قیامتوں کے بیچ زندگی
موتیا کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ اوس سے سبزہ کتنا تر و تازہ ہو گیا ہے اور درخت کتنے شاداب دکھائی دے رہے ہیں۔
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو دیکھا کہ اخبار غائب ہے۔ کسی ہاکر نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ ہاں منڈیر پر بیٹھا کا گا بول رہا تھا۔ پہلے تو سمجھ میں نہ آیا کہ یہ صبح خالی خالی کیوں نظر آ رہی ہے۔ پھر اچانک احساس ہوا کہ ارے یہ تو کوئی پرانی صبح لوٹ آئی ہے۔ اخبار کو تو آج آنا ہی نہیں تھا۔ کل عاشور کا دن تھا۔ سارا دن عزائی جلوسوں کا وفور رہا۔ نوحہ و سلام کی گونج رہی۔ خلقت کی امنڈ گھمنڈ۔ یا حسین یا حسین کی صدائیں۔ رات گئے اس صدائے گریہ پر یوم عاشور تمام ہوا
عشرہ ہوا تمام شہِ مشرقین کا
دو فاطمہ کی روح کو پرسا حسین کا
اب صبح ہو رہی ہے۔ کاروبارِ دنیا پھر سے شروع۔ مگر یہ کاروبار شروع ہوتے ہوتے ہو گا۔ کل سارے کاروبار بند تھے۔ سو پرنٹنگ پریس بھی خاموش تھا۔ سو آج کتنے دنوں بعد ایسی صبح چڑھی ہے کہ اخبار سے بے نیاز ہے۔ یہ صبح دنیاوی جھگڑوں کی اچھی بری خبروں سے پاک ہے۔ ایسا دن کب کب آتا ہے۔
ارے گزرے زمانے میں تو ہماری صبحوں کا یہی رنگ ہوا کرتا تھا۔ اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں۔ ہوا چلی۔ کلی کِھلی۔ دور کوئی مرغا بولا۔ ککڑوں کوں۔ اس کے ساتھ چڑیوں کی چہکار سے فضا میں چہک مہک ہوئی۔ پھر دور سے آتی موذن کی آواز۔ لیجیے یہ تو سچ مچ صبح ہو گئی۔ پرانے محاورے کے حساب سے صبح صادق کی نمود۔ پھر بستر پہ پڑے کیوں اینڈ رہے ہو۔ اٹھو۔ فریضہ سحری ادا کرو۔ وضو کرو۔ نماز پڑھو۔ باہر قدم نکالو۔ گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو۔ بیلے چنبیلی کی، موتیا کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ اوس سے سبزہ کتنا تر و تازہ ہو گیا ہے اور درخت کتنے شاداب دکھائی دے رہے ہیں۔
واپس آئے تو دیکھا کہ بی اماں جانماز پر بیٹھی ہیں اور لرزتی کانپتی آواز میں کوئی مناجات پڑھ رہی ہیں ع
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دُعا ہے
چولہا گرم ہے۔ انڈوں کا حلوہ بن چکا ہے۔ اب توے سے پراٹھا اتر رہا ہے۔ منڈیر پر بیٹھا ایک کوا انتظار کر رہا ہے۔ وہ بھی تو اپنا حصہ لے بٹانے کے لیے پر تول رہا ہے۔
یہ صبحیں تھیں یا پوری ایک تہذیب۔ وہ تہذیب رخت گذشت ہوئی۔ اب نیا زمانہ ہے۔ نئی صبحیں ہیں۔ ان صبحوں کا طور اور ہے۔ صبح ہوئی اور ریڈیو کی آواز گونجنے لگی۔ پہلے اکیلا ریڈیو تھا۔ پھر ٹی وی بھی آ گیا۔ یک نہ شد دو شد۔ مگر خیر ریڈیو بیچارہ پیچھے رہ گیا۔ مگر ہاں وہ اخبار۔ ریڈیو اور ٹی وی پر تو ہمارا اختیار چلتا تھا۔ جب سوئچ گھمائیں گے تب ہی تو وہ اپنی راگنی گائیں گے مگر اخبار جب ایک مرتبہ جاری ہو گیا تو اب وہ ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ ہم چاہیں نہ چاہیں صبح ہی صبح ہاکر دستک دے گا اور اخبار پھینک جائے گا۔ اخبار جب آ گیا تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ تم اسے فراموش کر دیں۔ اب اسے پڑھنا ہی پڑھنا۔ اچھی بری خبریں سب پہ نظر دوڑانی۔ ارے اچھی خبریں اب کہاں۔ ان کے لیے تو آنکھیں اور کان ترستے ہیں۔ قتل' خون' بم دھماکے۔ خود کش حملے۔ وہاں گولی چل گئی۔ ادھر مسجد میں بم پھٹ گیا۔ کتنے نمازی اللہ کو پیارے ہو گئے اور فلاں مارکیٹ میں قیامت۔ کتنے بچے کتنی عورتیں' کتنے خریدار راہی ملک عدم۔ آج یہاں کل وہاں۔ موت کا فرشتہ آج اس نگر میں۔ سرگرم ہے۔ کل فلاں نگر میں مصروف کار تھا۔
مگر عادی اخبار بینوں سے پوچھو۔ اخبار کا اپنا نشہ ہے۔ جس دن اخبار نہیں آئے گا۔ بیکل پھر رہے ہیں کہ دنیا سے رشتہ کٹا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کہ کس دیس میں کیا واردات گزر گئی۔ اور کس علاقے میں بساط سیاست کے شاطر کیا چال چل گئے۔
سو یہ نیا زمانہ ہے۔ اور یہ زندگی ہماری ہے۔ فساد فی الارض کا منظر ہے۔ امن چین کا اگر کوئی زمانہ تھا تو وہ کب کا گزر گیا۔ اب احوال یہ ہے کہ ع
آسودگی حرفیست نہ یاں ہے نہ وہاں ہے
ہم تو یہی سوچتے تھے کہ زمانہ پر آشوب ہے۔ سروں پر خون سوار ہے۔ جینے کا کوئی قرینہ نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں ادب ودب کیا بیچتا ہے۔ کہاں کی رباعی کہاں کی غزل مگر نہیں اسی فضا میں ادبی کانفرنسوں سیمیناروں کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ لاہور میں ایک ادبی فیسٹیول ہو چکا ہے۔ ایک نہیں دو۔ ایک تو ایکسپریس کی اردو کانفرنس۔ دوسرا ایک ادبی فیسٹیول۔ شہر کی تین بیبیوں نے جھرجھری لی اور انگریزی اردو پنجابی کا ملا جلا فیسٹیول کر ڈالا۔ اب الحمرا آرٹ کونسل میں ایک اور ادبی کانفرنس کی تیاری ہے۔ ادھر کراچی میں الگ ہنڈیا پک رہی ہے۔ آخر وہاں بھی تو آرٹ کونسل سرگرم عمل ہے۔ وہ بھی ایک ادبی کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
مطلب یہ کہ قیامتیں بھی بپا ہو رہی ہیں اور انسانی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ شاید یوں ہے کہ جب آشوب لمبا کھنچ جائے تو پھر اس کا خوف زائل ہو جاتا ہے۔ لوگ اس پُر آشوب فضا سے مفاہمت کر لیتے ہیں۔ آخر زندہ لوگ کتنے دن ڈرے سہمے گھروں میں بند بیٹھے رہ سکتے ہیں۔
قیامتوں کے بیچ زندگی کرنے کی راہیں نکال لیتے ہیں۔ اندیشہائے دور دراز اپنی جگہ۔ انسانی کھیل تماشے اپنی جگہ۔ اب ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے کسی ایک کوچے میں قیامت گزر گئی۔ خود کش حملہ ہوا تھا۔ اب وہاں پولیس سرگرم ہے اور لوگ ہراساں ہے۔ مگر دوسرے کوچوں میں زندگی رواں دواں ہے۔ یہ ہے اکیسویں صدی میں زندگی کا طور۔