وقت کی مقبول اداکارہ‘ بد نصیبی ہمیشہ جس کے ساتھ رہی

مینا کماری پیدا ہوئیں تو والدنومولود بچی کو یتیم خانے کی سیڑھیوں پر چھوڑ آئے


نذیر خالد February 02, 2020
مینا کماری کا آبائی تعلق تحصیل بھیرہ کے ایک گاؤں سے تھا، معروف اداکارہ کی زندگی کے گمنام گوشوں پر روشنی ڈالتی دلچسپ تحریر

سابق ڈائریکٹر انفارمیشن و ریذیڈنٹ
ڈائریکٹر بہاولپور آرٹس کونسل

بھارتی فلموں کی حسین و جمیل ساحرہ، پردہ سیمیں پر اپنے یادگار کرداروں کے لئے یاد رکھی جانے والی مینا کماری کو فلمی جگت میں ملکہ جذبات اور ٹریجڈی کوئین کے القابات سے نوازا گیا لیکن بدقسمتی سے اُن کی ذاتی زندگی بھی کسی المیے سے کم نہ تھی۔ اس اداکارہ، شاعرہ اور گلوکارہ کی تمام زندگی تنہائیوں اور محرومیوں کے ساتھ بسر ہوئی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مینا کماری کے خاندان کا تعلق بھیرہ ،ضلع سرگودھا سے تھا۔ اگرچہ ان کی اپنی پیدائش تو بھیرہ کی نہ تھی لیکن ان کے والد علی بخش خان بھیرہ کے نواحی گاؤں ـــگاگا کے رہنے والے تھے اور یہیں سے وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) منتقل ہوئے۔

یہاں اگر یہ بھی کہا جائے کہ 'بالی وڈ کی فلمی ہیروئنوں میں سے کسی دوسری ہیروئن کا اہم اور قد آور شخصیات کی جانب سے اتنا تٖفصیلی تذکرہ نہیں ہوا جتنا مینا کماری کا ہوا ہے' تو ہر گز بے جا نہ ہو گا۔ مینا کماری کا اصلی نام مہ جبیں آراء بیگم تھا اور فلموں میں انہیں محض سات برس کی عمر میں بے بی مینا کے نام سے متعارف کرایا گیا تھا۔ ونود مہتہ کے قلم سے ان کی آپ بیتی 1972میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ جس پر کئی اعتراضات بھی اٹھائے گئے کہ آپ بیتی وہ شخص لکھے جو بہت قریب رہا ہو اور ہر معاملے سے واقف اور آگاہ ہو جبکہ مہتہ صاحب اس شرط پر پورے نہیں اترتے۔اس کے علاوہ زبانی اظہار خیال کرنے والوں نے بھی ان کے بارے میں بہت خوبصورت گفتگو کی ہے۔

بھیرہ سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر چودھری علی حسن نے بھی اس حوالے سے ایک مضمون لکھا ہے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے قبل ازیں بھیرہ کی تاریخ اور کئی دیگر موضوعات پر بھی مضامین لکھے اور کلپ تیار کئے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مینا کماری کے حوالہ سے انہوں نے جو مضمون لکھا ہے وہ ان کی اپنی تحقیق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ میناکماری یکم اگست1932 کو بھیرہ میں پیدا ہوئیں۔ اس بات پر یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کہ مینا کماری کی والدہ اقبال بیگم جن کا نہ یہ وطن تھا نہ اس سے انہیں کوئی دلچسپی تھی اور مینا کے والد علی بخش اُن دنوں اتنے تنگ دست تھے کہ بچی کی پیدائش پر ڈاکٹر یا دائی کے ہاتھ پر رکھنے کے لئے ایک روپیہ ان کے پاس نہ تھا، وہ بمبئی سے اتنی دور محض بچی کی ڈلیوری کے واسطے بھیرہ آئے ہوں۔مینا کی پیدائش کا سال چودھری علی حسن سمیت بعض نے 1932 لکھا ہے اور کئی ایک نے 1933بتایا ہے۔ اس دور میں بچوکی تاریخ پیدائش کے دستاویزی ثبوت کا کوئی زیادہ تردد نہیں کیا جاتا تھا۔

ایک اور بات کا مغالطہ بھی موجود ہے وہ یہ کہ مینا کی نانی ہیم سُندری ٹھاکر جو ابتدائی فلموں کی ایکٹریس بھی رہی ہیں، کو بعض نے عالمی شہرت یافتہ بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی بھتیجی بتایا ہے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کے دور پار کے ایک رشتہ دار یادیو نندن ٹیگور کے ساتھ ہیم سندری کی شادی ہوئی(یہ خفیہ شادی تھی) ، نندن جلد ہی سورگ باشی ہو گئے۔ ہیم سندری بیوا ہوئیں تو سسرال نے آسرا دینے کے بجائے بہت بُرا سلوک کیا۔ بہر حال ہیم سندری کا کسی واسطے سے ٹیگور خاندان سے تعلق بنتا ہے اور اپنی نانی ہیم سندری کی نسبت سے مینا کماری کا رشتہ بھی ٹیگور خاندان سے جڑتا ہے۔

یہ امر بھی تصحیح طلب ہے کہ مینا کے والد سُنی مسلمان پٹھان تھے۔ یہ بات درست نہیں۔ وہ سنی العقیدہ ضرور ہوں گے، لیکن وہ پٹھان نہ تھے۔ گانے والوں کے نام کیساتھ خان یا خاں لکھا جاتا ہے شاید اس سے کسی نے انہیں پٹھان سمجھ لیاہو،ان کے خاندانی کوائف سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا۔ یہ تحریر لکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجھے مینا کماری کے بھانجے کی زبانی 'جو ان کی سوتیلی بہن کے بیٹے تھے اور اپنی ماں اور دیگر خاندان کے ساتھ پھلروان ( تحصیل بھلوال ،ضلع سرگودھا)میں مستقل رہائش پذیر تھے' ان کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا تذکرہ پہلے نہیں ہوا، اس بنا پر مجھے لگا کہ مجھے اس گم شدہ حصے کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیئے۔

مینا کماری کی کہانی مکمل کرنے کیلئے تین اہم ذرائع موجود ہیں۔ بنیادی ذریعہ تو میناکماری کے بھانجے اور میرے دوست مظہر حسین حسرت جعفری سیاہ پوش (مرحوم) کی بتائی گئی تفصیلات ہیں۔ دوسرا ذریعہ ایک اور دوست سید کفایت حسین شاہ ہیں،جنہوں نے تین برس بالی وڈ،بمبے میں گزارے۔ بعد ازاں چند سال پاکستان فلم اندسٹری اور پھر انگلینڈ میں فلم انڈسٹری کے ساتھ پچپن سال گزارے وہ اس وقت لاہور میں مقیم ہیں۔ تیسرا ذریعہ انٹرنیٹ ہے جہاں سے چند ایک نئی باتیں جو پہلے میرے علم میں نہ تھیں ملی ہیں۔

مظہر حسین حسرت جعفری سیاہ پوش بتاتے ہیں کہ میناکماری رشتے میں ان کی خالہ تھیں ۔ انہوںنے اس حوالہ سے مجھے1983-84میںکچھ معلومات ایک انٹرویو کی شکل میںدی تھیں وہ میرے پاس نوٹس کی صورت میں محفوظ پڑی رہیں۔ یہ معلومات کے راوی مظہر حسین ہیں اور ان کی تصدیق کے لئے میرے پاس کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں۔ اسی عرصہ میں مظہر جعفری ایک روڈ ایکسیدنٹ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کئی برس گزر گئے انٹرنیٹ کی سہولت میسر آنے کے بعد ان معلومات میں سے بیشتر کیتصدیق ہو گئی اور اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی معلومات بھی بری حد تک درست ہی ہوں گی۔ مظہر جعفری نے جو باتیں بیان کی تھیں ان میں سے زیادہ تر کی تصدیق ہوتی گئی،جن کی تصدیق نہیں ہوئی ان کی تردید بھی کہیں نہیں ہے کیونکہ میناکماری کے والد کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے ۔

1983-84میں راقم سرگودھا آرٹس کونسل کاریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھا۔ اس بنا پر فائن آرٹس سے متعلقہ احباب سے میرا قریبی رابطہ رہتاتھا۔ مظہرجعفری کئی سال سندھ میں رہ کر آئے تھے اور وہاں سے سیاہ پوش بن کر آئے۔ شادی بھی ایک سندھی خاتون سے کی۔ میاں بیوی دونوں ہم مزاج تھے۔تنگدستی کے باوجود اپنا وقت ہنسی خوشی گزارا۔ ان کی بیگم صاحبہ حیات ہیں اور پھلروان میں ہی مقیم ہیں۔ مظہر جعفری کے بقول میناکماری کے والد علی بخش ( ولد لعل بخش ) کی پیدائش بھیرہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع موضع بُگّا میں ہوئی۔ ان کا پیشہ زراعت تھا۔ اور اُنکا اپنا کنواں تھا۔ لعل بخش نے اپنی زمین ایک مہاجن کے پاس گروی رکھ دی تھی،جو اس دور کے چھوٹے مسلمان کاشت کاروں کی ایک عمومی مجبوری اور روش تھی۔ مینا کماری کے والد علی بخش کل پانچ بھائی تھے۔ اُس دور میں دیوالی کے تہوار پر لاہور میں ایک بہت بڑا اور شاندار ڈرامہ سٹیج کیا جاتا تھا جسکا انتظام لاہور کے ایک متمول ہندو سیٹھ کیا کرتے تھے ۔

سیٹھ صاحب کی وساطت سے علی بخش بھیرہ سے اُٹھ کر اس ڈرامہ منڈلی کیساتھ شامل ہو ئے۔ بھیرہ اور چنیوٹ کے پراچگان اور خواجگان کاروباری مصروفیات کی وجہ سے لکھنو آتے جاتے تھے۔ غالب امکان ہے کہ انہی کی وساطت سے وہ گھر سے اتنی دور جانے کے قابل ہوئے۔ اسی مذہبی ڈارمہ منڈلی میں اقبال بیگم نام کی لڑکی بھی شامل تھیں جن کا بعد ازاں فلمی نام کامنی رکھا گیا۔ علی بخش اور اقبال بیگم(کامنی) کا آپس میں ساتھ ہو گیا۔ وہ کرسچن تھیں، مسلمان ہوگئیں اور علی بخش کے ساتھ شادی کر لی ۔ یہ وہ دور تھا جب بمبے کے اسٹیج ڈرامہ میں سہراب مودی، پرتھوی راج ، ایم اسماعیل اور اوم پرکاش چھائے ہوئے تھے ۔ انکا پہلا سٹیج شو بمبئی میں ہوا جسکا نام 'لیلیٰ' تھا۔ یہ ایک مذہبی ڈرامہ تھا۔اسی دور میں خاموش فلمیں بھی آچکی تھیں۔ جب خاموش فلمیں آئیں تو علی بخش ان کے میوزک کی نگرانی کرتے تھے ۔ اس دور میں سید شوکت حسین رضوی بھی بمبے میں ہی تھے۔ ماسٹر علی بخش کی ان کے ساتھ دوستی تھی اور ان کی شامیں ایک ساتھ گزرتی تھیں۔

مظہر حسین جعفری کے مطابق ''میرے والد فضل الٰہی چک دارا پور (چک حمید) ضلع جہلم سے روانہ ہوئے۔ جہلم سے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے بمبے پہنچے ۔ ان کی علی بخش سے شناسائی تھی چنانچہ ان کے سٹاف میں شامل ہوگئے ۔ بعدازاں والد (فضل الہٰی ) نے وہاں نیوی میں ملازمت اختیار کر لی جبکہ مسلمانو ں کو ایسی ملازمتیں بہت کم ملتی تھیں۔ جہلم کے راجہ جلا ل نامی ایک شخص نے بھرتی کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔

میرے والد ماسٹر علی بخش کے اسسٹنٹ بن کربھی اپنا شوق پورا کرتے رہے۔ فضل الہٰی گو کہ ان کے اسسٹنٹ تھے مگر موسیقی میں اچھا ذہن رکھتے تھے، انہیں سُر ارو لے کی اچھی سمجھ اور گائیکی کی صلاحیت رکھتے تھے۔ علی بخش انکی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے خوفزدہ بھی رہتے تھے۔ وہ فضل الہٰی کے گانے کی تاثیر کی وجہ سے اندر سے ڈرتے تھے۔ لیکن دوسری طرف انہوں نے فضل الہٰی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کا فیصلہ بھی کر لیا ۔ بعد ازاں کچھ ہندو فلم سازوں کے ساتھ فضل الہٰی کی قربتیں بڑھنے لگیں تو علی بخش اور فضل الہٰی میں فاصلے پیدا ہونے لگے ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل علی بخش بمبے میں اپنی کوٹھی (اقبال بنگلہ باندرہ ہل روڈ) اور کار کے مالک تھے جبکہ سُسر داماد کے جھگڑے کی وجہ سے فضل الہٰی کی بیوی نے اپنے باپ کا گھر چھوڑ دیا اور خستہ حالی کے باوجود واپس آنے کو ترجیح دی۔ فضل الہٰی اپنے وطن واپس آنے کے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور اﷲکوپیارے ہوگئے ۔

علی بخش نے ایک شادی بمبے جانے سے پہلے صالح بی بی کے ساتھ کی تھی۔ جن سے ایک لڑکا منظور اور دو لڑکیا ںتھیں، حسین بی بی( جو بعد میں شمع بانو کے نام سے فلموں میں آئیں) اور دوسری حفیظہ بیگم (جنکی شادی فضل الہی سے ہوئی اورجو مظہر جعفری کی والدہ تھیں ۔) شمع بانو کے دوبیٹے ہوئے جو فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ ایک کا نام محمود اختر اور دوسرے کا نام جاوید ہے۔ جاوید کیمرہ مین ہیں۔ محمود اختر بھی فلمی شہر سے ہی منسلک ہیں ''۔

''علی بخش کے ہاں دوسری بیوی اقبال بیگم سے تین لڑکیاں ہوئیں۔ جنکے نام خورشیدبیگم ، مہ جبیں یعنی مینا کماری اور مادھوری تھا ۔ خورشید بیگم فلمی اداکار الطاف خان کی بیوی بنیںدونوں نے چند فلموں میں کام کیا ۔

مہ جبیں ایک نئے نام میناکماری کے نام سے فلموں میں آگئیں۔ مادھوری نے بھی کچھ فلمیں کیں۔ انکی شادی کامیڈین محمود کے ساتھ ہوئی ۔ مادھوری نے طویل عمر نہ پائی ۔ جب کہ ان کے وفات پانے کے کچھ عرصہ بعد انکی والدہ اقبال بیگم بھی اﷲکو پیاری ہو گئیں۔ علی بخش کے ایک بھائی شرف دین تھے جو بہت ذہین تھے ۔

جوشجرہ مظہر حسین جعفری سیاہ پوش نے راقم کے پاس بیٹھ کر بنوایا وہ اس طرح سے ہے :

علی بخش خان (خاموش فلموں کے اداکار، ڈرامہ آرٹسٹ و میوزیشن)

(پہلی بیوی)صالح بی بی (دوسری بیوی ) پربھا وتی جو مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اقبال بانو کہلائیں

( بعض نے اقبال بیگم لکھا ہے لیکن مظہر جعفری نے اقبال بانوبتایا)۔اقبال بانوڈرامہ آرٹسٹ اور ڈانسر تھیں ،کرسچن سے مسلمان ہوئیں۔

علی بخش خان کی تین بیٹیاں ہوئیں اقبال بانو کے بطن سے :

1۔خورشید بیگم ۔۔۔ ان کی شادی فلمی اداکار الطاف سے ہوئی۔

2۔ مہ جبیں فلمی نام مینا کماری ،کمال امروہی سے شادی ہوئی،اولاد نہیںہوئی بقول مظہر جعفری مینا نے انہیں گود لیا ہوا تھا۔ ان کا نام مظہر، مسعودالحسن شوکت رضوی صاحب کی بیگم نے رکھا تھا۔

3۔مادھوری، جن کی شادی انڈین فلموں کے کامیڈین محمود کے ساتھ ہوئی۔

(پہلی بیوی)صالح بی بی :

علی بخش خان کے تین بچے صالح بی بی میں سے ہوئے ،دو بیٹیاں ایک بیٹا ۔

1 ۔ حفیظہ بیگم جن کی شادی فضل الہی کے ساتھ ہوئی یہ مظہر جعفری کے والدین تھے ۔

2۔ایک بیٹا ہوا جس کا نام منظور تھا۔

3۔ دوسری بیٹی جو صالح بی بی کے بطن سے ہوئی ،کا پیدائشی نام حسین بی بی جو فلموں میں جا کرشمع بانو کہلائیںشمع بانو کے دونوں بیٹے فلموں میں آ گئے۔ایک کا نام محمود اختر اور دوسرے کا جاوید ہے۔جاوید کیمرہ مین بن گئے، جبکہ محمود اختر بھی فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔

مینا کماری ماں کی جانب سے رابندر ناتھ ٹیگور کے خاندان سے تھیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے مینا کماری کی والدہ اقبال بیگم تھیں۔ وکی پیڈیا اور بعض دیگر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مینا کماری کی نانی درحقیقت بنگال کے شہرہ آفاق شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے چھوٹے بھائی کی بیٹی تھیں۔ ٹیگور خاندان میں ان کی شادی ہوئی، مگرنوعمری میں ہی وہ بیوہ ہوگئیں۔ بیوہ ہونے پر سسرال کا رویہ بدل گیا ۔ صاف کہہ دیا گیا کہ نہ کچھ جائیداد سے ملے گا نہ ہی ہمارا نام استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ یہ پہلی شادی یادیو نندن ٹیگور نامی نوجوان سے ہوئی تھی ۔ ان حالات میں وہ کرسچن ہو گئیں۔

بعد ازاں میروٹ Meerut میں جاکرایک ہسپتال میں نرس بن گئیں۔ پھر اردو اخبار کے ایک صحافی پیارے لال شنکر میروٹی کے ساتھ شادی کر لی۔ ان کے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں، جن میں سے ایک کا نام پربھاوتی تھا۔ پربھا وتی کی دوسری بہن کے نام یا حالات زندگی بارے کوئی ذکر اذکار نہیں۔ مینا کماری کی نانی کا نام ہیم سندری ٹھاکر(ٹیگور) تھا ۔ انہوں نے ابتدائی فلموں میں کام بھی کیا۔ ہیم سندری کا کوئی دوسرا غیر فلمی نام سامنے نہیں آیا۔ ہیم سُندری کی بیٹی پربھا وتی دیوی ڈانسر اور ڈراموں کی اداکارہ تھیں ۔ عیسائیت سے اسلام پر آ گئیں۔ علی بخش خان سے شادی کر لی تو نام بھی تبدیل کر لیا اور اقبال بانو بن گئیں۔ان کا سٹیج کا نام کامنی تھا ۔

وکی پیڈیا کے مطابق مینا کماری کے والد پارسی تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ ہارمونیم بجاتے تھے اور میوزک سکھاتے تھے ۔فلم شاہی لٹیرے میںمیوزک دیا اور فلم چاند میں چھوٹا سا رول بھی کیا۔ ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کا نام ماسٹر علی بخش تھا ۔ پارسی تھیٹر کے کہنہ مشق اداکار ،میوزیشن اور شاعر تھے۔

مینا کماری کے حوالہ سے کچھ اہم باتیں وکی پیڈیا سے ملیں جن کے مطابق مینا کماری کو تعلیم حاصل کرنے کا بیحد شوق تھا۔ لیکن والدین نے انہیں سکول بھیجنے کے بجائے سٹیج پر چڑھا دیا۔ وہ چھہ سات برس کی عمر میں پہلے سٹیج اور بعدازاں فلموں میں کام کرنے لگ گئی تھیں۔ انہیں شاعری کا بے پناہ شوق تھا اور ناز تخلص کرتی تھیں ان کا ایک شعر:

مینا کی زندگی میں تین بڑے حادثے آئے۔ ویسے تو زندگی میں حادثات کا آ جانا معمول کی بات ہے۔ لیکن ان کا تسلسل ہو جائے تو اسے بدبختی سمجھا جاتا ہے۔

مینا سے پہلے ان کی ایک بڑی بہن موجود تھیں جب یہ دوسری بیٹی (مینا کماری) پیدا ہوئیں تو باپ کے غصے کی کوئی حد نہ رہی ،غربت و تنگدستی ایسی تھی کہ دوسری بچی کو وہ برداشت ہی نہیں کر رہے تھے ۔ ماسٹر علی بخش نے نو مولود بچی کو گھر سے اٹھایا اور اسی علاقہ میں مسلمانوں کے ایک یتیم خانہ کی سیڑھیوں پر رکھ کر گھر کو چل دیئے کہ کوئی نہ کوئی اسے اٹھا لے جائے گا۔ بچی نے رونا شروع کر دیا۔ باپ ایک بار تو وہاں سے چلا آیا لیکن گھر پہنچنے سے پہلے ہی اسے خیال آیا کہ دیکھوں کسی نے اسے اٹھایا بھی ہے یا نہیں۔ جب واپس اس جگہ آئے تو بچی کے رونے کی آواز اب بھی آرہی تھی۔

باپ کو بچی کی دردناک آواز میں رونے پر ترس آگیا۔ قریب جا کر دیکھا تو اس کے جسم پربہت سی چیونٹیاںچمٹی ہوئی تھیں۔ بچی کے جسم کو چیونٹیوں سے صاف کیا اور واپس گھر لے آئے۔دوسرا حادثہ اس وقت پیش آیا جب مینا جی کی ایک فلم بیجو باورا نے فلمی ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس ٹین ایج ہیروئن نے شہرت میں سب کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی فلم ساز دوڑے آئے اوراپنی آئندہ فلموں کے لئے انہیں بک کر لیا۔لگ بھگ ایک درجن فلموں میں انہیں سائن کر لیا گیا۔ اسی دوران کسی دوسرے شہر سے واپس آتے ہوئے ان کی کار کو حادثہ پیش آگیا۔ مینا کماری کا ایک ہاتھ بری طرح متاثر ہو۔ افواہ پھیل گئی کہ ان کا ہاتھ ڈاکٹروں کو کاٹنا پڑے گا۔ کوئی کہے کہ نہ بھی کاٹا گیا تو ان کا بازو اور ہاتھ مکمل طور پر بیکار ہو جائیں گے۔ چنانچہ فلمیں سائن کر نے والے جتنی جلدی میں آئے تھے۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ مینا کماری کے کنٹریکٹ منسوخ کر کے دوسری ہیروئنوں کو سائن کر نے لگے۔ یہ صدمہ بھی انہوں نے سہہ لیا۔

تیسرا حادثہ، زندگی بھر پیار کو ترسی روح کو یہ پیش آیا کہ کمال امروہی سے شادی کر لی۔ دونوں نے اپنی جانب سے خٖفیہ شادی کی تھی۔ لیکن ازدواجی زندگی کامیاب نہ ہوئی ۔یہ آخری حادثہ تو جان لیوا ہی ثابت ہوا۔ انہیں شراب کی لت پڑ گئی۔ اس میں کوئی تناسب و حد نہ رہی تو چالیس برس کی عمر بھی پوری نہ کر سکیںاور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے ہی رخصت ہو گئیں ، ہمیشہ کے لئے۔

مینا کماری کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان جیسی درد بھری آواز والی کوئی دوسری اداکارہ آج تک سامنے نہیں آسکی۔ ایسی آواز جس پر بہت سی نامور ہیروئنیں رشک کرتی تھیں۔ مردوں کے علاوہ ہزاروں خواتین بھی ان پر عاشق و فدا تھیں ۔ یہ اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا کہ پہلی بار جب فلمی ایوارڈ کے لئے ریکمنڈیشن ہوئی تو اس میں ساری فلمیں مینا کماری کی تھیں۔ کسی دوسری ہیروئن کی ایک بھی نہ تھی۔ بالی وڈ کی آج تک جتنی یادگار فلمیں بنیں ہیں، ان میں سے بیشتر مینا کماری ہی کی ہیں۔ لگ بھگ تیس سالہ فلمی زندگی میں انہوں نے نوے فلموں میں کام کیا۔کہتے ہیں دلیپ کمار جیسے نامور اداکار ان کے سامنے مشکل محسوس کرتے تھے۔مدھوبالا اُن کی آواز پر رشک کرتی تھیں اور راجکپور ان کے سامنے اپنے ڈائیلاگ بھول جایا کرتے تھے۔ مینا کماری نے اپنے شوق سے کئی زبانیں سیکھ لی تھیں۔

بھارتی فلموں کے مایہ ناز سنگیت کار خیام کا تعلق لاہور سے تھا۔ بھارتی فلموں کے بہت سے معروف گیت انہی کے کمپوز کئے ہوئے ہیں۔خیام نے مینا کی اپنی لکھی ہوئی غزلوں کو کمپوز کیا، جن کو مینا کماری نے ہی گایا ہے۔ وہ تمام غزلیں نیٹ پر دستیاب ہیں۔ مینا کماری کو ٹریجڈی کوئین،کنگ آف ڈائیلاگ ڈلیوری مانا گیا ۔

سید کفایت حسین شاہ کا تعلق محمدی پور مدینہ، گجرات (پاکستان) سے ہیں۔ وہ 1960سے 1963 تک بھارت میں فلم انڈسٹری سے وابسطہ رہیاور فلمی پوسٹر سازی سیکھی۔ جے جے سکول آف آرٹس سے پینٹنگ کورس کیا۔ بھارت سے واپس آ کر لاہور میں میکلوڈ روڈ پر اپنا سٹودیو بنایا۔ بمبئی قیام کے دوران انہیں وہاں کی ایک معروف شخصیت فیض مجدد کی شاگردی نصیب ہوئی۔ فیض مجدد کی وجہ سے سید صاحب کو بھی وہاں کے تمام چھوٹوں بڑوں کے ساتھ ملنے اور ان کی محافل میں بیٹھنے کے مواقع ملتے رہے۔

سید صاحب برطانیہ میں مقیم تھے جبکہ انکی چھوٹی ہمشیرہ مہ جبیںصاحبہ اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ برمنگھم میں رہتی تھیں۔ اسی طرح ایک چھوٹے بھائی سید شاہد بھی وہیں انگلینڈ میں مستقل رہایش پذیر تھے ۔ بالی وڈ میں رامانند ساگر ایک معروف فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں جن کی فلم بندھن نے خاص شہرت پائی،ان کے بھائی چیتر آنند انگلینڈ میں فلم ڈسٹری بیوشن کا آفس چلاتے تھے اور سید صاحب چونکہ پبلسٹی پوسٹر بناتے تھے اس لئے ان کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور پیار سے انہیں چیتو کہہ کر بلاتے تھے ۔ایک روز چیتو نے سید صاحب کو دوران ملاقات بتایا کہ مہ جبیں یہاں آئی ہیں ان کی طبیعت بہت خراب ہے ، کفایت حسین سوچنے لگے کہ چیتو کو کیسے معلوم میری بہن کا اور میری بہن نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ وہ لندن آ رہی ہیں ۔انہوںنے سوال کیا کہ تجھے کیسے پتہ کہ میری بہن یہاں آئی ہیں اور کس نے بتایا اور کیا خیریت ہے ؟ تب چیتو نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں مینا کماری کی بات کر رہا ہوں ان کا نام بھی تو مہ جبیں ہے،پھر بتایا کہ سنیل دت اور نرگس انہیں یہاں چیک اپ کے لئے لائے ہیں اور اینجل ہسپتال میں انہیں داخل کروانے کے بعد نرگس کے علاج کے لئے امریکہ چلے گئے ہیں۔

کفایت حسین کا کہنا ہے کہ وہ جیسے فلمی ستاروں کے پرستار ہوتے ہیں ،میں بھی مینا کماری کا پرستار تھا مگر بمبئی میں ان کے ساتھ کوئی میل ملاقات نہ ہو سکی تھی،چیتو سے یہ احوال سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ہم بیٹھے کاہے کو ہیں چلیں اور مینا کماری سے جا کر ملتے ہیں۔چیتو بتا چکاتھا کہ مینا بالکل اکیلی ہیں یہاں پر ان کا کوئی نہیں ہے۔وہاں پہنچے تو اداس و تنہا مہ جبیں سے ملاقات ہوئی چیتو کو وہ جانتی تھیں ،چیتو نے ان کا تعارف کروایا،بہت خوش ہوئیں۔ سید صاحب نے جاتے ہی بتایا کہ میری بہن کا نام بھی مہ جبیں ہے اور چھوٹا بھائی شاہد ہے اس پر مینا جی نے کہا کہ ان کے ایک کزن کانام بھی شاہد ہے اور یہ کہا کہ اس طرح تو ہماری فیملی مکمل ہوگئی۔

سید صاحب نے بتایا کہ آپ یہاں اکیلی نہیں ہیں میری بہن آپ کے پاس رہے گی اور چھوٹا بھائی بھی۔ بقول سید صاحب چنانچہ مینا کماری کوئی بیس بائیس روز وہاں رہی ہوں گی میری بہن اور بھائی نے دن رات ان کی خدمت کی اور ایک لمحہ انہیں تنہا نہ چھوڑا جس پر وہ نہایت ممنون و شکر گزار تھیں اور کہتی تھیں کہ میں آپ کا یہ قرض کبھی چکا نہیں سکوں گی۔ وہ میری بہن اور بھائی سے ہر وقت یہ دعا کرنے کو کہتیں کہ اللہ تعالی انہیں زندگی میں اتنی مہلت دے دے کہ وہ فلم پاکیزہ مکمل کروا سکیں۔ میرے بھائی شاہد کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اتنی گڑگڑا کر راتوں کو مینا کماری کی صحت یابی اور خواہش کی تکمیل کیلئے دعائیں مانگیںکہ وہ کہتے ہیں کہ مینا کماری ان کی دعاؤں سے ہی ٹھیک ہوئیں اور ادھوری فلم کی تکمیل کروا سکیں۔ مینا کماری نے ہندوستان پہنچ کر میرے بھائی اور بہن کو چند خطوط بھی لکھے اور رابطے میں رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں