بہمن آباد سے عربوں کے دارالحکومت منصورہ تک
محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث عربوں کا دارالحکومت کھنڈرات میں تبدیل ہوتا گیا
ISLAMABAD:
اگر تہذیب، تمدن و ثقافت کی بات کی جائے تو صرف ملک بھر میں نہیں بلکہ دنیا میں صوبہ سندھ کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ قدیم تہذیب رکھنے کے حوالے سے اس کے ورثے عالمی ورثوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
اس سلسلے میں اب تک ملنے والی تہذیبوں میں دنیا بھر میں سب سے قدیم تہذیب کے طور پر انڈس ویلی یعنی دریائے سندھ کی تہذیب کو مانا جاتا ہے، جو صرف موہن جو دڑو تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی شاخیں ہڑپہ کی صورت میں پنجاب، ٹیکسلا کی صورت میں راولپنڈی، بلکہ اس سے آگے تک جاپہنچتی ہیں اور اسی وجہ سے دنیا بھر سے سیاح جوق درجوق ان تہذیبوں کو دیکھنے کےلیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور اس وقت حیران ہوجاتے ہیں جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں 5000 سال قبل بسنے والے لوگ غاروں میں رہنے کے ساتھ اپنے تن کو چھپانے کےلیے لباس استعمال کرتے تھے، جبکہ انہوں نے پینے کے پانی کےلیے کنویں بھی بنا رکھے تھے اور نکاسی آب کے بھی خصوصی انتظامات ہونے کے ساتھ دنیا کی پہلی یونیورسٹی، کالجز اور اسکولز قائم تھے۔ اسی وجہ سے ان تہذیبوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
ہمارے ملک میں قدیم تہذیبیں صرف ان ورثوں پر ہی ختم نہیں ہوتیں بلکہ سنجیدہ کوششوں کی صورت میں کئی اور قدیم ورثے بھی دریافت ہوسکتے تھے، مگر اس جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کے باعث کئی قدیم تہذیبیں اس وقت بھی منوں مٹی تلے دبی ہوئی ہیں مگر انہیں دریافت کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر کچھ اور تہذیبیں دریافت بھی ہوئیں تو اس طرف سرے سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی قدیم تہذیبوں میں وسطی سندھ سانگھڑ، جسے قدامت کے اعتبار سے 3000 سال قدیم قرار دیا جاتا ہے اور اس کا نام سانگھڑ ہونے کے حوالے سے بعض مورخین کا کہنا یہ ہے کہ یہ مچھیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں ایک خداترس خاتون سنگھڑ بائی کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا، لہٰذا اس گاؤں کا نام بھی سنگھڑ گوٹھ رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں یہ نام بگڑ کر سنگھڑ سے سانگھڑ ہوگیا۔
سانگھڑ کی زمین انتہائی ذرخیز ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ 1935 میں جب انگریزوں کی حکمرانی تھی تو انہوں نے سانگھڑ کو ایک تحصیل کا درجہ دے دیا اور حسب روایت اس شہر کی قدامت معلوم کرنے کےلیے کھدائیاں کروائیں۔ ایسے میں ماضی کے بہمن آباد میں کھدائی کے دوران ایک قلعہ بند شہر دریافت ہوا۔ ملنے والے نوادرات کی روشنی میں انہوں نے اسے 17 ویں صدی کی قدیم تہذیب قرار دیا اور وہاں سے ملنے والے نوادرات، جن میں سکے، برتن اور دیگر اشیا کے سبب ایک عظیم تہذیبی ورثہ قرار دے دیا۔ لیکن پھر انگریزوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہ تہذیب تاریخ کے گمشدہ اوراق میں شامل ہوگئی اور جب انگریزوں نے قیام پاکستان کی وجہ سے یہاں سے کوچ کیا تو چند انگریز ماہرین آثار قدیمہ نے ایک بار پھر اس قدیم تہذیب پر کام شروع کردیا۔ 1965 سے 1998 تک محکمہ آثار قدیمہ کے ساتھ مل کر ناصرف اس قدیم تہذیب کو دریافت کرلیا بلکہ اسے محفوظ بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 800 ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی اس تہذیب، جہاں بدھسٹ کا اسٹوپا، مسجد، مندر اور مزار کے آثار برآمد ہوئے تھے، کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہ مل سکی اور یہ دھیرے دھیرے کھنڈرات میں تبدیل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے اطراف لوگوں نے اس تباہ حال قلعہ بند شہر کی اینٹوں سے نا صرف پختہ مکانات تعمیر کرلیے بلکہ باقاعدہ طور پر اس قدیم ورثے کے مختلف آثار پر اپنے آبائو اجداد کی قبریں بنانا شروع کردیں، جو کہ آج بھی نمایاں طور پر جابجا نظر آتی ہیں۔
مگر چونکہ محکمہ آثار قدیمہ اس حوالے سے ایک تاریخ مرتب کرچکا تھا اور مورخین بھی دریافت ہونے والے اس شہر کے حوالے سے اپنی آرا پیش کررہے تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی تحقیق کی روشنی میں علیحدہ علیحدہ باتیں کیں۔ کسی نے کہا کہ یہ علاقہ ماضی کا بہمن آباد ہے، جہاں بہمن قبائل کے لوگ آباد تھے۔ کسی نے اسے برہمن آباد قرار دیا تو بعض مورخین اسے راجہ داہر کی راجدھانی قرار دیتے رہے۔ چند ایک نے اسے عربوں کا دارالحکو مت منصورہ قرار دیا۔
ان آثار کی تاریخ کے حوالے سے مورخین میں تو کبھی اتفاق قائم نہ ہوسکا مگر اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی تحقیق کی روشنی میں اس جگہ را جہ داہر کا قلعہ ہونے کے ساتھ اس بات کی تصدیق کی کہ یہ عربوں کا دارالحکو مت منصورہ ہی ہے۔ ان ماہرین کا کہنا یہ تھا کہ یہ قلعہ بند شہر محمد بن قاسم کے صاحبزادے امر بن محمد بن قاسم نے بسایا تھا۔ اس بات کی تصدیق یہاں سے ملنے والے ان قدیم سکوں سے ہوئی جس پر امر بن قاسم کا نام درج تھا۔ نیز کھدائی کے دوران یہاں دروازے پر دستک دینے کےلیے منوں وزنی کنڈے بھی دریافت ہوئے، جن کے درمیان میں ایک شکل نمایاں ہے، جبکہ اس کے چاروں طرف کلمہ طیبہ درج ہے۔
جس طریقے سے اس شہر کی تعمیر کے حوالے سے مورخین میں اختلاف پایا گیا، اسی طرح اس شہر کی تباہی کے حوالے سے بھی مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کی علیحدہ علیحدہ آرا ہیں۔ بعض کا کہنا یہ ہے کہ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی طرح اس شہر کو بھی دریائے سندھ کی طغیانی نے تباہ کیا۔ بعض اس شہر میں ہونے والی تباہی کی ذمے داری خوفناک زلزلے کو قرار دیتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ کی رائے یکسر مختلف ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس شہر کے اندر ایک راجہ کی حکمرانی تھی، جس کے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات تھے۔ جب محمود غزنوی سومناتھ کے مندر کو فتح کرنے نکلا تو اس نے اس راجہ سے اپنی فوج کو دریا پار کرنے کےلیے کشتیاں مانگیں۔ مگر اس نے انکار کردیا۔ جس پر محمود غزنوی نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کشتیاں حاصل کیں اور افغانستان کا رخ کیا اور لوٹ مار کے بعد سومناتھ مندر کو تباہ کردیا۔ فتح کے بعد جب واپس لوٹا تو اس نے راجہ سے انتقام لینے کےلیے قلعہ بند شہر کے اطراف پڑاؤ ڈال دیا، مگر قلعے کا دروازہ بند ہونے کے باعث اندر داخل نہ ہوسکا اور بالآخر اس کے فوجیوں نے قلعے کو چاروں طرف سے آگ لگادی۔ جس کے بعد اس شہر کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی کھوج کے بعد ایک بار پھر تاریخ کے اوراق میں تو اسے زندہ کردیا مگر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث عربوں کا دارالحکومت کھنڈرات میں تبدیل ہوتا گیا۔ آج یہاں اس قدیم اور عظیم شہر کے کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں، جسے غور سے دیکھنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں یہ کوئی قدیم شہر ہوگا۔
بھلا ہو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا، جن کی مدبرانہ، دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پاکستان کا دنیا بھر میں مورال بلند ہوا اور برطانیہ نے پاکستان کو سیف زون قرار دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو پاکستان میں سیاحت کرنے کی دعوت دے ڈالی اور اس کے ہائی آفیشلز نے باقاعدہ طور پر 26 گھنٹے ٹرین کا سفر کرکے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک محفوظ ملک قرار دیا۔ کچھ اور ممالک نے بھی سیاحت کے فروغ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ معاہدے کیے تو حکومت سندھ بھی خواب غفلت سے جاگ گئی اور اس نے فوری طور پر اپنے قدیم ورثوں کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ اور دریافت ہونے والی تہذیبوں کو اس کی اصل حالت میں لانے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا۔ حکومت سندھ کے پاس ماہرین آثار قدیمہ کی کمی ہے اس لیے ریٹائر ہونے والے سابق ڈائریکٹر جنرل قاسم علی قاسم، جنہوں نے موہن جودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کی دریافت میں معاون کردار ادا کیا تھا اور 1998 میں منصورہ شہر کی کھدائی میں بھی حصہ لیا تھا، کی خدمات مستعار لیتے ہوئے انہیں منصورہ میں تعینات کردیا اور فوری طور پر اس شہر کو اس کی اصل حالت میں لانے کی ہدایات کردی۔ جس کے بعد سابق ڈی جی نے منصورہ میں بنائے ہوئے کیمپ میں ڈیرے ڈال لیے اور کچھ ماہرین کے ساتھ باقاعدہ طور پر اس شہر کا وقار لوٹانے کا کام شروع کردیا۔
اس حوالے سے راقم الحروف نے بھی بہمن آباد کا رخ کیا اور اس قدیم تہذیب کے مطالعاتی دورے میں مٹتے ہوئے آثار دیکھے۔ جہاں ماسوائے ایک قدیم مزار، اسٹوپا، مسجد اور آبادی کے مٹتے آثار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ قاسم علی قاسم نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ یہ عربوں کا دارالحکو مت منصورہ ہے۔ اس کی کھدائی کے دوران باقاعدہ طور پر ایسے شواہد حاصل ہوچکے ہیں جبکہ اس شہر کو محمود غزنوی نے جلا کر خاک کیا تھا اس کے آثار بھی برآمد ہوچکے ہیں۔ ملنے والے منوں وزنی کنڈوں پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہر تہذیب و تمدن کے حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ شہر رہا ہوگا جہاں باقاعدہ طور پر سکے ڈھالنے کےلیے ٹیکسال موجود تھے۔ جہاں محمد بن قاسم کے صاحبزادے امر بن محمد بن قاسم کے ناموں کے سکے ملے ہیں۔
یہ مسلمانوں کی قدیم تہذیب تھی۔ حکومت سندھ نے اسے دوبارہ اس کی پرانی حالت میں لوٹانے کا جو کام شروع کیا ہے وہ نا صرف قابل تحسین ہے بلکہ حکومت سندھ کے اس اقدام کے سبب سندھ میں ایک اور تہذیب کا اضافہ ہوگا جسے دنیا بھر سے سیاح دیکھنے کےلیے آئیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر تہذیب، تمدن و ثقافت کی بات کی جائے تو صرف ملک بھر میں نہیں بلکہ دنیا میں صوبہ سندھ کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ قدیم تہذیب رکھنے کے حوالے سے اس کے ورثے عالمی ورثوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
اس سلسلے میں اب تک ملنے والی تہذیبوں میں دنیا بھر میں سب سے قدیم تہذیب کے طور پر انڈس ویلی یعنی دریائے سندھ کی تہذیب کو مانا جاتا ہے، جو صرف موہن جو دڑو تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی شاخیں ہڑپہ کی صورت میں پنجاب، ٹیکسلا کی صورت میں راولپنڈی، بلکہ اس سے آگے تک جاپہنچتی ہیں اور اسی وجہ سے دنیا بھر سے سیاح جوق درجوق ان تہذیبوں کو دیکھنے کےلیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور اس وقت حیران ہوجاتے ہیں جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں 5000 سال قبل بسنے والے لوگ غاروں میں رہنے کے ساتھ اپنے تن کو چھپانے کےلیے لباس استعمال کرتے تھے، جبکہ انہوں نے پینے کے پانی کےلیے کنویں بھی بنا رکھے تھے اور نکاسی آب کے بھی خصوصی انتظامات ہونے کے ساتھ دنیا کی پہلی یونیورسٹی، کالجز اور اسکولز قائم تھے۔ اسی وجہ سے ان تہذیبوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
ہمارے ملک میں قدیم تہذیبیں صرف ان ورثوں پر ہی ختم نہیں ہوتیں بلکہ سنجیدہ کوششوں کی صورت میں کئی اور قدیم ورثے بھی دریافت ہوسکتے تھے، مگر اس جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کے باعث کئی قدیم تہذیبیں اس وقت بھی منوں مٹی تلے دبی ہوئی ہیں مگر انہیں دریافت کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر کچھ اور تہذیبیں دریافت بھی ہوئیں تو اس طرف سرے سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی قدیم تہذیبوں میں وسطی سندھ سانگھڑ، جسے قدامت کے اعتبار سے 3000 سال قدیم قرار دیا جاتا ہے اور اس کا نام سانگھڑ ہونے کے حوالے سے بعض مورخین کا کہنا یہ ہے کہ یہ مچھیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں ایک خداترس خاتون سنگھڑ بائی کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا، لہٰذا اس گاؤں کا نام بھی سنگھڑ گوٹھ رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں یہ نام بگڑ کر سنگھڑ سے سانگھڑ ہوگیا۔
سانگھڑ کی زمین انتہائی ذرخیز ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ 1935 میں جب انگریزوں کی حکمرانی تھی تو انہوں نے سانگھڑ کو ایک تحصیل کا درجہ دے دیا اور حسب روایت اس شہر کی قدامت معلوم کرنے کےلیے کھدائیاں کروائیں۔ ایسے میں ماضی کے بہمن آباد میں کھدائی کے دوران ایک قلعہ بند شہر دریافت ہوا۔ ملنے والے نوادرات کی روشنی میں انہوں نے اسے 17 ویں صدی کی قدیم تہذیب قرار دیا اور وہاں سے ملنے والے نوادرات، جن میں سکے، برتن اور دیگر اشیا کے سبب ایک عظیم تہذیبی ورثہ قرار دے دیا۔ لیکن پھر انگریزوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہ تہذیب تاریخ کے گمشدہ اوراق میں شامل ہوگئی اور جب انگریزوں نے قیام پاکستان کی وجہ سے یہاں سے کوچ کیا تو چند انگریز ماہرین آثار قدیمہ نے ایک بار پھر اس قدیم تہذیب پر کام شروع کردیا۔ 1965 سے 1998 تک محکمہ آثار قدیمہ کے ساتھ مل کر ناصرف اس قدیم تہذیب کو دریافت کرلیا بلکہ اسے محفوظ بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 800 ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی اس تہذیب، جہاں بدھسٹ کا اسٹوپا، مسجد، مندر اور مزار کے آثار برآمد ہوئے تھے، کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہ مل سکی اور یہ دھیرے دھیرے کھنڈرات میں تبدیل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے اطراف لوگوں نے اس تباہ حال قلعہ بند شہر کی اینٹوں سے نا صرف پختہ مکانات تعمیر کرلیے بلکہ باقاعدہ طور پر اس قدیم ورثے کے مختلف آثار پر اپنے آبائو اجداد کی قبریں بنانا شروع کردیں، جو کہ آج بھی نمایاں طور پر جابجا نظر آتی ہیں۔
مگر چونکہ محکمہ آثار قدیمہ اس حوالے سے ایک تاریخ مرتب کرچکا تھا اور مورخین بھی دریافت ہونے والے اس شہر کے حوالے سے اپنی آرا پیش کررہے تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی تحقیق کی روشنی میں علیحدہ علیحدہ باتیں کیں۔ کسی نے کہا کہ یہ علاقہ ماضی کا بہمن آباد ہے، جہاں بہمن قبائل کے لوگ آباد تھے۔ کسی نے اسے برہمن آباد قرار دیا تو بعض مورخین اسے راجہ داہر کی راجدھانی قرار دیتے رہے۔ چند ایک نے اسے عربوں کا دارالحکو مت منصورہ قرار دیا۔
ان آثار کی تاریخ کے حوالے سے مورخین میں تو کبھی اتفاق قائم نہ ہوسکا مگر اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی تحقیق کی روشنی میں اس جگہ را جہ داہر کا قلعہ ہونے کے ساتھ اس بات کی تصدیق کی کہ یہ عربوں کا دارالحکو مت منصورہ ہی ہے۔ ان ماہرین کا کہنا یہ تھا کہ یہ قلعہ بند شہر محمد بن قاسم کے صاحبزادے امر بن محمد بن قاسم نے بسایا تھا۔ اس بات کی تصدیق یہاں سے ملنے والے ان قدیم سکوں سے ہوئی جس پر امر بن قاسم کا نام درج تھا۔ نیز کھدائی کے دوران یہاں دروازے پر دستک دینے کےلیے منوں وزنی کنڈے بھی دریافت ہوئے، جن کے درمیان میں ایک شکل نمایاں ہے، جبکہ اس کے چاروں طرف کلمہ طیبہ درج ہے۔
جس طریقے سے اس شہر کی تعمیر کے حوالے سے مورخین میں اختلاف پایا گیا، اسی طرح اس شہر کی تباہی کے حوالے سے بھی مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کی علیحدہ علیحدہ آرا ہیں۔ بعض کا کہنا یہ ہے کہ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی طرح اس شہر کو بھی دریائے سندھ کی طغیانی نے تباہ کیا۔ بعض اس شہر میں ہونے والی تباہی کی ذمے داری خوفناک زلزلے کو قرار دیتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ کی رائے یکسر مختلف ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس شہر کے اندر ایک راجہ کی حکمرانی تھی، جس کے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات تھے۔ جب محمود غزنوی سومناتھ کے مندر کو فتح کرنے نکلا تو اس نے اس راجہ سے اپنی فوج کو دریا پار کرنے کےلیے کشتیاں مانگیں۔ مگر اس نے انکار کردیا۔ جس پر محمود غزنوی نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کشتیاں حاصل کیں اور افغانستان کا رخ کیا اور لوٹ مار کے بعد سومناتھ مندر کو تباہ کردیا۔ فتح کے بعد جب واپس لوٹا تو اس نے راجہ سے انتقام لینے کےلیے قلعہ بند شہر کے اطراف پڑاؤ ڈال دیا، مگر قلعے کا دروازہ بند ہونے کے باعث اندر داخل نہ ہوسکا اور بالآخر اس کے فوجیوں نے قلعے کو چاروں طرف سے آگ لگادی۔ جس کے بعد اس شہر کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی کھوج کے بعد ایک بار پھر تاریخ کے اوراق میں تو اسے زندہ کردیا مگر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث عربوں کا دارالحکومت کھنڈرات میں تبدیل ہوتا گیا۔ آج یہاں اس قدیم اور عظیم شہر کے کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں، جسے غور سے دیکھنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں یہ کوئی قدیم شہر ہوگا۔
بھلا ہو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا، جن کی مدبرانہ، دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پاکستان کا دنیا بھر میں مورال بلند ہوا اور برطانیہ نے پاکستان کو سیف زون قرار دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو پاکستان میں سیاحت کرنے کی دعوت دے ڈالی اور اس کے ہائی آفیشلز نے باقاعدہ طور پر 26 گھنٹے ٹرین کا سفر کرکے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک محفوظ ملک قرار دیا۔ کچھ اور ممالک نے بھی سیاحت کے فروغ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ معاہدے کیے تو حکومت سندھ بھی خواب غفلت سے جاگ گئی اور اس نے فوری طور پر اپنے قدیم ورثوں کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ اور دریافت ہونے والی تہذیبوں کو اس کی اصل حالت میں لانے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا۔ حکومت سندھ کے پاس ماہرین آثار قدیمہ کی کمی ہے اس لیے ریٹائر ہونے والے سابق ڈائریکٹر جنرل قاسم علی قاسم، جنہوں نے موہن جودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کی دریافت میں معاون کردار ادا کیا تھا اور 1998 میں منصورہ شہر کی کھدائی میں بھی حصہ لیا تھا، کی خدمات مستعار لیتے ہوئے انہیں منصورہ میں تعینات کردیا اور فوری طور پر اس شہر کو اس کی اصل حالت میں لانے کی ہدایات کردی۔ جس کے بعد سابق ڈی جی نے منصورہ میں بنائے ہوئے کیمپ میں ڈیرے ڈال لیے اور کچھ ماہرین کے ساتھ باقاعدہ طور پر اس شہر کا وقار لوٹانے کا کام شروع کردیا۔
اس حوالے سے راقم الحروف نے بھی بہمن آباد کا رخ کیا اور اس قدیم تہذیب کے مطالعاتی دورے میں مٹتے ہوئے آثار دیکھے۔ جہاں ماسوائے ایک قدیم مزار، اسٹوپا، مسجد اور آبادی کے مٹتے آثار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ قاسم علی قاسم نے ملاقات میں راقم کو بتایا کہ یہ عربوں کا دارالحکو مت منصورہ ہے۔ اس کی کھدائی کے دوران باقاعدہ طور پر ایسے شواہد حاصل ہوچکے ہیں جبکہ اس شہر کو محمود غزنوی نے جلا کر خاک کیا تھا اس کے آثار بھی برآمد ہوچکے ہیں۔ ملنے والے منوں وزنی کنڈوں پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہر تہذیب و تمدن کے حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ شہر رہا ہوگا جہاں باقاعدہ طور پر سکے ڈھالنے کےلیے ٹیکسال موجود تھے۔ جہاں محمد بن قاسم کے صاحبزادے امر بن محمد بن قاسم کے ناموں کے سکے ملے ہیں۔
یہ مسلمانوں کی قدیم تہذیب تھی۔ حکومت سندھ نے اسے دوبارہ اس کی پرانی حالت میں لوٹانے کا جو کام شروع کیا ہے وہ نا صرف قابل تحسین ہے بلکہ حکومت سندھ کے اس اقدام کے سبب سندھ میں ایک اور تہذیب کا اضافہ ہوگا جسے دنیا بھر سے سیاح دیکھنے کےلیے آئیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔