کرونا وائرس کی اصل حقیقت
کیا کرونا وائرس ان حرام جانوروں کے گوشت کے استعمال سے پھیلا؟ تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ یقیناً یہ ان کی وجہ سے پھیلا
www.facebook.com/draffanqaiser
انسانی جبلت میں سنسنی ہے اور کوئی بھی ایسی خبر جو اپنے اندر چونکا دینے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ یوٹیوب کے اکثر چینل اسی سنسنی پر کام کرتے ہیں اور کلک بیٹ نامی ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں،وڈیو کے اوپر انتہائی سنسنی والی سرخی لگائی جاتی ہے اور جب آپ کھول کر پوری وڈیو دیکھتے ہیں تو اندر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔
کرونا وائرس نام کا وائرس بھی اسی سنسنی کی طرح عام ہوا۔ یہ پوری دنیا کے لیے یقیناً ہائی الرٹ تھا، مگر اتنا نہیں جتنا میں نے پاکستانیوں کو اس کے لیے پریشان دیکھا۔ گزشتہ ہفتے میرے جس مریض یا قریبی جاننے والے کو نزلہ یا زکام ہوا،اس نے پریشانی میں مجھے ضرور فون کیا کہ مجھے کرونا وائرس تو نہیں ہوگیا۔ پھر جاکر اس کا باقاعدہ ٹیسٹ بھی کروا کر آیا اور مجھے رپورٹ بھیجی۔
قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کرونا وائرس کا پاکستان میں کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا،ایسی کوئی سہولت موجود ہی نہیں ،مگر ہمارے ہاں یہ ٹیسٹ بھی نیم حکیم چند لیبارٹریوں نے ایجاد کرکے کردیا۔ کرونا وائرس چین کے شہر ووہان میں پھیلا، یہ وہاں کی گوشت کی منڈی سے پھیلا اور پھر پھیلتا چلا گیا۔اب تک سو سے اوپر ہلاکتیں اس شہر میں ہوچکی ہیں اور یوں پورے چین میں ریڈ الرٹ ہے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی ایسا ہی الرٹ جاری کر رکھا ہے اور یقیناً یہ دنیا میں پھیلنے کی صورت میں انتہائی مہلک ہے۔ یہ وائرس نیا ہے، مگر یہ نیا جین کوڈ لے کر آیا ، یہ دنیا میں پہلے سارس اور مڈل ایسٹ ریسپائیریٹری سنڈروم کے نام سے موجود تھا،اس سے ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی تھیں،مگر ان کا حجم ووہان جیسا نہیں تھا۔
ووہان میں یہ یقیناً آفت بن کر نازل ہوا ہے۔ اس کا نام اسی وجہ سے آنے والے وقتوں میں ووہان کرونا وائرس رکھا جائے گا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی وائرس کے خلاف ویکسین بنانی ہوتی تھی تو اس کو ٹرانسپورٹ کرنا پڑتا تھا،اب یہ کام جین کوڈ پر ہوتا ہے جو وائرس کے ڈی این اے یا آر این اے پر درج ہوتا ہے۔ چین نے اس وائرس کا کوڈ حاصل کرلیا ،مگر اس کی ویکسین بنانے کے لیے چین کو چھ ماہ سے سال کا عرصہ درکار تھا۔ چین ووہان میں ہزار بیڈز پر مشتمل کرونا وائرس اسپتال تو پانچ دن میں بنانے میں کامیاب ہوگیا،مگر یہاں اس کو امریکا کی مدد کی ضرورت پڑ گئی۔
اس ضمن میں امریکی ریسرچ ادارے نے تین دن میں اس وائرس کے کوڈ کے خلاف ویکسین بنانے کا اعلان کیا ہے،مگر اس کو انسانوں کے لیے قابلِ عمل لاتے تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ ویکسین ایڈز کی ویکسین کی طرح فیل ہوجائے۔ مطلب نئی جین کوڈ کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے لیے ویکسین بنانے کی کوشش اگر ناکام ہوجائے تو ایسے میں بہت بڑی آبادی اس وائرس سے متاثر ہوسکتی ہے۔یہ وائرس بنیادی طور پر انسان کے سانس کو منجمد کردیتا ہے۔پہلے عام نزلہ زکام ،خشک کھانسی ہوتی ہے اور پھر پھیپھڑے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اور انسان وہیں سانس بند ہونے سے ساکت ہوکر گرنے لگتا ہے۔
ایسا ہی ووہان کی سڑکوں پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا، جب لوگ سڑکوں پر گرتے دکھائی دیے۔ راقم کو چین کے شہر تیانجن میں جگر کی پیوندکاری کے یونٹ میں کچھ عرصہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس شہر کی ملحقہ گوشت مارکیٹ ووہان جیسی تھی۔ یہ گوشت مارکیٹ دیکھنے اور اس میں جانے کے لیے میرے جیسے انسان کے پاس جو چیز سب سے زیادہ ضروری تھی،وہ حوصلہ تھا۔ یہاں کتے،سانپ، بلیوں، مگر مچھوں سمیت سب کا گوشت ملتا تھا ۔یہ زندہ ہوتے،آپ کے سامنے ان کے سر پر کرنٹ والا راڈ مارا جاتا اور پھر مرضی کے حصے کا گوشت بنا کردیا جاتا۔
یہاں بڑے سانپ ایناکونڈا تک کا گوشت دستیاب تھا۔ یہ چمگادڑ ،الوئوں سمیت ہر طرح کے جانوروں کی بہت بڑی منڈی تھی۔ اسی طرح ہر قسم کی سمندری حشرات بھی مہیا تھیں۔ ان جانوروں میں اکثریت حرام جانوروں کی تھی۔
راقم آدھ گھنٹے اس منڈی میں رہا اور جب شدید تعفن سے جان نکلنے لگی تو وہاں سے نکل آیا اور کمرے میں آکر سب سے پہلے اپنے مسلمان ہونے اور پھر پاکستانی ہونے پر رب کا شکر ادا کیا، پاکستانی ہونے پر اس لیے کہ آدھ گھنٹہ اس تعفن میں گزارنے کے لیے آپ کا پاکستانی ہونا بہت ضروری تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کرونا وائرس ان حرام جانوروں کے گوشت کے استعمال سے پھیلا؟ تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ یقیناً یہ ان کی وجہ سے پھیلا ،مگر ان میں سے کونسا جانور،اس پر ابھی تحقیق کی جارہی ہے۔