مسائل میں الجھا سندھ مسیحا کی تلاش میں
پیپلز پارٹی کو اب یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ لاڑکانہ کے عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہی ہے۔
محمد موسیٰ بھٹو نے اپنی تصنیف ''سندھ کے حالات کی سچی تصویر'' میں لکھا تھا کہ آزادی سے قبل سندھ کے حالات کو خراب کرنے اور یہاں کے عوام کو پسماندہ رکھنے کے ذمے دار خود یہاں کے وڈیرے تھے انگریزوں نے برصغیر کے دوسرے صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں تعلیمی نظام نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کا کام شروع کردیا تھا مگر سندھ پر 1843 میں قبضہ کرنے کے بعد 1853 میں یعنی دس سال بعد یہاں تعلیم کی ترویج اور ترقیاتی کاموں پر توجہ مرکوز کی گئی کیونکہ سندھ سے اس سلسلے میں کسی نے کوئی آواز بلند نہیں کی تھی پھر جب سندھی قوم کے کچھ محسنوں نے انگریز سرکار کی بے حسی دیکھ کر اپنے طور پر اندرون سندھ اسکولوں کو کھولنے کی کوشش کی تو یہاں کے وڈیروں نے سخت مزاحمت کی۔
انھوں نے اپنے علاقوں میں کوئی اسکول کھلنے نہ دیا اور کھلنے والے اسکولوں کو چلنے نہ دیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ عوام کے تعلیم یافتہ ہونے سے انھیں اپنی وڈیرہ شاہی اور حکمرانی خطرے میں نظر آرہی تھی یوں سندھی قوم میں سیاسی بیداری تو کیا پیدا ہوتی وہ تو اپنے حقوق تک سے ناآشنا تھے۔
اب آزادی کے بعد سندھ کے عوام جو چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں کیا جدید دنیا کے تقاضوں کیمطابق اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں تو اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ اس وقت بھی ان کی حالت بد سے بدتر ہے ان کی خستہ حالی اور بنیادی شہری سہولیات سے محرومی کے بارے میں اکثر اخبارات میں خبریں اور فیچر چھپتے رہتے ہیں کیا اندرون سندھ کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں کیا انھیں پاکستان کے دوسرے شہریوں جیسی سہولیات میسر نہیں ہونی چاہئیں؟ ان سے ووٹ لے کر ان کے مسائل کو حل نہ کرنا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
ترقی کے مواقع سے عاری اور بنیادی شہری سہولیات سے محرومی کے لحاظ سے سندھ کے اہم شہر لاڑکانہ کو نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے یہ وہ شہر ہے جسے سندھ کی سیاست میں شروع سے ہی اہم مقام حاصل ہے۔ ویسے تو یہاں تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنے جلسے منعقد کرتی رہتی ہیں مگر مقامی لوگوں کے مطابق 24 جنوری کو یہاں منعقد ہونے والا پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ بہت مختلف تھا اس سے پہلے اتنا بڑا جلسہ یہاں کبھی منعقد نہیں ہوا تھا۔
اس جلسے میں عوام کی گہری دلچسپی دیکھ کر لگا کہ جیسے وہ اپنی محرومیوں سے نجات پانے کے لیے پی ایس پی سے بہت امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس شہر کو پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے اور یہ بات ہے بھی درست کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کا اسی شہر سے تعلق تھا انھوں نے ایک ڈکٹیٹر کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے جمہوریت کو پھر سے ملک میں بحال کیا تھا۔ اس وقت سے وہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے ایسے مرید بنے کہ چالیس سال اس میں جکڑے رہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد ان کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان کے شہر کی سڑکوں کے گڑھے، جگہ جگہ بہتا ہوا گٹر کا پانی، پارکوں باغوں سے بے اعتنائی اور تعلیم گاہوں کی زبوں حالی یہ بتا رہی ہے کہ وہ اب موجودہ حالات سے سخت بے زار ہیں اور کسی نئے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ پی ایس پی کے جلسے کی وہاں اندازے سے کہیں زیادہ کامیابی یہ اشارہ کر رہی ہے کہ وہاں کے عوام بڑی حسرت سے اس کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح مصطفیٰ کمال نے کراچی کی حالت کو بدل ڈالا تھا وہ ان کے شہر کے لیے ویسا ہی کردار ادا کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے شہریوں کو ان کی میئر شپ کے زمانے میں جو بنیادی شہری سہولیات میسر آئی تھیں وہ نہ اس سے پہلے انھیں حاصل تھیں اور نہ اب میسر ہیں اس وقت تو کراچی کے شہری ایک ایسے میئر کے رحم و کرم پر ہیں جو بار بار یہ مایوس کن نعرہ بلند کرتے نہیں تھکتے کہ وہ بے اختیار ہیں حالانکہ انھیں کچھ تو اختیارات ضرور حاصل ہیں مگر افسوس کہ وہ تو انھیں بھی بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے ایک ڈرامہ رچایا تھا جس کے ذریعے انھوں نے اپنی مصیبت مصطفیٰ کمال کے سر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ کراچی کو کچرے سے صاف کرنا ایک بڑا چیلنج تھا مگر عوامی خدمت کے لیے انھوں نے کے ایم سی کا گاربیج ڈائریکٹر بننا خوش دلی سے قبول کرلیا تھا۔
وسیم اختر کراچی کو کچرا کنڈی بنا کر اس کا کچرا مصطفیٰ کمال سے اس لیے صاف کرانا چاہتے تھے کیونکہ یہ شخص انھیں ان کے فرائض یاد دلایا کرتا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے ان کی توقعات کے برعکس شہر کو گندگی سے پاک کرنے کے لیے ایسا جوش و جذبہ دکھایا کہ وسیم اختر نے اپنی عزت بچانے کے لیے فوراً اپنا آرڈر واپس لے لیا اور یوں شہر پھر جوں کا توں کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کرتا رہ گیا۔
پی ایس پی عام انتخابات میں کوئی سیٹ نہیں جیت سکی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس نئی پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اکثر نئی پارٹیاں ایسی شکستوں سے بکھر جاتی ہیں مگر اس کے کارکنان کی ہمت و استقامت قابل دید ہے کہ پارٹی قائم و دائم رہی اور اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اس پارٹی کی مضبوطی کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس نے کراچی اور سندھ کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلائی اس پارٹی نے ایک ایسے طاقتور کو شکست دی جو سندھی اور مہاجروں کو لڑانے کے علاوہ سندھ کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتا تھا۔ وہ تو خیر ہوگئی کہ اس طاقتور کی حکمرانی ختم ہوگئی ورنہ وہ تو پاکستان کے ہی ٹکڑے کرا دیتا۔
پی ایس پی کے لاڑکانہ میں منعقدہ جلسے میں عوام کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کی بات کی گئی گوکہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں اس لیے کہ عمران خان نے ان سے بڑھ چڑھ کر وعدے کیے تھے مگر افسوس کہ ان کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی کا جن بوتل سے ایسا باہر آیا ہے کہ پورا پاکستان اس کے شکنجے میں پھنس چکا ہے۔ اب لگتا ہے اسے پھر بوتل میں بند کرنا پی ٹی آئی کی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ صرف پندرہ مہینے میں مہنگائی اور بے روزگاری کا یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا؟
آٹا چینی وغیرہ کی مہنگائی تو ایک طرف ان کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ پھر گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور عوام کو بہت بھاری پڑ رہا ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف نے عام انتخابات میں غیر متوقع کامیابی ضرور حاصل کی ہے مگر اس کے ارکان اسمبلی کا عوام کی خدمت کرنے میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے حالات میں لگتا ہے سندھ کے عوام اب کسی نئی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ سندھ کے عوام جہاں معاشی مسائل سے نبرد آزما ہیں وہاں بنیادی شہری مسائل بھی اہم ایشو بن چکے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق سال رواں کے اگست کے مہینے میں بلدیاتی الیکشن ہونے کا امکان ہے۔ سندھ کے عوام کی خواہش ہے کہ انھیں جلد ازجلد منعقد کرایا جائے تاکہ عوام کا درد رکھنے والی قیادت سامنے آئے اور انھیں بلدیاتی مسائل سے نجات دلائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ایس پی اگر بلدیاتی الیکشن میں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لیتی ہے تو وہ دوسری پارٹیوں پر سبقت لے سکتی ہے کیونکہ بحیثیت میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی کارکردگی مثالی تھی صرف کراچی ہی نہیں اسے سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اس وقت سندھ کے اکثر شہروں کا برا حال ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ لاڑکانہ کے عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرایع کے مطابق پی ایس پی نے وہاں کے عوام کے اصرار پر ہی جلسہ منعقد کیا ہے پھر وہاں کے با اثر افراد نے جلسے کے انعقاد میں بھرپور تعاون دراز کیا ہے چنانچہ پیپلز پارٹی کو اب نوشتہ دیوار پڑھنے میں ذرا غلطی نہیں کرنی چاہیے اور اپنی خوش فہمی سے نکل کر اپنی کارکردگی کا ضرور جائزہ لینا چاہیے ساتھ ہی اس کی قیادت کے بارے میں وڈیرہ شاہی جیسا رویہ اپنانے کا جو عوام میں تاثر ابھرا ہے اسے بھی دور کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے اپنے علاقوں میں کوئی اسکول کھلنے نہ دیا اور کھلنے والے اسکولوں کو چلنے نہ دیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ عوام کے تعلیم یافتہ ہونے سے انھیں اپنی وڈیرہ شاہی اور حکمرانی خطرے میں نظر آرہی تھی یوں سندھی قوم میں سیاسی بیداری تو کیا پیدا ہوتی وہ تو اپنے حقوق تک سے ناآشنا تھے۔
اب آزادی کے بعد سندھ کے عوام جو چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں کیا جدید دنیا کے تقاضوں کیمطابق اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں تو اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ اس وقت بھی ان کی حالت بد سے بدتر ہے ان کی خستہ حالی اور بنیادی شہری سہولیات سے محرومی کے بارے میں اکثر اخبارات میں خبریں اور فیچر چھپتے رہتے ہیں کیا اندرون سندھ کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں کیا انھیں پاکستان کے دوسرے شہریوں جیسی سہولیات میسر نہیں ہونی چاہئیں؟ ان سے ووٹ لے کر ان کے مسائل کو حل نہ کرنا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
ترقی کے مواقع سے عاری اور بنیادی شہری سہولیات سے محرومی کے لحاظ سے سندھ کے اہم شہر لاڑکانہ کو نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے یہ وہ شہر ہے جسے سندھ کی سیاست میں شروع سے ہی اہم مقام حاصل ہے۔ ویسے تو یہاں تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنے جلسے منعقد کرتی رہتی ہیں مگر مقامی لوگوں کے مطابق 24 جنوری کو یہاں منعقد ہونے والا پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ بہت مختلف تھا اس سے پہلے اتنا بڑا جلسہ یہاں کبھی منعقد نہیں ہوا تھا۔
اس جلسے میں عوام کی گہری دلچسپی دیکھ کر لگا کہ جیسے وہ اپنی محرومیوں سے نجات پانے کے لیے پی ایس پی سے بہت امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس شہر کو پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے اور یہ بات ہے بھی درست کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کا اسی شہر سے تعلق تھا انھوں نے ایک ڈکٹیٹر کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے جمہوریت کو پھر سے ملک میں بحال کیا تھا۔ اس وقت سے وہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے ایسے مرید بنے کہ چالیس سال اس میں جکڑے رہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد ان کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان کے شہر کی سڑکوں کے گڑھے، جگہ جگہ بہتا ہوا گٹر کا پانی، پارکوں باغوں سے بے اعتنائی اور تعلیم گاہوں کی زبوں حالی یہ بتا رہی ہے کہ وہ اب موجودہ حالات سے سخت بے زار ہیں اور کسی نئے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ پی ایس پی کے جلسے کی وہاں اندازے سے کہیں زیادہ کامیابی یہ اشارہ کر رہی ہے کہ وہاں کے عوام بڑی حسرت سے اس کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح مصطفیٰ کمال نے کراچی کی حالت کو بدل ڈالا تھا وہ ان کے شہر کے لیے ویسا ہی کردار ادا کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے شہریوں کو ان کی میئر شپ کے زمانے میں جو بنیادی شہری سہولیات میسر آئی تھیں وہ نہ اس سے پہلے انھیں حاصل تھیں اور نہ اب میسر ہیں اس وقت تو کراچی کے شہری ایک ایسے میئر کے رحم و کرم پر ہیں جو بار بار یہ مایوس کن نعرہ بلند کرتے نہیں تھکتے کہ وہ بے اختیار ہیں حالانکہ انھیں کچھ تو اختیارات ضرور حاصل ہیں مگر افسوس کہ وہ تو انھیں بھی بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے ایک ڈرامہ رچایا تھا جس کے ذریعے انھوں نے اپنی مصیبت مصطفیٰ کمال کے سر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ کراچی کو کچرے سے صاف کرنا ایک بڑا چیلنج تھا مگر عوامی خدمت کے لیے انھوں نے کے ایم سی کا گاربیج ڈائریکٹر بننا خوش دلی سے قبول کرلیا تھا۔
وسیم اختر کراچی کو کچرا کنڈی بنا کر اس کا کچرا مصطفیٰ کمال سے اس لیے صاف کرانا چاہتے تھے کیونکہ یہ شخص انھیں ان کے فرائض یاد دلایا کرتا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے ان کی توقعات کے برعکس شہر کو گندگی سے پاک کرنے کے لیے ایسا جوش و جذبہ دکھایا کہ وسیم اختر نے اپنی عزت بچانے کے لیے فوراً اپنا آرڈر واپس لے لیا اور یوں شہر پھر جوں کا توں کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کرتا رہ گیا۔
پی ایس پی عام انتخابات میں کوئی سیٹ نہیں جیت سکی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس نئی پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اکثر نئی پارٹیاں ایسی شکستوں سے بکھر جاتی ہیں مگر اس کے کارکنان کی ہمت و استقامت قابل دید ہے کہ پارٹی قائم و دائم رہی اور اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اس پارٹی کی مضبوطی کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس نے کراچی اور سندھ کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلائی اس پارٹی نے ایک ایسے طاقتور کو شکست دی جو سندھی اور مہاجروں کو لڑانے کے علاوہ سندھ کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتا تھا۔ وہ تو خیر ہوگئی کہ اس طاقتور کی حکمرانی ختم ہوگئی ورنہ وہ تو پاکستان کے ہی ٹکڑے کرا دیتا۔
پی ایس پی کے لاڑکانہ میں منعقدہ جلسے میں عوام کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کی بات کی گئی گوکہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں اس لیے کہ عمران خان نے ان سے بڑھ چڑھ کر وعدے کیے تھے مگر افسوس کہ ان کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی کا جن بوتل سے ایسا باہر آیا ہے کہ پورا پاکستان اس کے شکنجے میں پھنس چکا ہے۔ اب لگتا ہے اسے پھر بوتل میں بند کرنا پی ٹی آئی کی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ صرف پندرہ مہینے میں مہنگائی اور بے روزگاری کا یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا؟
آٹا چینی وغیرہ کی مہنگائی تو ایک طرف ان کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ پھر گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور عوام کو بہت بھاری پڑ رہا ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف نے عام انتخابات میں غیر متوقع کامیابی ضرور حاصل کی ہے مگر اس کے ارکان اسمبلی کا عوام کی خدمت کرنے میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے حالات میں لگتا ہے سندھ کے عوام اب کسی نئی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ سندھ کے عوام جہاں معاشی مسائل سے نبرد آزما ہیں وہاں بنیادی شہری مسائل بھی اہم ایشو بن چکے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق سال رواں کے اگست کے مہینے میں بلدیاتی الیکشن ہونے کا امکان ہے۔ سندھ کے عوام کی خواہش ہے کہ انھیں جلد ازجلد منعقد کرایا جائے تاکہ عوام کا درد رکھنے والی قیادت سامنے آئے اور انھیں بلدیاتی مسائل سے نجات دلائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ایس پی اگر بلدیاتی الیکشن میں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لیتی ہے تو وہ دوسری پارٹیوں پر سبقت لے سکتی ہے کیونکہ بحیثیت میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی کارکردگی مثالی تھی صرف کراچی ہی نہیں اسے سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اس وقت سندھ کے اکثر شہروں کا برا حال ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب یہ بات مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ لاڑکانہ کے عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرایع کے مطابق پی ایس پی نے وہاں کے عوام کے اصرار پر ہی جلسہ منعقد کیا ہے پھر وہاں کے با اثر افراد نے جلسے کے انعقاد میں بھرپور تعاون دراز کیا ہے چنانچہ پیپلز پارٹی کو اب نوشتہ دیوار پڑھنے میں ذرا غلطی نہیں کرنی چاہیے اور اپنی خوش فہمی سے نکل کر اپنی کارکردگی کا ضرور جائزہ لینا چاہیے ساتھ ہی اس کی قیادت کے بارے میں وڈیرہ شاہی جیسا رویہ اپنانے کا جو عوام میں تاثر ابھرا ہے اسے بھی دور کیا جانا چاہیے۔