیاط سے رکھ دیتے ہیں جہاں سے ضرورت مند انھیں اٹھا لیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک یہ کتب و رسائل پاکستان بھیج دیے جاتے تھے۔
جہاں کتب فروش انھیں خاصے مہنگے داموں فروخت کر دیا کرتے تھے کیونکہ ان کا کاغذ، مواد اور چھپائی سب کچھ بہت اعلیٰ اور معیاری ہوتی تھی۔ کیونکہ مغربی اقوام کا جمالیاتی ذوق بہت اعلیٰ ہوتا ہے، بالخصوص فرانس کے باشندوں کا۔ نہایت اعلیٰ درجے کے پرفیوم کے علاوہ ذوق مطالعہ میں بھی وہ بہت آگے تھے۔ مغربی اقوام کا یہی جمالیاتی ذوق ان کی عام زندگی میں بھی ہر طرف نظر آتا ہے، خاص طور سے صفائی کے حوالے سے۔ خواہ چین ہو، جاپان ہو، سنگاپور ہو یا ہانگ کانگ کی شاہراہیں، محلے اور چھوٹی بڑی سڑکیں اور دکانیں۔ چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک مہذب سول سوسائٹی کے افراد ہیں اسی لیے اپنے اپنے گھروں کے علاوہ گھر سے باہر، دکانوں اور شو روم سے باہر کے علاوہ سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں کو بھی اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ غلاظت نہیں پھیلاتے، کوڑا ڈسٹ بن میں ڈالتے ہیں۔ اپنے اپنے شہروں اور محلوں کو صاف رکھتے ہیں۔
اسی لیے ان کا ملک بھی جگمگاتا رہتا ہے۔ جب کہ صفائی ان کے ایمان کا حصہ نہیں۔ (ہوسکتا ہے مولوی حضرات اس جملے پر فتویٰ صادر فرما دیں کہ ''ایمان'' تو صرف مسلمان کا ہوتا ہے) اور ہم جن کے لیے صفائی کو نصف ایمان کا حصہ بنا دیا گیا وہ سب سے غلیظ۔ گھر اپنے ہیں مگر سڑکیں اور فٹ پاتھ حکومت کی ہیں، اس لیے انھیں جی بھر کے گندا کرو۔ حکمرانوں کا رویہ بھی وہی ہے کہ صرف اسلام آباد کو صاف رکھو کہ بادشاہ اور بادشاہ گر یہاں رہتے ہیں، غیر ملکی مہمان آتے ہیں۔ بس اس سے آگے سوچنے کی انھیں ضرورت ہی نہیں کہ ان کے مصاحبین انھیں ہر وقت اپنے گھیرے میں لیے سقراط بقراط بنے یہ بتاتے رہتے ہیں کہ ان دو ٹکے کے عوام کی کوئی اوقات نہیں، خواہ ان کے محلے مچھروں اور مکھیوں سے بھر جائیں، خواہ یہ موذی امراض سے مرنے لگیں یا بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بیچنے لگیں یا خودکشیاں کرنے لگیں۔
جہاں تک صفائی نصف ایمان ہے، کا تعلق ہے وہ آپ کو گلی کی ہر دیوار پہ لکھا نظر آئے گا، لیکن اسی عبارت کے عین نیچے کوڑے کے ڈھیر، پان اور گٹکے کی پیکوں سے دیواریں ایسا بھیانک منظر پیش کریں گی کہ سیاہ چشمہ لگائے بغیر وہاں سے گزرا نہیں جا سکتا۔ لیکن عرب ممالک نے اپنے مضبوط قانون کے ذریعے اس وبا پہ قابو پا لیا ہے۔ کیونکہ پرانے بادشاہوں کی طرح موجودہ بادشاہوں میں بھی ابھی وہ خو بو باقی ہے کہ اگر قانون کو مذاق بنا لیا گیا تو یہ ایک دن خود انھیں مذاق بنا دے گا۔ قانون کے خوف اور اس پر عمل درآمد کے باعث ہی وہاں کی سڑکیں صاف ستھری نظر آتی ہیں اور ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد پاکستان سے دبئی کے ایئرپورٹ پہ کھڑے بڑے بڑے طرم خان تیر کی طرح سیدھے اور کسی سدھائے ہوئے پالتو جانور کی طرح قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
سڑکوں پہ سگریٹ کی خالی ڈبیاں، چپس اور کولڈ ڈرنک کے خالی ڈبے، چلتی گاڑیوں سے باہر نہیں پھینکتے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔۔۔؟ یہ پاکستان نہیں کہ کسی غلطی پر اگر ذمے دار ٹریفک پولیس چالان کرنے کی جرأت کرے تو لاتوں، مکوں اور گھونسوں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے، اسلام آباد کی سڑکوں پہ کثرت سے یہ نظارے دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ایم این اے کے لاڈلے بیٹے اور بیٹیاں اپنی لین سے آگے نکل کر اگلی گاڑی کے ڈرائیور کو دروازہ کھول کر باہر نکال کر منہ پہ گھونسا جڑ کر دو دانت توڑ کے چلاّ کر کہتے ہیں کہ تمہیں پتہ نہیں میں کس کا بیٹا ہوں۔۔۔ تم نے مجھے آگے نکلنے کا راستہ کیوں نہ دیا۔۔۔۔ اور ایسی بے شمار وارداتوں کے عینی گواہ ٹریفک پولیس کے اہلکار دم سادھے چپ کھڑے رہتے ہیں کہ بولے تو جان سے گئے۔
میں نے ابتدا میں مطالعے کے فقدان کی بات کی تھی۔ کافی حد تک ہماری سماجی برائیوں کی وجہ مطالعے کا فقدان بھی ہے۔ میری مراد بڑی بڑی دقیق علمی و ادبی کتابوں سے نہیں ہے بلکہ میرا اشارہ اخبار کے مطالعے کی کمیابی سے ہے۔ یہاں بعض لوگ مہنگائی کا حوالہ دیں گے۔ لیکن جن گھروں میں مہنگا ترین پیزا، برگر، چپس، کولڈ ڈرنک روز مرہ کے کھانوں میں شامل ہوں وہ کیا دس روپے کا ایک اخبار نہیں خرید سکتے۔۔۔؟ اخبارات خبروں کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے لوگوں کی صبح آج بھی اخبار کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ جب کہ عام لوگ اب ٹاک شوز کے تماشوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ چلو وڈیرے کے پالتو جانوروں کی لڑائی نہ دیکھی، ٹاک شوز میں خاص لوگوں کو لڑتے، چنگھاڑتے گلا پھاڑتے دیکھ لیا۔ یہ ایک سستا اور پر مزاح تماشا ہے۔ بالکل ان فلموں کی طرح جن پر اگلی صفوں میں بیٹھنے والے خوش ہو کر اٹھنی پھینکا کرتے تھے۔ مرغوں کی لڑائی بھی صرف زمیندار ہی دکھا سکتا ہے۔ مگر یہ ایک مہنگا شوق ہے۔ مرغے ہوں یا بھالو، وہ بھی ایک دوسرے کو لہو لہان کر کے داد طلب نگاہوں سے مالک کو دیکھتے ہیں۔
بات پھر وہیں پہ آ گئی کہ مہذب ممالک میں نہ مطالعے میں کمی آئی ہے نہ کتابیں چھپنے میں نہ ان کے بکنے میں۔ ان مہذب اور سو فیصد پڑھے لکھے معاشرے میں ایک ادیب اپنے قلم کی روٹی نہایت عزت سے کھاتا ہے اور ہمارے ہاں ماں یا باپ کے مرنے کے بعد سب سے پہلے کتابیں باہر پھینکی جاتی ہیں تا کہ بچوں کو ایک الگ کمرہ مل سکے۔ ہم ہر معاملے میں الٹی گنتی کی طرف جا رہے ہیں۔ غلاظت کے ڈھیر اور دہشت گردوں کے والی وارث اب ہماری پہچان ہیں۔ جن کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ وہ سو سو بہانوں سے اس کی تشہیر کریں گے۔ کبھی دہشت گردوں کو شہادت کے رتبے پہ فائز کر کے اپنے اندر کے الجھاؤ کو عیاں کر دیں گے اور کبھی غریبوں کے نادار بچوں کو بھاری رقوم کا لالچ دے کر جہاد کا ایندھن بنا دیں گے۔ آگے کا منظر نامہ بہت صاف اور واضح ہے۔
جہاں کتب فروش انھیں خاصے مہنگے داموں فروخت کر دیا کرتے تھے کیونکہ ان کا کاغذ، مواد اور چھپائی سب کچھ بہت اعلیٰ اور معیاری ہوتی تھی۔ کیونکہ مغربی اقوام کا جمالیاتی ذوق بہت اعلیٰ ہوتا ہے، بالخصوص فرانس کے باشندوں کا۔ نہایت اعلیٰ درجے کے پرفیوم کے علاوہ ذوق مطالعہ میں بھی وہ بہت آگے تھے۔ مغربی اقوام کا یہی جمالیاتی ذوق ان کی عام زندگی میں بھی ہر طرف نظر آتا ہے، خاص طور سے صفائی کے حوالے سے۔ خواہ چین ہو، جاپان ہو، سنگاپور ہو یا ہانگ کانگ کی شاہراہیں، محلے اور چھوٹی بڑی سڑکیں اور دکانیں۔ چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک مہذب سول سوسائٹی کے افراد ہیں اسی لیے اپنے اپنے گھروں کے علاوہ گھر سے باہر، دکانوں اور شو روم سے باہر کے علاوہ سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں کو بھی اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ غلاظت نہیں پھیلاتے، کوڑا ڈسٹ بن میں ڈالتے ہیں۔ اپنے اپنے شہروں اور محلوں کو صاف رکھتے ہیں۔
اسی لیے ان کا ملک بھی جگمگاتا رہتا ہے۔ جب کہ صفائی ان کے ایمان کا حصہ نہیں۔ (ہوسکتا ہے مولوی حضرات اس جملے پر فتویٰ صادر فرما دیں کہ ''ایمان'' تو صرف مسلمان کا ہوتا ہے) اور ہم جن کے لیے صفائی کو نصف ایمان کا حصہ بنا دیا گیا وہ سب سے غلیظ۔ گھر اپنے ہیں مگر سڑکیں اور فٹ پاتھ حکومت کی ہیں، اس لیے انھیں جی بھر کے گندا کرو۔ حکمرانوں کا رویہ بھی وہی ہے کہ صرف اسلام آباد کو صاف رکھو کہ بادشاہ اور بادشاہ گر یہاں رہتے ہیں، غیر ملکی مہمان آتے ہیں۔ بس اس سے آگے سوچنے کی انھیں ضرورت ہی نہیں کہ ان کے مصاحبین انھیں ہر وقت اپنے گھیرے میں لیے سقراط بقراط بنے یہ بتاتے رہتے ہیں کہ ان دو ٹکے کے عوام کی کوئی اوقات نہیں، خواہ ان کے محلے مچھروں اور مکھیوں سے بھر جائیں، خواہ یہ موذی امراض سے مرنے لگیں یا بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بیچنے لگیں یا خودکشیاں کرنے لگیں۔
جہاں تک صفائی نصف ایمان ہے، کا تعلق ہے وہ آپ کو گلی کی ہر دیوار پہ لکھا نظر آئے گا، لیکن اسی عبارت کے عین نیچے کوڑے کے ڈھیر، پان اور گٹکے کی پیکوں سے دیواریں ایسا بھیانک منظر پیش کریں گی کہ سیاہ چشمہ لگائے بغیر وہاں سے گزرا نہیں جا سکتا۔ لیکن عرب ممالک نے اپنے مضبوط قانون کے ذریعے اس وبا پہ قابو پا لیا ہے۔ کیونکہ پرانے بادشاہوں کی طرح موجودہ بادشاہوں میں بھی ابھی وہ خو بو باقی ہے کہ اگر قانون کو مذاق بنا لیا گیا تو یہ ایک دن خود انھیں مذاق بنا دے گا۔ قانون کے خوف اور اس پر عمل درآمد کے باعث ہی وہاں کی سڑکیں صاف ستھری نظر آتی ہیں اور ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد پاکستان سے دبئی کے ایئرپورٹ پہ کھڑے بڑے بڑے طرم خان تیر کی طرح سیدھے اور کسی سدھائے ہوئے پالتو جانور کی طرح قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
سڑکوں پہ سگریٹ کی خالی ڈبیاں، چپس اور کولڈ ڈرنک کے خالی ڈبے، چلتی گاڑیوں سے باہر نہیں پھینکتے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔۔۔؟ یہ پاکستان نہیں کہ کسی غلطی پر اگر ذمے دار ٹریفک پولیس چالان کرنے کی جرأت کرے تو لاتوں، مکوں اور گھونسوں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے، اسلام آباد کی سڑکوں پہ کثرت سے یہ نظارے دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ایم این اے کے لاڈلے بیٹے اور بیٹیاں اپنی لین سے آگے نکل کر اگلی گاڑی کے ڈرائیور کو دروازہ کھول کر باہر نکال کر منہ پہ گھونسا جڑ کر دو دانت توڑ کے چلاّ کر کہتے ہیں کہ تمہیں پتہ نہیں میں کس کا بیٹا ہوں۔۔۔ تم نے مجھے آگے نکلنے کا راستہ کیوں نہ دیا۔۔۔۔ اور ایسی بے شمار وارداتوں کے عینی گواہ ٹریفک پولیس کے اہلکار دم سادھے چپ کھڑے رہتے ہیں کہ بولے تو جان سے گئے۔
میں نے ابتدا میں مطالعے کے فقدان کی بات کی تھی۔ کافی حد تک ہماری سماجی برائیوں کی وجہ مطالعے کا فقدان بھی ہے۔ میری مراد بڑی بڑی دقیق علمی و ادبی کتابوں سے نہیں ہے بلکہ میرا اشارہ اخبار کے مطالعے کی کمیابی سے ہے۔ یہاں بعض لوگ مہنگائی کا حوالہ دیں گے۔ لیکن جن گھروں میں مہنگا ترین پیزا، برگر، چپس، کولڈ ڈرنک روز مرہ کے کھانوں میں شامل ہوں وہ کیا دس روپے کا ایک اخبار نہیں خرید سکتے۔۔۔؟ اخبارات خبروں کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے لوگوں کی صبح آج بھی اخبار کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ جب کہ عام لوگ اب ٹاک شوز کے تماشوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ چلو وڈیرے کے پالتو جانوروں کی لڑائی نہ دیکھی، ٹاک شوز میں خاص لوگوں کو لڑتے، چنگھاڑتے گلا پھاڑتے دیکھ لیا۔ یہ ایک سستا اور پر مزاح تماشا ہے۔ بالکل ان فلموں کی طرح جن پر اگلی صفوں میں بیٹھنے والے خوش ہو کر اٹھنی پھینکا کرتے تھے۔ مرغوں کی لڑائی بھی صرف زمیندار ہی دکھا سکتا ہے۔ مگر یہ ایک مہنگا شوق ہے۔ مرغے ہوں یا بھالو، وہ بھی ایک دوسرے کو لہو لہان کر کے داد طلب نگاہوں سے مالک کو دیکھتے ہیں۔
بات پھر وہیں پہ آ گئی کہ مہذب ممالک میں نہ مطالعے میں کمی آئی ہے نہ کتابیں چھپنے میں نہ ان کے بکنے میں۔ ان مہذب اور سو فیصد پڑھے لکھے معاشرے میں ایک ادیب اپنے قلم کی روٹی نہایت عزت سے کھاتا ہے اور ہمارے ہاں ماں یا باپ کے مرنے کے بعد سب سے پہلے کتابیں باہر پھینکی جاتی ہیں تا کہ بچوں کو ایک الگ کمرہ مل سکے۔ ہم ہر معاملے میں الٹی گنتی کی طرف جا رہے ہیں۔ غلاظت کے ڈھیر اور دہشت گردوں کے والی وارث اب ہماری پہچان ہیں۔ جن کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ وہ سو سو بہانوں سے اس کی تشہیر کریں گے۔ کبھی دہشت گردوں کو شہادت کے رتبے پہ فائز کر کے اپنے اندر کے الجھاؤ کو عیاں کر دیں گے اور کبھی غریبوں کے نادار بچوں کو بھاری رقوم کا لالچ دے کر جہاد کا ایندھن بنا دیں گے۔ آگے کا منظر نامہ بہت صاف اور واضح ہے۔