حجام اور نائی اب ہیئر ڈیزائنر بن گئے ہیئر ڈریسر اور بیوٹی سیلون کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا

خواتین کی طرح مرد خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد فیشل، مساج اور تھریڈنگ کراتی ہے۔


Staff Reporter/عامر خان November 17, 2013
ایف سی ایریا کے ہیئرسیلون میں ہیئر ڈریسربزرگ شہری کی حجامت بنارہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا کا قدیم ترین پیشہ '' حجامت '' ( بال تراشنا ) حالات کے بدلتے رخ کے باوجود کبھی تنزلی کا شکار نہیں ہوا۔گزرتے وقت کے ساتھ اس پیشے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ پیشہ عروج کی طرف گامزن ہے، کراچی میں اس پیشے سے وابستہ افرا د کو لوگ نائی کے نام سے پکارتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اب یہ نام معدوم ہوتا جارہا ہے اب اس کی جگہ ہیئر ڈریسر نے لے لی ہے،

کراچی میں 20 برس قبل سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر سیکڑوں کی تعداد میں نائیوں کے ٹھیے ہوا کرتے تھے اور وہ ایک شیشہ اور کرسی لے کر اپنے اوزاروں کی مددسے لوگوں کے بال کاٹتے اور ان کی شیو بناتے تھے لیکن معاشرے کے نئے رنگ ڈھنگ اس پیشے پر بھی غالب آگئے اور اب ان کی جگہ شہر کے تمام علاقوں میں بڑی بڑی ہیئر ڈریسرز شاپس اور بیوٹی سیلون نے لے لی ہیں، شہر میں ہیئر ڈریسر شاپس اور بیوٹی سیلون کی تعداد جو آج سے10 برس قبل 8 ہزار تھی لیکن مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس پیشے میں سرمایہ کاری کرکے جدید سہولیات سے آراستہ دکانیں قائم کرلی ہیں اور اب ان کی تعداد بڑھ کر20 ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے اب ان دکانوں پر نہ صرف بال کاٹے جاتے ہیں ۔

بلکہ خواتین کی طرح مرد خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد فیشل، مساج اور تھریڈنگ کراتی ہے، ایکسپریس سروے کے دوران لیاقت آباد میں واقع نیو زینت ہیئر ڈریسر کے مالک سیف اللہ نے بتایا کہ نائی کا پیشہ ہر دور میں تنزلی کے بجائے عروج پر رہا ہے،کراچی کے حالات تو تبدیل ہوتے گئے لیکن یہ پیشہ سکڑنے کے بجائے پھیلتا گیا اور اب اس پیشے میں نئی جدت آ گئی ہے اور جدید سہولیات سے آراستہ دکانیں شہر کے ہر علاقے میں موجود ہیں انھوں نے بتایا کہ نائی کے پیشے میں قینچی سب سے اہم اوزار ہے اس پیشے میں7 قسم کی قینچیاں استعمال ہوتی ہیں ، جن کی قیمت 200 روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک ہے جبکہ جدید دور میں زگ زیگ قینچی متعارف ہوئی ہے، جو ہلکے بالوں کی کٹنگ میں استعمال ہوتی ہے اور اس قینچی کے ذریعے مختلف انداز کے بال کاٹے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بالوں کی کٹنگ میں 2 قسم کے دانوں والے برش استعمال کیے جاتے ہیں، پہلا برش گول ہوتا ہے ، جو بالوں کو گھمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دانوں والا دوسری قسم کا برش بالوں کو کھڑا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ برش 200 روپے سے لے کر 500 روپے تک ملتے ہیں انھوں نے بتایا کہ بالوں کی کٹنگ میں7 قسم کے کنگے استعمال ہوتے ہیں ان میں چھوٹے ، موٹے اور باریک کنگے شامل ہیں جو 30 روپے سے لے کر500 روپے تک ملتے ہیں انھوں نے بتایا کہ بالوں کی کٹنگ میں پہلے ہاتھ مشین استعمال ہوتی تھی لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ اب اس کی جگہ الیکٹرک مشین نے لے لی ہے، یہ الیکٹرک مشین2000 روپے سے لے کر 15000 روپے تک ملتی ہے اس میں باریک ، درمیانہ اور موٹے سائز کا کنگا لگتا ہے۔

شیو کرانے یا خط بنانے میں استرا سب سے اہم اوزار ہے جو 100 روپے سے لے کر 300 روپے تک ملتا ہے اس کے علاوہ اس میں مختلف اقسام کے بلیڈ استعمال ہوتے ہیں، نارمل کوالٹی کے بلیڈ کا پیکٹ 800 روپے جبکہ ہائی کوالٹی کے بلیڈ کا پیکٹ 1200 روپے کا ملتا ہے جبکہ شیونگ کریم کی مختلف اقسام 100 روپے سے لے کر500 روپے تک ملتی ہیں اور شیو بنانے میں استعمال ہونے والے فوم 250 سے لے کر 800 روپے تک ملتا ہے اس کے علاوہ شیونگ برش دو قسم کے ہوتے ہیں، نرم برش 250 روپے اور سخت برش 300 روپے کا ہوتا ہے، نرم برش سخت شیو میں استعمال ہوتا ہے اور سخت برش ہلکی شیو میں بالوں کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔



اس کے علاوہ ہیئر ڈریسر کی دکان پر شیو کپ ، ربن ( بڑے بالوں کو پیچھے کرنے کے لیے ) اور شاور بھی استعمال کیا جاتا ہے شیو کپ کی قیمت 50 روپے ، ربن کی قیمت 100 روپے اور شاور کی قیمت 200 روپے ہے، شاور بوتل میں پانی ڈال کر بالوں کو گیلا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے،ہیئر ڈریسر کی دکان پر موجود سب سے اہم چیز ہیئر ڈریسنگ کرسی ہے، جو 8 ہزار سے لے کر 30 ہزار روپے تک ملتی ہے، مہنگی کرسی کو فولڈ کیا جا سکتا ہے یہ کرسی دو قسم کی ہوتی ہے ایک بال کاٹنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور دوسری مساج کرانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، ہیئر ڈریسر شاپ پر بال صاف کرنے والا برش ، بف ( پاوڈر لگانے والا فوم ) اور کھلا خوشبو دار پاوڈر بھی اہم ترین اوزار میں شامل ہیں برش 300 روپے ، کھلا پاوڈر100 سے 200 روپے اور بف 50 روپے کا ملتا ہے ہیئر ڈریسرز کی دکان عموماً صبح 7 بجے کھل جاتی ہے اور رات 12 بجے تک بند کی جاتی ہے۔

بدلتا رجحان:ٹی وی اور اخبار ہیئر سیلون کالازمی جزبن گئے
نائی، ہیئر ڈریسرز اور بیوٹی سیلون کی دکانوں پر اگر ٹی وی اور اخبار نہ ہوتو گاہک اپنی باری تک عجیب کیفیت میں رہتے ہیں۔

سروے کے مطابق کراچی کی70 فیصد دکانوں پر ٹی وی لازمی لگایا جاتا ہے، جہاں انڈین اور پاکستانی گانوں کے چینل اور اسپورٹس چینل دیکھے جاتے ہیں، گاہک اپنی پسند کے چینل بھی لگواتے ہیں جبکہ فلموں کے شوقین فلمیں بھی لگواتے ہیں مقدس مہینوں میں اسلامی ٹی وی چینل لگادیے جاتے ہیں سیاسی حالات اور ملکی صورتحال پر رواں تبصرے ہیئر سیلون اور نائیوں کی دکان پر ہر وقت جاری رہتے ہیں۔

ان تبصروں میں حالات کی خرابی پر طنز اور تنقید ہوتی ہے تو کبھی لیڈروں کی بے حسی کا رونا ہوتا ہے اس حوالے سے بیگم گلی کے ہیئر سیلون (ہیئر ہنٹر) کے مالک برہان اور فہد نے بتایا کہ دکان پر آنے والے گاہکوں کے مزاج الگ الگ ہوتے ہیں جن سے ان ہی کے طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے کئی گاہکوں کو صفائی ستھرائی پسند ہوتی ہے کئی گاہک شور پسند نہیں کرتے اور ٹی وی کی آواز کم کرادیتے ہیں کئی گاہکوں کو جلدی ہوتی ہے جس سے پہلے سے بیٹھے ہوئے گاہکوں کو ان کی جلدی ناگوار گزرتی ہے۔

نوجوانوں میں اسپائکس اور ایمو کٹنگ بال مقبول ہیں
شہر میں ہیئر ڈریسرز کی دکانوں پر بالوں کی مختلف ڈیزائن کی کٹنگ ہوتی ہے، ان میں اسپائکس کٹ، ایمو کٹ، برگر کٹ ، انگلش کٹ ، فوجی کٹ ، سادہ کٹ ، اسپائسی کٹ ، پیالہ کٹ اور دیگر اقسام کی کٹنگ شامل ہے،5 سے 18 سال تک کے بچے اور نوجوان آج کل ایمو اسٹائل اور اسپائکس کٹ طرز کے بال بنواتے ہیں، عام علاقوں میں بچوں کی کٹنگ کے 60 روپے، متوسط طبقے کے علاقوں میں 150 اور پوش علاقوں میں 500 روپے لیے جاتے ہیں،18 سال سے 25 سال تک کے نوجوان لانگ اسپائسی کٹ کی طرز کے بال کٹواتے ہیں، 25 سال سے35 سال تک کے افراد انگلش کٹ کی طرز کے بال کٹوانا پسند کرتے ہیں، 35 سال سے اوپر کے افراد ریگولر کٹنگ کرانا پسند کرتے ہی، پولیس اور فورسز کے اہلکار فوجی کٹنگ کرواتے ہیں۔

شہر میں کام کرنے والے70 فیصد ہیئر ڈریسر سرائیکی ہیں
ہیئر ڈریسرز کی دکان پر 70 فیصد کاریگر سرائیکی ہوتے ہیں جو پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 30 فیصد کاریگر دیگر قوموں سے تعلق رکھتے ہیں،ہیئر ڈریسر کی دکانوں پر سرائیکی قوم سے تعلق رکھنے والے 70 ہزار کاریگر کام کر رہے ہیں یہ کاریگر 8 مہینے ان دکانوں پر کام کرتے ہیں اور پھر 4 ماہ کی چھٹی پر اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں، ان کاریگروں کو300 روپے یومیہ اجرت دی جاتی ہے جبکہ ٹپ کی صورت میں ان کو200 سے 250 روپے مل جاتے ہیں بعض دکانوں پر کاریگر کمیشن پر کام کرتے ہیں اور 100 روپے کا کام کرنے پر انھیں 40 روپے کمیشن دیا جاتا ہے، ایک کاریگر روزانہ 14 گھنٹے کام کرتا ہے اور ان کی رہائش اور کھانے پینے کے انتظامات دکان کے مالک کے ذمے ہوتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں