ووہان وائرس پاکستانی طلبا کے والدین تسلی رکھیں

چینی حکام مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ نقل و حمل کی پابندیوں کی وجہ سے طلبا کو خوراک یا دوسرے مسائل کا سامنا نہ ہو

ووہان وائرس کی صورتحال سے چین میں مقیم پاکستانی طلبا کے والدین کی بے چینی اور تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ووہان میں وائرس سے ہونے والی اموات سے روزانہ اضافہ ہورہا ہے اور اب تک کی آنے والی خبروں کے مطابق کم از کم 4 پاکستانی طالب علم بھی اس سے متاثر ہوچکے ہیں، جنہیں فوری طور پر علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اس صورتحال سے چین میں مقیم پاکستانی طلبا کے والدین کی بے چینی اور تشویش میں اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان سے آنے والی ہر کال اور میسیج میں یہی پوچھا جارہا ہے کہ ہم کب نکل رہے ہیں چین سے؟

ووہان سے پھیلنے والا کورونا وائرس نہ صرف انسان سے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ انتہائی تیزی سے اپنی ساخت بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہ وائرس اپنے ابتدائی دنوں میں بہت تیزی سے پھیلا اور ان وجوہات کا علم ہونے پر چینی حکومت نے انسانوں سے انسان میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے کچھ ضروری اقدامات کیے۔

ووہان شہر کا رابطہ ملک کے باقی حصوں سے کاٹ دیا گیا ہے، نہ کوئی شخص ووہان میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ووہان شہر چھوڑنے کی اجازت ہے۔ نقل و حرکت کی یہ پابندی صرف پاکستانیوں پر ہی نہیں، بلکہ اس وقت ایک کروڑ شہری ووہان میں اپنے گھروں میں بند ہیں۔

غیر ضروری طور پر لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا سختی سے منع ہے۔ اسی طرح عوامی مقامات، شاپنگ سینٹرز میں کسی ضرورت کے تحت ہی جانے کی ہدایات ہیں اور پھر وہاں جانے کے حوالے سے بھی خصوصی انتطامات کیے جاتے ہیں۔

یونیورسٹیاں غیر حتمی مدت تک کےلیے بند کردی گئی ہیں اور طلبا کو بھی یہی کہا جارہا ہے کہ وہ صرف اپنے کمروں میں ٹھہریں، باہر نہ آئیں، ہاسٹل سے باہر کے دوستوں سے نہ ملیں وغیرہ۔


یہ بات سمجھنے کی ہے کہ چینی حکومت ایک کروڑ لوگوں کو ایک شہر میں روک کر اور پورے ملک میں تقریباً ایک ارب لوگوں پر صحت کی ایمرجنسی نافذ کرکے خوشی نہیں محسوس کررہی۔ اس میں ان لوگوں کو بھی بہت نقصاں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن انسانی جانوں کے مزید ضیاع کو روکنے کےلیے وہ اپنی معیشت کو پہنچنے والے روزانہ کروڑوں ڈالر کے نقصان کو برداشت کر رہے ہیں۔

چینی حکومت نے اس سے پہلے 2003 میں سارس وائرس کے پھیلاؤ کے دوران بہت سارے اقدامات کیے تھے، انہیں اس کا بھی وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اسی طرح اس وقت دنیا بھر سے اس شعبے کے ماہرین کی خدمات وہ حاصل کررہے ہیں، جن کی تجاویز سے اس طرح کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں بیجنگ میں ہمارا سفارت خانہ بھی مسلسل چینی حکام اور پاکستانی طلبا سے رابطے میں ہے اور پاکستانی طلبا کو تمام سہولیات بہم پہنچانے کےلیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔

البتہ اس ساری ٹینشن کی صورت حال میں یہ بات خوش آئند ہے کہ چینی حکام مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں کہ نقل و حمل کی پابندیوں کی وجہ سے طلبا کو خوراک یا دوسرے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ بہت ساری یونیورسٹیوں میں طلبا کو کھانا مفت فراہم کیا جارہا ہے۔ بہت ساری جگہوں پر ہاسٹل میں کچی سبزیاں اور پھل فراہم کیے جا رہے ہیں، جنہیں خود پکا کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی کیمپسز میں موجود مارکیٹیں کھول دی گئی ہیں، حالانکہ نئے سال کے تہوار کی چھٹیوں کی وجہ سے وہ بند تھیں۔ پانی ہاسٹل کے دروازے پر پہنچایا جارہا ہے۔ مارکیٹیں کھلی ہیں، جہاں سے تمام اشیائے ضروریہ خریدی جاسکتی ہیں۔

اس کے ساتھ چین میں صحت کی بہترین سہولیات ہمیں دستیاب ہیں۔ دن میں کئی بار تو ہمارا درجہ حرارت چیک ہوتا ہے۔ ماسک فراہم کیے جارہے ہیں۔ وائرس سے متاثرہ تمام افراد کےلیے علاج معالجے کی تمام سہولیات بالکل مفت کردی گئی ہیں۔ ٹیسٹ اور ادویات حکومت کے ذمے ہیں۔ اسی طرح معمولی بخار اور زکام کے مریضوں کو کسی پریشانی سے بچانے کےلیے آن لائن ہیلپ لائن قائم کی گئی ہیں، جہاں ڈاکٹر علامات جاننے کے بعد اگر مناسب سمجھتے ہیں تو اسپتال جانے کی تجویز دیتے ہیں، ورنہ ضروری دوا تجویز کردی جاتی ہے۔

یہ ساری باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ اگرچہ ہم ایک مشکل وقت میں ہیں لیکن ہم اکیلے نہیں ہیں، اس وقت 100 کروڑ لوگ ہمارے ساتھ اس مشکل وقت میں ہیں۔ چینی حکومت اور عوام کی بھی جانب سے ہمارا خیال رکھا جارہا ہے اور ہماری بہتری، فلاح اور صحت کےلیے تمام تر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story