بچوں کا تحفظ قانون سازی کے جال میں پھنس گیا
زینب الرٹ قانون کے ملک گیرنفاذ پرقانون سازوں اورقانونی ماہرین میں اختلاف
ملک میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن بچوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا زینب الرٹ قانون قانون سازی کے جال میں پھنس گیا ہے۔
زینب الرٹ قانون کے نفاذ پر قانون سازوں(ارکان پارلیمنٹ) اور قانونی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اس قانون کے صوبوں کی حدود میں نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کولازمی قراردے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب 2010 ء میں صوبائی خودمختاری کو تقویت ملی تب قانون سازی ، مالی اور انتظامی قابلیت کے لحاظ سے بچوں کی فلاح و بہبود کو صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا۔ مرکز کی قانون سازی کے اختیارات صرف دفاع ، کرنسی ، خارجہ امور وغیرہ تک محدود ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ آرٹیکل 142 (بی) مرکز کو مجرمانہ قانون ، طریقہ کار اور شواہد سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون صوبائی قوانین پر غالب رہے گا۔
زینب الرٹ قانون کے نفاذ پر قانون سازوں(ارکان پارلیمنٹ) اور قانونی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اس قانون کے صوبوں کی حدود میں نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کولازمی قراردے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب 2010 ء میں صوبائی خودمختاری کو تقویت ملی تب قانون سازی ، مالی اور انتظامی قابلیت کے لحاظ سے بچوں کی فلاح و بہبود کو صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا۔ مرکز کی قانون سازی کے اختیارات صرف دفاع ، کرنسی ، خارجہ امور وغیرہ تک محدود ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ آرٹیکل 142 (بی) مرکز کو مجرمانہ قانون ، طریقہ کار اور شواہد سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون صوبائی قوانین پر غالب رہے گا۔