’’یروشلم بیت المقدس‘‘

ترقی یافتہ دنیا نے یہ تماشا کھلی آنکھوں سے دیکھا مگر کسی کو مظلوموں کے حق میں آواز اُٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔


Amjad Islam Amjad February 02, 2020
[email protected]

پہلی جنگ عظیم کے دوران جس بالفور ڈیکلیریشن کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں آبادیاں بنانے کی اجازت اور ایک اسرائیلی حکومت قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا، آج تقریباً ایک صدی کے بعد اُس علاقے کی صورت کچھ یوں ہے کہ وہاں کے اصل باشندے یا تو مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں یا اُن کی بستیوں میں سوائے خوف اور ذلّت کے کچھ باقی نہیں بچا۔

اس میں شک نہیں کہ آغاز میں خود فلسطین کے لوگوں نے ہی ان آبادیوں کے لیے اپنی زمینیں فروخت کر کے اُس تسلّط کی راہ ہموار کی جس سے نکلنے کے لیے بعض ہمسایہ عرب ممالک کی مدد کے باوجود1955-1945 اور پھر 1967 کی جنگ حزیران میں شکستوں کے بعد فلسطین کے بیشتر علاقے پر اسرائیل نے بزورِ شمشیر قبضہ کر لیا اور نہ صرف وہاں نئی بستیاں بسا لیں بلکہ باقی ماندہ فلسطین کو بھی ایسی پابندیوں میں جکڑ دیا کہ وہ لوگ اپنے ہی ملک میں غلام بن گئے ہیں ۔

ساری نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دنیا نے یہ تماشا کھلی آنکھوں سے دیکھا مگر کسی کو مظلوموں کے حق میں آواز اُٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔ ارد گرد کے عرب اور اسلامی ممالک بھی ایک ایک کر کے خاموش اور الگ ہوتے چلے گئے کہ استعماری قوتوں نے ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت یا تو انھیں ایسا کرنے پر محصو ر کر دیا یا سِرے سے اُن کا وجود ہی ختم کر دیا، کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے بعد اسرائیل کی اس ناجائز اور زبردستی قائم کی جانے والی ریاست کو نہ صرف (واستشنائے چند) تسلیم کر لیا گیا بلکہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھی کھلے عام مدد اور تحریک فراہم کی گئی اور اب یہ حال ہے کہ عملی طور پر فلسطینیوں کی آبادیوں اور ان کی نقل و حرکت کا سارا کنٹرول اسرائیلی افواج اور ایجنسیوں کے پاس ہے یہاں تک کہ یروشلم یعنی بیت المقدس کا علاقہ بھی اُن کے لیے نیم ممنوعہ علاقہ بن گیا کہ اس کا زیادہ تر حصہ اسرائیل کے کنٹرول میں تھا، اس ناجائز قبضے کو قانونی شکل دینے کے لیے بہت سی کارروائیاں کی گئیں جن میں سے آخری یروشلم کو اسرائیل کا باقاعدہ اور مستقل حصہ قرار دینا ہے۔

اس اونٹ کی کمر پر آخری اینٹ چند دن قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے اُس اعلان کے ذریعے رکھ دی ہے جس کے مطابق اس شہر کے ایک چھوٹے سے حصے کے علاوہ سارا کنٹرول اسرائیل کا ہو گا۔ حسبِ سابق اس بار بھی ساری دنیا بشمول اسلامی ممالک خاموش ہیں یا ایسے انداز میں ردّعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ذہن بے اختیار غالبؔ کے اس مصرعے کی طرف جاتا ہے کہ

ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

ایسے میں ترکی کے صدر طیب اردوان کا بیان پوری اسلامی دنیا سے اُٹھنے والی یہ واحد آواز ہے جس نے ہماری غیرت اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے انھوں نے کہا:''اگر ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے تو مدینہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکیں گے اگر مدینہ ہاتھ سے نکل گیا تو مکہ کو بھی نہیں بچا پائیں گے، اگر ہم نے مکہ کھو دیا تو کعبہ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ مت بھولو بیت المقدس کا مطلب استنبول، ا سلام آباد، جکارتہ ہے، مدینہ منورہ کا مطلب قاہرہ، دمشق اور بغدا د ہے۔کعبہ، تمام مسلمانوں کا وقار، ناموس، فخر، وحدت کی علامت اور مقصد حیات ہے۔ ہم ان مقدسات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ اللہ اور اسلاف نے جو امانت ہمیں دی ہے اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔''

اس ولولہ انگیز اور فکر آفرین تقریر کو سن کر میرا دل بے اختیا ر اُن بے شمار نظموں کی فضا میں سانس لینے لگا جو فلسطین کے مزاحمتی شاعروں نے ا س عرصے اور بالخصوص 1967 کی جنگ حزیران کے ردّعمل میں لکھی ہیں جن میں سے چھ شاعروں کی نظموں کے منظوم متراجم مجھے بھی کرنے کا موقع ملا ہے (محمود درویش ، نزار قبانی، عبدالوہاب البیاسی، سمیع القاسم، فدویٰ طوقان، نازک الملائکہ) کوئی تیس برس قبل '' بیت المقدس کی ایک شام'' کے عنوان سے خود میں نے بھی ایک نظم لکھی تھی جس کا بہت خوبصورت انگریزی ترجمہ برادرم خواجہ وقاص نے کیا تھا، اس نظم کے آخری بند اور سمیع القاسم کی ایک مختصر نظم کے ساتھ میں یہ سوال اپنے سمیت اُن تمام اہلِ فکر و نظر اور داعیانِ حق و انصاف کے لیے چھوڑتا ہوں کہ اگر دنیا اسی طرح ظلم کے آگے گردن جھکاتی اور صرف زیرلب بڑ بڑاتی رہی تو آنے والا کل ہمارے بارے میں کیا سوچے گا؟ تو آیئے پہلے میری نظم کا آخری بند دیکھیے۔

درِ شہرِ اقدس کے باہر کھڑا میں یہی سوچتا ہوں

کہاں تک یہ ذلت کی اور غم کی آتش

مرے دل ہی دل میں سلگتی رہے گی؟

گھنی شام کی یہ گھنیری اُداسی

کہاں تک مرے ساتھ چلتی رہے گی؟

اور اب سمیع القاسم کی آواز میں اُس دکھ اور للکار کو مجسم دیکھیے جو طیب اردگان کے لہجے سے جھلک رہی تھی اور پھر سوچیئے کہ کب تک ہم خاموش تماشائی بنے اس ٹوٹتے ہوئے منظر کو دیکھتے رہیں گے اور اس نظم میں موجود اُمید اور ارادہ کب اور کیسے ہمارے دلوں اور ضمیر عالم کو بیدار کر پائیں گے ۔

ایک دن ا ن لہو میں نہائے ہوئے

بازوئوں میں نئے بال و پَر آئیں گے

وقت کے ساتھ سب گھائو بھر جائیں گے

ان فضائوں میں پھر اُس پرندے کے نغمے بکھر جائیں گے

جو گرفتِ خزاں سے پرے رہ گیا

اور جاتے ہوئے، سُرخ پُھولوں کے کانوں میں یہ کہہ گیا

''ایک لمحہ ہو یا اک صدی دوستو

مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پَروں کی قسم

اس چمن کی بہاریں میں لوٹائوں گا

فاصلوں کی فصیلیں گراتا ہوا

میں ضرور آئوں گا

میں ضرور آئوں گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں