جہاں گشت

جب کوئی پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے ہیں۔


کبھی سوچا ہے کہ یہ کس نماز کی اذان و اقامت ہے۔۔۔۔ ؟

قسط نمبر 77

یہ جو زندگی ہے ناں جی! جسے پُرسکون و پُرراحت بنانے کے لیے ہم سب سَر تا پَا جُتے ہوئے ہیں اور ایسے جُتے ہوئے ہیں کہ اس میں باقی تو شاید سب کچھ ہوگا پَر زندگی نہیں کہ وہ تو کہیں کھو گئی ہے جی ہم سے، ہم سب سے۔ جی! جی بالکل آپ فقیر سے صد ہزار اختلاف کر سکتے ہیں کہ فقیر آپ اور آپ کے اختلاف و خیالات کی قدر کرتا ہے اور جی جان سے کرتا ہے، کشادہ دلی سے کرتا ہے کہ یہ تو آپ کا حق ہے جی۔ لیکن فقیر ایسا ہی سمجھتا ہے کہ اس ترقی یافتہ جسے فقیر نہیں آپ کہتے ہیں ترقی یافتہ دور پُرفتن میں جیون کہیں گم ہوگیا ہے جی۔

ہمیں چلتے جانا ہے، بس مسلسل سفر ہے یہ تو جسے موت کچھ دیر کے لیے روک دیتی ہے، یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر۔ زندگی پر موت کا پہرہ لگایا گیا ہے اور ایسا کہ مت پوچھیے، کوئی نہیں نکل سکتا اس سے، جی کوئی بھی نہیں۔ اور یہ جیون ہے ہی کتنا۔۔۔۔۔۔ ؟ کبھی سوچیے گا حضور! ہمارے سماج میں جب کوئی پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے ہیں، ایسا ہی ہے ناں۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ کس نماز کی اذان و اقامت ہے۔۔۔۔ ؟ آپ ضرور جانتے ہیں لیکن فقیر تو کبھی بھی، کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ اب تک جان پایا تو اسے بتایا گیا ہے کہ یہ وہ اذان و اقامت ہے جو پیدا ہوتے ہی نماز جنازہ کے لیے دی جاتی ہے۔ اور یہ کون نہیں جانتا کہ اقامت اور نماز میں وقفہ ہی کتنا ہوتا ہے، جی بس چند گھڑیاں۔ تو بس یہ ہے حقیقتِ زندگی۔

آتے ہوئے اذاں ہوئی، جاتے ہوئے نماز

اتنے قلیل وقت میں آئے، چلے گئے

لیکن ان چند گھڑیوں کو آپ امَر کرسکتے ہیں جی! کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ بہت آسان ہے اور ذرا سا مُشکل بھی کہ خود کو بُھول جائیے اور خالق اور اس کی خلق کو یاد رکھیے اور بس اُن کی سیوا میں جُتے رہیے کہ یہی ہے راستہ امَر ہونے کا۔ فقیر نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہَرجی باپُو پر بات کریں گے تو چلیے کرتے ہیں کہ وہ تھے ہی ایسے کہ ان کا ذکرِ خیر کیا جائے اور اس سے روشنی لی جائے کہ ایسے تھے وہ کہ جنہوں نے اپنا دل جلا کے سرعام رکھ دیا تھا اور مجسّم پکار تھے کہ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔

جیون ایک کہانی ہے تو ہر انسان کہانی ہے، اگر سننے کا سلیقہ ہو، حوصلہ ہو، ہاں اور فرصت بھی۔ سینے میں بس ڈھرکتا لوتھڑا نہ ہو، جیتا جاگتا حساس دل ہو، اور دیدہ بینا بھی، تو سنی جائے۔ لیکن اپنی ذات سے، اپنی ناک سے آگے، ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اسے کیا کہتے ہیں، فقیر تو باکل بھی نہیں جانتا، آپ بتائیے۔

جسے دیکھو مانگنے میں، شکوے شکایتوں میں ہلکان ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا، مجھے وہ نہیں ملا، زمانے نے ہماری ناقدری کی۔ ہم میرے حقوق، میرے حقوق کے نعرے بلند کیے ہوئے ہیں۔ کبھی نہیں سنا، اور سنا بھی تو بہت کم کہ ہم نے کسی کو یہ دیا، سماج کو یہ دیا۔ ہاں دعوے بہت سنے، بہت کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا، بس زبانی جمع خرچ۔ سچ یہ ہے کہ جب سماج میں بلند قامت نہ رہیں تو بونے خود کو قدآور سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہاں ان کے خوشامدیوں کی بہتات ہے جو انہیں اس فریب میں پختہ تر کرتے چلے جاتے ہیں۔ قحط الرجال ہے یہاں، لیکن کم یاب لوگ جواب نایاب ہو چلے ہیں، خوش نصیبی ہے کہ ملے فقیر کو تو، جن کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔

کبھی نہیں سنا کہ ہمیں یہ نہیں مل سکا، جب بھی بات ہوئی ایک ہی غم میں پایا اور کہتے سنا: ہم نے اس وطن عزیز اور اس کے باسیوں کو کچھ نہیں دیا۔ اس نے تو ہمیں عزت اور توقیر دان کی، پہچان دی، ہم نے کیا دیا اس دھرتی ماں کو؟ یہی غم کھائے جاتا تھا انہیں۔ لیکن جو کچھ انہوں نے اس ملک و قوم کو دیا، وہ سب سے پوشیدہ رہا کہ وہ اس کا چرچا تو رہا ایک طرف، کبھی اشاروں میں بھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ تو فقیر کے ہَرجی باپُو بلند قامت ہی نہیں ایسے لوگوں کی صف اوّل میں تھے۔ ہاں ایسے ہی تھے ہمارے ہَرجی باپُو، دانا، بینا، دل زندہ، محبت، اپنائیت، ہمت، جفاکشی، فہم و فراست اور دُوراندیشی و ایثار کا پیکر مجسّم ہَرجی باپُو۔ ایسے لوگ تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے جو انسانوں کو توڑتے رہتے ہیں، حوصلہ افزائی تو رہی دُور کی بات وہ ان کی تذلیل کرکے راحت پاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہَرجی باپُو انسانوں کو ٹوٹنے سے بچاتے ہی نہیں تھے، وہ تو ٹوٹے ہوؤں کو جوڑتے بھی تھے۔ ہمت اور حوصلہ بندھاتے تھے۔

ان میں خواب سجاتے اور پھر اسے تعبیر پر اُکساتے تھے، وہ دُکھ کا مداوا کرتے زخموں پر مرہم رکھتے، عجب دیالو تھے ہَرجی باپُو، جو ہر پَل بس دینے پر تلا ہوا ہو۔ سخاوت جن کی رگ و پے میں تھی، اپنے وقت سے لے کر مال تک اور اس بھی آگے جان تک۔ روشنی تھے وہ، جن سے سب ہی فیض پاتے تھے، مینارۂ نور تھے وہ۔ سیاسی لیڈر، واعظ نہیں تھے۔ وہ ایسے بے علم و بے فیض و بے حس دانش ور نہیں تھے، جو پنج ستارہ ہوٹلوں میں، مُصفّا و معدنی پانی کی بوتل ہاتھ میں تھامے بس بے روح لفظوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہَرجی باپُو تھے کھرے و باظرف و باکمال و بامروّت دانش ور، جن کا ہاتھ سماج کی نبض پر تھا۔ ہاں وہ آدمی تھے، بس عام سے، لیکن بہت خاص تھے وہ، جن کا باپ موچی تھا جس کا ذکر باپُو بہت چاہ سے کرتے تھے اور وہ خود بھی پرانے ٹائروں کی مرمت کرتے تھے۔ مَرا ہوا ٹائر ان کی مسیحائی سے جی اٹھتا تھا۔ ٹائر ہی نہیں مَرا ہوا انسان بھی جسے سماج نے مار ڈالا ہو۔

باپو 1919 میں رن کچھ کے گاؤں مان کہو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد موچی تھے۔ جب وہ بیس دن کے تھے کہ ان کے والدین ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ اس وقت کراچی بھی ایک چھوٹا سا گاؤں ہی تھا، لیکن کاروبار اور مزدوری کے مواقع زیادہ تھے۔ ان کے والد نے اولڈ کمہار واڑہ میں رہائش اختیار کی اور یہاں بھی اپنا آبائی پیشہ جاری رکھا۔ ان کے معاشی حالات بدلے تو نہیں تھے، لیکن گزارہ اچھا ہو رہا تھا۔ باپُو جب پانچ سال کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں اسکول میں داخل کرادیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ننھا ہَرجی تعلیم حاصل کرکے بڑا آدمی بنے۔ لیکن قدرت کیا چاہتی ہے کوئی نہیں جانتا۔ باپُو نے پرائمری کا امتحان دیا ہی تھا کہ ان کے والد کا دیہانت ہوگیا، جو گھر کے واحد کفیل تھے۔ دس سال کی عمر میں وہ یتیم ہوگئے۔ حالات بہت ابتر ہوگئے تھے، لیکن ان کی ماتا نے باپُو کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا کہا اور خود گھروں میں کام کرنے لگیں۔ لیکن وہ بیمار رہنے لگیں تھیں تو باپُو نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کی ذمّے داریاں بھی سنبھالیں گے۔ باپُو اس وقت ساتویں جماعت پاس کرچکے تھے۔

انہوں نے تلاش معاش کیا، تیرہ سال کے بچے کو کون کام دیتا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک دن وہ سٹی کورٹ کے سامنے عمارت میں جہاں وکلاء کے دفاتر ہیں، کام کی تلاش میں پریشان گھوم رہے تھے کہ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پریشان ہیں، تو باپُو نے انہیں اپنی بپتا سنائی۔ وہ اس وقت کے معروف انکم ٹیکس وکیل سیٹھ نارائن داس جیٹھا تھے۔ باپُو کی بپتا سن کر وہ انہیں ساتھ لے گئے اور پندرہ روپے ماہوار تن خواہ پر اپنا چپراسی رکھ لیا۔ باپُو نے بہت محنت اور دل جمعی سے کام کیا۔ وہ آٹھ سال تک سیٹھ نارائن داس جیٹھا کے چپراسی رہے، لیکن انہوں نے قانونی نکات اور مباحث کو غور سے سنا اور اس میں ماہر ہوگئے۔ اس دوران انہیں ایک پیٹرولیم کمپنی میں ملازمت مل گئی اور انہوں نے یہ ملازمت اس لیے اختیار کی کہ وہاں ان کی تن خواہ 35 روپے ماہ وار تھی۔ وہ مشین آپریٹر بن گئے۔ اس دوران گھر کے حالات کچھ بہتر ہوگئے تھے۔

ماں کے بے حد اصرار پر باپُو شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور قدرت نے انہیں سات بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ باپُو کی پوری کوشش رہی کہ ان کے سارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں چاہے انہیں کتنی بھی محنت کرنا پڑے۔ باپُو کی تن خواہ اس مقصد کے لیے ناکافی تھی۔ اس لیے انہوں نے چھٹی کے بعد کوئی کام کرنے کا سوچا۔ جونا مارکیٹ جہاں سے وہ روزانہ گزرتے تھے ایک صاحب پُرانے ٹائروں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ اس کام میں محنت تو بہت تھی، لیکن محنتانہ معقول مل جاتا تھا۔ باپُو ان صاحب کے پاس پہنچے اور کام سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ نیک دل انسان تھا تو راضی ہوگیا اور یوں باپُو شام کے وقت کام سیکھنے لگے۔ دو سال میں وہ اپنی محنت اور استاد کی توجّہ سے کام سیکھ گئے اور اب یوں انہیں کام کا معاوضہ بھی ملنے لگا۔ اس طرح وہ اپنی آمدن میں اضافہ کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ باپُو صبح سویرے اپنی کمپنی جاتے اور واپسی میں پرانے ٹائروں کی مرمّت کرتے اور رات کو گیارہ بجے واپس گھر پہنچتے۔ لیکن وہ خوش تھے کہ ان کے سارے بچے زیرتعلیم ہیں۔ وہ اکثر اپنے بچوں کو کہتے کہ وہ دل لگاکر تعلیم حاصل کریں اور اخراجات کی کوئی فکر نہ کریں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتادیا تھا کہ ان کی تعلیم باپُو کا خواب ہے جسے تعبیر کرنا اب ان کا فرض ہے۔

باپُو نے اپنی پتنی سے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ بچوں سے کسی بھی قسم کا کام نہ لیں اور انہیں تعلیم کے لیے فارغ رکھیں۔ 1969 میں باپُو ریٹائر ہوگئے۔ اور اس طرح معقول آمدن کا در بند ہوگیا۔ اس وقت ان کے چار بیٹے کالج پہنچ چکے تھے۔ لیکن باپو نے ہمت نہیں ہاری۔ کمپنی سے ملنے والے پیسوں سے انہوں نے چاکی واڑہ میں بر لب سڑک تین کمروں کا گھر خرید لیا، جس میں سے دو کمرے رہائش کے اور ایک کمرے کو دکان بنالیا تھا۔ باپُو کے ہاتھ میں جادُو تھا۔ مرا ہوا ٹائر ان کی مسیحائی سے جی اٹھتا تھا۔ ان کی شہرت پھیل گئی تھی اور اندرون سندھ سے بھی ان کے پاس کام آنے لگا۔ باپُو پر بچوں کو پڑھانے کی دُھن سوار تھی۔

وہ دن باپُو کی زندگی کا خوب صورت ترین دن تھا جب ان کے بڑے بیٹے نے بی کام کرلیا اور اسے فوراً ہی غیرملکی ہوائی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ باپُو کی خوشی دیدنی تھی لیکن وہ مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تمہیں آگے پڑھنا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہے۔ فرماں بردار بیٹے نے باپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا فیصلہ کیا اور ایک دن وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔ بڑے بیٹے نے اپنے چھوٹے بھائیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے میں باپُو کا ہاتھ بٹایا۔ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ جب سارے بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ باپُو نے اپنے سارے بیٹوں کو آزادی دی کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرلیں اور اپنے ٹھکانے بنائیں، انہوں نے اپنے بیٹوں سے کسی بھی قسم کی مدد لینے سے انکار کردیا تھا۔ وہ خود محنت کرتے تھے اور صرف کام ہی نہیں بہت معیاری کام۔ انہوں نے اپنا یہ ہنر لیاری کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کو سکھایا اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔ وہ بستی کے دیگر بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے۔ باپُو بہت محبت سے اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے: مجھے ایشور نے 7 بیٹے، 2 بیٹیاں، 31پوتیاں،10پوتے اور 3 نواسے دیے ہیں اور سب کے سب پڑھے لکھے۔

اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بچہ باہر نہ جائے اور پاکستان کی خدمت کرے۔ فرماں بردار بچوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ بیٹوں نے باپُو کے اصرار پر شادی کے بعد اپنے مکانات میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ انہوں نے باپُو سے بہت اصرار کیا کہ وہ اپنا یہ کام چھوڑ دیں اور آرام کریں، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ باپُو نے خود کو بے سہارا لوگوں کے لیے وقف کردیا تھا اور ہر وقت خدمت انسانیت پر مامور ہوگئے تھے۔ باپُو کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا، جب ان کی پتنی کا دیہانت ہوگیا اور وہ تنہا رہ گئے، لیکن وہ یہ صدمہ صبر اور وقار سے سہہ گئے۔ کچھ دن بعد وہ پھر اپنے معمولات میں لگ گئے۔ ہر وقت ان کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا اور وہ ان میں دانش کے موتی، امید کی شمع روشن کرتے رہتے۔ چھٹی کے دن باپُو کے گھر کے آگے چمکتی ہوئی کاریں کھڑی ہوتیں اور بچے اپنے باپُو سے ملنے آتے۔ چھٹی کا دن باپُو کے لیے عید سے کم نہ تھا۔ وہ مہینے بھر میں جو کماتے لوگوں میں تقسیم کردیتے اور کچھ رقم اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کی چاکلیٹس اور ٹافیوں کے لیے بچا کر رکھتے۔ سارے بچے اپنے باپ سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔

فقیر اکثر مذاق میں کہتا: باپو اتنی منہگی چاکلیٹ لیتے ہوئے آپ کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔ تو مسکرا کر کہتے ہوتا ہے پَر نئی نسل کا کچھ تو خیال رکھنا چاہیے۔ باپُو انتہائی شفیق انسان تھے۔ نو سال کے بچے سے لے کر نوّے سال کے بوڑھے تک سب ان کے دوست تھے۔ خاص کر نوجوان ان کی توجّہ کا مرکز تھے۔ وہ کہا کرتے یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ باپُو کی زبان میں قدرت نے عجیب تاثیر رکھی تھی۔ ان کے پا س لوگ روتے ہوئے آتے اور ہنستے ہوئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان کو اس کی ماں فقیر کی موجودی میں باپُو کے پاس لے کر آئی، وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی باپُو اس نے پھر سے خود کو مارنے کی کوشش کی ہے۔ باپُو نے اس نوجوان سے کہا: دیکھ پیارے تُو سمجھ کہ تُو مرگیا ہے۔

وہ بہت حیران ہوا اور کہا: میں زندہ ہوں بس مرنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی کام کا نہیں سمجھتا، سب مجھے گالیاں دیتے ہیں، بس میں مرنا چاہتا ہوں۔ باپُو نے اسے بہت پیار کیا اور پھر کہا: دیکھ تُو آج سے مرگیا ہے، بس سمجھ لے اور مُردے کسی کی بات نہیں سنتے، وہ غصّہ نہیں کرتے، بس آج سے تُو میرے پاس رہے گا۔ کچھ دن بعد فقیر کا باپُو کے پاس جانا ہوا تو وہ نوجوان صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ان کے پاس بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا۔ فقیر نے کہا: باپُو یہ تو بابُو بن گیا ہے۔ باپُو مسکرائے اور کہا: بابو نہیں یہ اب ساہوکار ہے۔ باپُو نے اسے کریانے کی دکان کرادی تھی۔ وہ ایسے کام کرتے رہتے تھے۔

باپُو پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو ہمیشہ دھرتی ماتا کہتے، یوم آزادی پر مٹھائی تقسیم کرتے اور ان کی آنکھیں فرط جذ بات سے نم رہتیں۔ وہ ہمیشہ کہتے کاش میں دھرتی ماں کے لیے کچھ کر سکتا۔ لیکن باپُو نے اپنی دھرتی ماتا کے لیے اپنی اولاد کو دان کردیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد دیے جنہیں انہوں نے پابند کیا کہ وہ اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کسی بھی صورت میں باہر نہیں جائیں گے اور دھرتی ماں کی خدمت کریں گے، اور ان کے بچوں نے ان کا یہ خواب تعبیر کیا۔ آج باپُو ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی خاموش خدمات کا اعتراف سیکڑوں لوگ کرتے ہیں۔ باپو گم نام ہیرو اور بنیاد کا پتھر تھے۔ ایسے کردار اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔

چلیے حاضری قبول فقیر رخصت! کہ اپنے ہَرجی باپُو کے ساتھ بِتائے امَر لمحات کو یاد کرتے ہوئے آنسوؤں کی برسات میں نہانا بھی ہے۔

حروف کشف کے ہیں اور ظروف مٹی کے

اُجڑ سکی نہ کسی سے یہ خانقاہ مری

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں